کراچی کی شاموں کا اپنا سحرہے۔ ان میں سمندر کی ہوا ؤں کا نم کتنے ہی بیتے فسانوں کی یاد دلاتا ہے ۔آج ایک مدت بعد میں کراچی آیا ہوں‘ سمندر سے کچھ فاصلے پر ایک کشادہ گھر کے وسیع لان میں بیٹھے سمندر کی نم ہو ا میرے چہرے سے ٹکرائی تو مجھے کراچی میں بتائے شب وروز یا د آنے لگے۔ کراچی سے میرا پہلا تعارف 1991ء میں ہوا جب میںکینیڈین کامن ویلتھ سکالر شپ کے تحت پی ایچ ڈی کے لیے یونیورسٹی آف ٹورنٹو جا رہا تھا اور ایک دن کے لیے کراچی رکا تھا جہاں میرے کزن کرنل نجیب رہتے تھے۔ اس زمانے کا ملیر کینٹ آج کے ملیر کینٹ سے خاصا مختلف تھا۔ بہت کم آبادی ‘ بہت سی کھلی بے آباد جگہیں‘ ایک مختصر سا بازار جہاں قطار کی صورت آمنے سامنے عام سادہ سی دکانیں‘یوں سمجھیں وہ شہر سے زیادہ ایک قصبے کا حصہ معلوم ہوتا تھا۔خاموش اور کھویا کھویا۔
وہ کراچی کا میرا پہلا ایک دن اور ایک رات کا قیام تھا۔ اگلے روز مجھے ٹورنٹو کی فلائٹ پر جانا تھا‘ جہاں کینیڈاکے سرد موسم میں چار سال گزارنا تھے۔ پی ایچ ڈی کے بعد جب میں پاکستان آیا تو بہت سی راہوں میں ایک راہ مجھے کراچی لے آئی اور میں آغا خان یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن سے منسلک ہو گیا جو کریم آبادمیں واقع تھا ۔اس زمانے میں میرے پاس سیکند ہینڈسفید رنگ کی شیراڈ تھی‘ اس کا پہلا مالک کوئی شوقین مزاج تھا جس نے دو ایکسٹرا سائیڈ مِررز لگا کر اپنی گاڑی کو سجایا تھا ۔ مجھے یاد ہے وہ کراچی میں میرا دوسرا دن تھا ‘آسمان پر بادلوں کو دیکھ کر میں نے اپنے دوست سے کہا:لگتا ہے کچھ دیر میں بارش شروع ہو جائے گی ‘اس نے میر ی بات سُن کر قہقہہ لگایا اور بولا: یہ کراچی کے بادل ہیں ‘ان کا بارش سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور اس دن واقعی بارش نہیں ہوئی۔
کراچی میں میرے تین سالہ قیام کے دوران کبھی کبھار ہی بارش ہوئی ‘لیکن جب بھی بارش ہوتی سڑکیں اور فٹ پاتھ پانی میں ڈوب جاتے۔ اس زمانے کا ملیر کینٹ اب ایک بھولی بسری کہانی لگتا ہے۔ ملیر کینٹ سے انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن ڈیویلپمنٹ کا فاصلہ تقریباً آدھے گھنٹے کا تھا۔ انسٹی ٹیوٹ کے راستے میںمُکہ چوک اور مشہور زمانہ نائن زیرو آتا تھا‘ جہاںایم کیو ایم کا مرکزی دفتر تھا ۔ان دنوں ایم کیو ایم کی پہیہ جام ہڑتال کی اصطلاح عام تھی‘ جس روز ہڑتال کا اعلان کیا جاتا ایک روز پہلے شام سے فائرنگ کا سلسلہ شروع ہو جاتا اور خوف اور دہشت کی ایسی فضا ہوتی کہ سڑکیںسنسان ہو جاتیں ۔ایک روز اچانک فائرنگ کی آواز آنا شروع ہوئی‘ چو نکہ ہمارا انسٹی ٹیوٹ کریم آباد میں واقع تھا اس لئے ہمیں شہر کے حالات کا اندازہ ہو جاتا‘ اس دن میرے علاوہ ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر ایلن ویلر ((Alan whaler بھی آفس میں تھے ۔ ایلن کا تعلق کینیڈا سے تھا‘ اس روز چھٹی کا دن تھا لہٰذا ہم دونوں کے علاوہ پوری عمارت میں کوئی نہیں تھا۔ مجھے ایلن کو اس کے گھر پہنچانا تھا‘ وہ دن میری زندگی کے ناقابل فراموش دنوں میں سے ایک دن تھا۔ جب میںسڑک پر اردگرد جلتے ہوئے ٹائروں کے درمیان میں شیراڈ کو چلاتا ہوا جا رہا تھا تو ایلن کی نیلی آنکھوں میں خوف کے سائے تھے اور میں دل میں دعا کر رہا تھاکہ میں اسے صحیح سلامت گھر پہنچانے میں کامیاب ہو جائوں۔ مجھے یاد ہے ہم نے پورے راستے ایک دوسرے سے کوئی بات نہ کی۔ جب میںنے ایلن کو اس کے گھر اتارا تو یوں لگا میرے کندھوں سے ایک بھاری بوجھ اتر گیاہے۔انسٹی ٹیوٹ کے کریم آباد میں ہونے کا ایک فائدہ بھی تھا کہ ہم جب کام سے تھک جاتے تو نہاری کی مشہور دکان جاوید نہاری چلے جاتے ‘جہاں گرم گرم نانوں کے ہمراہ نہاری کا اپنا مزا تھا۔اس زمانے میں باربی کیو ٹو نائٹ کا آغاز ہو رہا تھا‘ ہم اکژ وہاں جاتے‘ کھانے کے بعد وہیں قریب پان کی دکان تھی جس کی بغل میں لیبرٹی بکس کی شاپ تھی جہاںپر ہم ضرور جاتے۔
کراچی ایک شہر نہیں کئی شہروں کامجموعہ لگتا تھا۔ایک جگہ سے دوسری جگہ کے درمیان ایک طویل فاصلہ ۔ شروع ہی میں مجھے پتہ چل گیا کہ کراچی میںچوک کو چورنگی کہتے ہیں ۔چورنگی سے یاد آیا کراچی میں ایک چورنگی کا نام ناگن چورنگی ہے‘ معلوم نہیںاس نام کا پس منظر کیا ہے۔کراچی میںزندگی کی رفتار تیز ہے۔ ایک مسابقت کا ماحول ۔یوں کراچی صحیح معنوں میں ایک کاسموپولیٹن شہر ہے۔کراچی میں پام اور پپیتہ کے درخت عام ہیں۔ شام کے وقت سمندرکی ہوا پام کے درختوں کو چھوتی ہوئی شام کو اور حسین بنا دیتی ۔کراچی کے کئی روپ اور کئی نام ہیں۔شہرِ قائد‘روشنیوں کا شہر‘عروس البلاد۔اور یہ سارے نام اسے جچتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب کولاچی ایک چھوٹے سے گائوں کا نام تھااور پھر ایک دن ایسا آیا کہ یہ سندھ کے صوبے کا دارالحکومت بن گیا۔ کولاچی سے کراچی تک کا سفر حیران کن ہے۔ کراچی میں تہذیبوں‘ زبانوں‘مذاہب اور ثقافتوں کا ایک تنوع ہے اور یہی تنوع کراچی کی خوبصورتی ہے۔کراچی میںہر نووارد کی طرح میں بھی بانی ٔپاکستان کے مقبرے پر حاضر ہوا ۔ایک پرشکوہ عمارت جہاں تمام حریفوں سے لڑتا ہوا نحیف جسم اب آسودۂ خواب ہے ۔کراچی میں مہتہ پیلس فنِ تعمیر کا اچھوتا نمونہ ہے۔ اسی طرح فریئر ہال جس کی تعمیر1865ء میں ہوئی‘ کی طرزِ تعمیر اب بھی سیاحوں کا دامنِ دل اپنی طرف کھینچتی ہے۔میں نے ان دونوں عمارتوں کو تیز بارش میں بھیگتے دیکھا‘جن سے ان کا حسن اور بھی نکھر گیا۔ کراچی کی ایک اور اہم جگہ ایمپریس مارکیٹ تھی یہ مارکیٹ برطانوی دورِ حکومت کی یادگار ہے اور اس زمانے کی مصروف ترین مارکیٹ تھی اور پھر ساحل سمندرپر واقع کلفٹن جہاں میں اکثرجا کر سمندر کی آتی جاتی لہروں کو دیکھا کرتا تھا۔ گرمیوں کی شاموں میں تو یہاںہر رو ز میلے کا سماں ہوتا تھا۔اس زمانے میں سمندر کے کنارے ایک ہوٹل تھا جہاں بیٹھ کر شیشے کی دیواروں کے پار ہم دور دور تک پھیلے ہوئے سمندر کو دیکھتے۔ اب تو دو دریا کے مقام پر ریستورانوں کا ایک جمگھٹا ہے‘ لیکن اس وقت سمندر کے کنارے اتنے آباد نہیں تھے ۔مجھے یاد ہے کھانے کے بعد ہم سمندر کے کنارے ٹھنڈی ریت پر دیر تک چلتے رہتے۔
اچانک میں لمحۂ حال میں آ جاتا ہوں۔ سمندر سے کچھ دور ایک کشادہ گھر کا وسیع لان او ر ایک لمبی کھانے کی میز پر یارِعزیز شکیل کی مہمان نوازی کے طلسمات۔شکیل الرحمن صاحب سے میرا تعارف کئی برس پہلے کراچی لٹریچر فیسٹیول میں ہوا جہاں وہ شکیل عادل زادہ صاحب کے ہمراہ آ ئے تھے۔ شاعری کا عمدہ ذوق رکھتے ہیں اور ان کے ہاں کراچی کی بہترین نہاری بنتی ہے۔ لان میں کھانے کے بعد ہوا میں خنکی بڑھ گئی تو ہم کمرے میں آگئے جہاں شعروسخن کی محفل آراستہ ہوئی۔وہ ایک یادگار محفل تھی جو مجھے دیر تک یاد رہے گی ۔ اب بھی جب اسلام آباد میں ٹھنڈی ہوا چلتی ہے تو مجھے کرا چی کی نم ہوا ؤں میں بسی شامیں یاد آجاتی ہیں اور ان کے ساتھ ہی پام کے جھولتے ہوئے درخت‘ بارشوں میں بھیگتی عمارتیں اوران کے ساتھ کتنے ہی دوستوں کے چہرے جنہیں کراچی نے مجھ سے ملایا تھا۔
کراچی میں تہذیبوں‘ زبانوں‘مذاہب اور ثقافتوں کا ایک تنوع ہے اور یہی تنوع کراچی کی خوبصورتی ہے۔کراچی میںہر نووارد کی طرح میں بھی بانی ٔپاکستان کے مقبرے پر حاضر ہوا ۔ایک پرشکوہ عمارت جہاں تمام حریفوں سے لڑتا ہوا نحیف جسم اب آسودۂ خواب ہے ۔کراچی میں مہتہ پیلس فنِ تعمیر کا اچھوتا نمونہ ہے۔ اسی طرح فریئر ہال جس کی تعمیر1865ء میں ہوئی۔