ایک دیہاتی میلہ دیکھنے شہر گیا۔ میلے کی رنگینیوں میں وہ ایسا گم ہوا کہ کچھ ہوش نہ رہا۔ ہوش آیا تو پتہ چلا کہ کِسی نے جیب کاٹ لی ہے۔ بڑی مشکل سے گھر واپس پہنچا۔ کِسی نے پوچھا میلہ کیسا تھا۔ اُس نے تپ کر جواب دیا۔ ’’کاہے کا میلہ؟ میرا مال لُوٹنے کے لیے یہ سارا تماشا کھڑا کیا تھا!‘‘ ہمارے ہاں بھی جب کبھی انتخابی میلے کی رونقیں جلوہ افروز ہوتی ہیں، بہتوں کی جیبیں کٹ جاتی ہیں۔ سابق صدر پرویز مشرف کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ وہ بھی الیکشن کے میلے کی رونقیں دیکھنے اور اِس میں دوچار کرتب دِکھانے کے ارادے سے آئے تھے۔ انگریزی میں کہتے ہیں کہ سارے راستے روم کی طرف جاتے ہیں۔ اِس وقت پاکستان میں تمام مقدمات پرویز مشرف کی طرف جاتے بلکہ آتے دِکھائی دے رہے ہیں! وہ ابھی آ کر ٹھیک سے بیٹھے بھی نہ تھے، سانس لیا تھا نہ دامن سنبھالا تھا کہ دَھر لیے گئے! سابق کمانڈو صدر کے پاس منصب نہیں رہا تو سبھی اُن کے خلاف ہو گئے ہیں۔ عمران خان اور پرویز مشرف کا مخمصہ مشترکہ ہے۔ دونوں کو مُشیر لے ڈوبے ہیں! عمران خان کے پاس تو خیر سے تھوڑے بہت آپشنز ہیں مگر پرویز مشرف کیا کریں، کہاں جائیں؟ اُنہیں تو ’’بندۂ بے دام‘‘ جیسے لِکھاری بھی میسر نہیں جو کالموں کے ذریعے کُشتوں کے پُشتے لگا دیں۔ گوروں کو اُن کے اپنے دیس میں لیکچر دینا کیا کم مزے کا کام تھا؟ پرویز مشرف دُنیا بھر کی سیر بھی کر رہے تھے اور جیسے تیسے کچھ نہ کچھ بول کر مال بھی پیٹ رہے تھے۔ پتہ نہیں قریبی حلقے میں پائے جانے والے کِس گھامڑ نے سابق مردِ اوّل کے دماغ میں ’’مسٹر پاکستان‘‘ بننے کی ہوا بھری اور وطن واپسی کا مشورہ دے کر دوبارہ تنازعات اور مقدمات کی دلدل میں دھکیل دیا۔ اور سابق صدر کو کیا ہوا تھا؟ اپنے ہی پیروں پر کلہاڑی مارنے بیٹھ گئے! لندن سے خوشی خوشی چلے اور دُبئی میں مختصر قیام کے بعد کراچی پہنچ کر پتہ چلا ع ناداں تھے ہم جو آپ کی محفل میں آ گئے! کچھ لوگ تو جیسے چُھروں اور بُغدوں کی دھار تیز کر کے تیار بیٹھے تھے۔ سابق صدر کے طیارے کی کراچی میں لینڈنگ کی دیر تھی‘ ایک مُدت سے اُنہیں تلاش کرتی ہوئی پریشانیاں بھی فضاؤں کی سنگت ترک کر کے زمین پر اُتر آئیں! پُھولوں کی پَتّیاں تو بعد میں نچھاور ہوئیں، سوالات کے ڈونگرے پہلے برسنے لگے۔ ایک زمانے تک ’’میں کِسی سے ڈرتا ورتا نہیں ہوں‘‘ کی گردان کرنے والے پرویز مشرف کی آنکھیں کراچی ایئرپورٹ کے باہر اپنے پرستاروں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر دیکھنے کو بے تاب تھیں۔ اور بے تاب ہی رہیں۔ تین چار ہزار افراد جمع ہو سکے اور اُن میں شارع فیصل سے گزرنے والے اور وہاں کچھ دیر ٹھہر کر تماشا دیکھنے والے بھی شامل تھے۔ اب آپ ہی بتائیے کہ کوئی نہ ڈرنے کا دعویٰ کرے اور پھر اِس دعوے کو درست ثابت کرنے کے لیے اِس دھرتی پر دوبارہ قدم رکھ بھی دے تو ایسا پھیکا سا خیر مقدم کیا اُس کی دِل شکنی کا سبب نہیں بنے گا! جس طرح عوام اپنے نمائندوں کی بے حِسی پر بار بار اپنا سا منہ لے کر رہ جاتے ہیں بالکل اُسی طرح بے چارے سابق صدر بھی اپنا سا مُنہ لے کر رہ گئے۔ رہی سہی کسر میڈیا والوں نے پوری کر دی جو اُن سے طرح طرح کے سوالات کرنے کو اُتاؤلے ہوئے جا رہے تھے۔ اِس اُتاؤلے پن نے صدر کو سنبھلنے کا موقع ہی نہ دیا۔ ہمارے محترم سابق کمانڈو صدر نے کراچی کے ایک پُرتعیش ہوٹل میں قیام فرمایا تو سکیورٹی کے نام پر اُن کا اور بہت سے دوسرے لوگوں کا ناک میں دم کر دیا گیا۔ تیسرے دن جب سابق صدر نے پریس کانفرنس کی تو اُس میں ایسے چُبھتے ہوئے سوالات داغے گئے کہ جناب کے لیے جُھکائی دینا مشکل ہو گیا۔ لوگوں نے تو بس دو تین معاملات دانتوں سے پکڑ لیے ہیں۔ بات کہیں سے بھی شروع ہو گھوم پھر کر غداری اور لال مسجد پر ختم ہوتی ہے۔ یہ دونوں داغ جس سے دُھل جائیں وہ پاؤڈر سابق آرمی چیف کو اب تک کِسی سیاسی سٹور سے مل نہیں سکا! نواب اکبر بگٹی قتل کیس بھی جی کا جنجال ہو کر رہ گیا ہے۔ سابق صدر کو کیا معلوم تھا کہ اکبر بگٹی پر گرنے والا پہاڑ بعد میں مقدمے کی صورت اُنہی کے سَر پر آ گرے گا! اکبر بگٹی کی عینک بچ گئی تھی مگر لگتا ہے کہ مقدمے کے پہاڑ تلے سابق صدر کی عینک کے لیے جان بچانا دشوار ہو جائے گا! مقدمات نے تو ہمارے ’’ممدوح‘‘ کے لیے ٹھیک سے سانس لینا بھی دشوار کر دیا ہے۔ پہلے عدالت میں پیشی، پھر جوتا مارنے کی کوشش۔ ضمانت منسوخ کر کے سابق صدر کو بھاگنے پر مجبور کرنا اور پھر اُن کے فارم ہاؤس کو سب جیل قرار دینا۔ ’’مہمانوں‘‘ کی ایسی ’’تواضع‘‘ تو کبھی ہماری ’’درخشاں‘‘ روایات کا حصہ نہ تھی! ایک طرف ہم اِس بات کا رونا روتے رہتے ہیں کہ جو باہر جا بستے ہیں وہ واپس آنے کا نام نہیں لیتے۔ اور اگر کوئی ہمت سے کام لے کر واپس آ جائے تو اُس کا ناطقہ بند کر دیتے ہیں۔ آپ ہی بتائیے کہ ہم ایسا کریں گے تو کون آئے گا! الیکشن کا میلہ سجا کر کِسی کو دوبارہ اقتدار کے خواب دیکھنے کی تحریک دینا اور پھر گہری نیند سے جھنجھوڑ کر اُٹھا دینا کوئی اچھی بات تو نہیں۔ طالع آزماؤں کا دور ختم ہوتا ہے تو سوشل میڈیا کی طالع آزمائی شروع ہو جاتی ہے۔ الیکشن کے میلے میں پرویز مشرف کی جیب کٹ گئی ہے تو بُھگتان کون کرے گا؟ کل تک اُن کی رفاقت کا دم بھرنے والے ایک ایک کر کے کِھسکتے جا رہے ہیں۔ چند سَر پھرے اُنہیں اب بھی میسر ہیں جو عدالت کے باہر مخالف وکلا سے ٹکراتے ہیں۔ مگر اُن کا بھروسہ بھی کب تک ہے؟ وقت بھی بہت ظالم ہے، کِسی کو نہیں بخشتا۔ یہ بھی نہیں دیکھتا کہ کوئی کبھی صدر، آرمی چیف، کمانڈو اور خدا جانے کیا کیا تھا! بہتوں نے اِس خدشے کا بھی اظہار کیا ہے کہ ایک ساتھ کئی پوٹلے کھول دیئے گئے ہیں اور یوں بہت سی چیزیں آپس میں اُلجھ کر رہ گئی ہیں۔ بے چاری نگران حکومت بھی پریشان ہے کہ کِس کِس معاملے پر توجہ دے۔ دھماکے بھی ہو رہے ہیں، نااہلی کے فیصلے بھی سُنائے جا رہے ہیں، بہتوں کو اہلیت سے نوازا جا رہا ہے، اربوں روپے کی کرپشن میں ملوث قرار پانے والے ایک طرف بیٹھ کر مزے سے یہ تماشا دیکھ رہے ہیں۔ ایسے میں نگران وزیر اعظم کی ذہنی اُلجھن بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ وہ شاید کچھ سمجھ نہیں پا رہے ؎ حیراں ہوں دِل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved