داعیانِ حق انسانوں کے درمیان رہتے اور انہی میں کام کرتے ہیں۔ حالات کے مدوجزر سے سابقہ پیش آتا رہتا ہے اور دھوپ چھاؤں میں سفر کرنا پڑتا ہے۔ امام حسن البنا کی شخصیت میں بے پناہ خوبیاں تھیں۔ اپنے ساتھیوں سے فرمایا کرتے تھے: ''برائی سے نفرت کرو‘ مگر برے لوگوں سے ہمدردی کرو۔ تم طبیب ہو اور طبیب تندرست وتوانا لوگوں کی بجائے بیماروں کا علاج کرتا ہے۔ برائی کی بیماری میں مبتلا تمھارے گردونواح میں جتنے بھی لوگ ہیں‘ ان تک اپنی دعوت پہنچاؤ‘ پیار اور محبت سے ان کے دل جیتو اور ان کو راہِ حق پر لے آؤ۔‘‘ حسن البنا عوام سے لے کر خواص تک روابط کے ذریعے دعوت پہنچاتے تھے۔ ان کی زندگی میں اس طرح کے بے شمار واقعات کا تذکرہ ملتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اصحابِ اقتدار داعیانِ حق کو ہمیشہ بجا طو رپر اپنا حریف سمجھتے ہیں۔ حکمرانوں سے قرب دعوت پہنچانے کا ذریعہ بھی بنتا ہے‘ مگر بسا اوقات اس کے نتیجے میں خود داعی غیر محسوس طور پر اپنے اوصاف کھونے لگتا ہے۔ عزیمت کی جگہ رخصت اور کش مکش کی بجائے مصالحت کا راستہ اقرب الی الصواب نظر آنے لگتا ہے۔
وقتی طور پر اچھے تعلقات کے نتیجے میں کچھ مفید اور اصلاحی کام بھی کروائے جاسکتے ہیں‘ مگر دعوتِ حق کی حقیقی منزل‘ یعنی مکمل اسلامی انقلاب تک پہنچنا‘ بھرپور اور زوردار جدوجہد کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ داعیانِ حق جب مسلسل چھاؤں میں زندگی بسر کرنے کے عادی ہوجائیں تو پھر ان کے لیے دھوپ میں نکلنا ممکن نہیں رہتا۔ چھوٹے چھوٹے مفادات‘ بڑے بڑے مقاصد پر غالب آجاتے ہیں اورداعی مسلسل بلندی سے پستی کی طرف لڑھکتا چلا جاتا ہے۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہوتا ہے کہ داعی صورت حال کا صحیح ادراک کرنے کی بجائے اپنے کمزور موقف اور روش کو درست ثابت کرنے کیلئے دلائل ڈھونڈنے لگتا ہے۔ نوبت یہاں تک آپہنچتی ہے کہ فریب خوردگی کے غبار میں جوہرِقابل گم ہوجاتا ہے۔ شاعر مشرق کے الفاظ میں:
وہ فریب خوردہ شاہیں کہ پلا ہو کرگسوں میں
اسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ و رسمِ شہبازی
ہمارے دور کی دو عظیم اسلامی تحریکیں اخوان المسلمین اور جماعت اسلامی ہیں۔ ان تحریکوں کے بانی سیدحسن البنا شہیدؒ اور سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ بے پناہ خوبیوں کے مالک تھے۔ وہ مجسمہؒ علم وحلم اور عزیمت واستقامت کے پہاڑ تھے۔ انہوں نے راہِ حق میں بڑی آزمائشیں جھیلیں‘ مگر کبھی کمزوری نہ دکھائی۔ اول الذکر نے تو اپنی جان کا نذرانہ بھی پیش کردیا‘ جبکہ موخرالذکر زندگی بھر سر سے کفن باندھے طاغوت سے برسرپیکار رہے۔ بارہا موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں‘ مگر کبھی پائے استقامت میں لغزش نہ آئی۔ سزائے موت کا فیصلہ سنا تو فرمایا کہ موت اور زندگی کے فیصلے زمین پر نہیں آسمان پر ہوتے ہیں۔ زندگی تھی تو موت شکست کھا گئی۔ ہر جانب سے نعرے بلند ہوئے ''فاتح تختہ دار مودودیؒ‘‘۔
شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
پُردَم ہے اگر تُو تو نہیں خطرۂ افتاد
سیدمودودیؒ جس طرح سختیوں کے مقابلے پہ مردِ آہن ثابت ہوئے اسی طرح تحریص اور لالچ کے پھندے کو بھی ہمیشہ پورے وقار کے ساتھ ٹھکرا دیا۔ مولانا کو فیلڈ مارشل ایوب خان نے پیش کش کی تھی کہ وہ سیاسی امور میں دل چسپی چھوڑ کر دعوت دین اور اشاعت لٹریچر کے لیے حکومت کی سرپرستی قبول کرلیں‘ مگر سید مرحوم کچی گولیاں کھیلے ہوئے نہیں تھے۔ انہوں نے اپنا جامع پروگرام دنیا کے سامنے پیش کرنے کا حق ادا کردیا۔ سیدمودودیؒ کی جماعت وقتاً فوقتاً ایک مشکل صورت حال سے دوچار ہوتی رہی ہے۔ یہ وقتی بحران ہمارے اس موضوع کا مرکز ومحور تو نہیں‘ مگر اس سے صرف نظر بھی نہیں کیا جاسکتا۔سیدمودودیؒ کی قیادت میں جماعت اسلامی نے مختلف الخیال جماعتوں اور قوتوں سے کسی طاغوتی اور فوجی آمریت اور جبر کی قوتوں کے خلاف جدوجہد کرنے کے لیے تو اتحاد قائم کیے ہیں‘ مگر کسی فوجی آمریت کے اقتدار کا حصہ بن کر اس کے ڈیزائن کے مطابق نظام میں شمولیت کا تجربہ ان کی امارت کے دوران کبھی نہیں کیا گیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر دور میں اقامتِ دین کے لیے جدوجہد جان جوکھوں کا کام رہا ہے۔ اس میدان میں سخت آزمائشیں بھی آتی ہیں اور ظاہری ناکامیوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں ہم نے نظریاتی طور پر اپنا راستہ نہیں بدلا‘ مگر سچی بات یہ ہے کہ ہمارا معیار پہلے کے مقابلے میں کافی کمزور ہے۔ مولانا مرحوم کے جانشین میاں طفیل محمدؒ‘ پھر قاضی حسین احمدؒ اور ان کے بعد سیدمنورحسن‘ سبھی نے استقامت کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھا۔ اب موجودہ امیر جماعت بھی اسی منزل کے راہی ہیں‘ مگر یہ فطری امر ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ معیار میں تبدیلی ہوتی ہے‘ کبھی مثبت بھی اور اکثر معکوس۔ زندہ تحریکیں مسلسل اپنا آڈٹ کرتی ہیں اور بیماریوں کا علاج دوا سے اور بعض اوقات آپریشن سے بھی کرنا پڑتا ہے۔
ہمارے مقابلے میں دیگر کئی مسلم ممالک میں اسلامی تحریکیں سخت آزمایشوں سے دوچار ہیں۔ مصر میں اخوان المسلمون کو عوام نے منتخب کیا‘ مگر دنیا بھر کے ظالمانہ نظام نے مل کر عوام کے نمایندوں کو ایوان اقتدار سے اٹھاکر جیل کی کال کوٹھڑی میں ڈال دیا۔ سیکڑوں لوگ شہید ہوچکے ہیں‘ سیکڑوں ہی کو ناروا سزائیں سنائی جاچکی ہیں‘ جن میں قائدین کی ایک بڑی تعداد موت اور عمر قید کی سزاوار ٹھہری ہے۔ ہزاروں مسافرانِ وفا‘ مرد ہی نہیں خواتین بھی‘ بڑے ہی نہیں بچے اور طلبہ بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے داستانِ وفا رقم کررہے ہیں۔ ملک کے منتخب صدر محمد مرسی اور اخوان کے مرشد عام ڈاکٹر محمد بدیع‘ جس جرأت وعزیمت کے ساتھ حالات کا مقابلہ کررہے ہیں‘ اس سے ہر کارکن کو حوصلہ ملتا ہے۔
اخوان کی تاریخ عظمت وعزیمت کا مرقع ہے۔ اخوان کے پہلے مرشدعام امام حسن البنا کو ۴۲سال کی عمر میں ۱۹۴۹ء کے آغاز میں شہید کردیا گیا۔ دوسرے مرشد عام حسن الہضیبیؒ اور اخوان کے سیکرٹری جنرل عبدالقادر عودہؒ کو دیگر ساتھیوں سمیت ۱۹۵۳ء میں سزائے موت سنا دی گئی۔ مرشدعام کی سزابعد میں کبرسنی کی وجہ سے عمرقید میں بدل دی گئی جبکہ عبدالقادر عودہؒ اپنے پانچ ساتھیوں سمیت ۱۹۵۴ء میں تختۂ دار پہ لٹکا دیے گئے۔ اس کے بعد ۱۹۶۶ء میں مفسرقرآن سیدقطبؒ کو پھانسی لگا دیا گیا۔ اخوان کے لیے ابتلا وآزمائش کوئی نئی بات نہیں۔ آج بھی تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے‘ ایک جانب شاہ فاروق‘ جمال عبدالناصر اور دیگر ڈکٹیٹرز کی طرح ظالم درندہ‘ جنرل عبدالفتاح سیسی ظلم کا کوڑا برسا رہا ہے تو دوسری جانب اخوان کی قیادت اور کارکنان اپنے پیش رَو عظیم رہنماؤں اور شہدا کے درخشاں نقوشِ پا پر پوری ثابت قدمی سے چل رہے ہیں۔ تجدید واحیائے دین کی پوری تاریخ میں یہ واقعات ہر دور میں رونما ہوتے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جب چاہے گا‘ ظلم کی یہ سیاہ رات ڈھل جائے گی۔
بنگلہ دیش جو مشرقی پاکستان ہوا کرتا تھا‘ اس میں جماعت اسلامی کو سالمیتِ پاکستان کے لیے قربانیاں دینے کی پاداش میں بنگلہ دیش کے قیام کے کئی سال بعد گردن زدنی قراردے دیا گیا۔ قائدین جماعت پر ایسے بے ہودہ الزامات لگائے گئے کہ بنگلہ دیش کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ ان الزامات میں ذرّہ برابر حقیقت نہیں۔ ظلم کی دیوی حسینہ واجد بھارت کی زرخرید غلام بنی‘ بنگلہ دیش میں ہندوبنیے کی پالیسیاں چلارہی ہے۔ نہ خدا کا خوف ہے‘ نہ ذرّہ برابر شرم وحیا۔ اب تک جماعت کے اہم ترین رہنما جن کی پاکیزگی اور للّٰہیت کی قسم کھائی جاسکتی ہے‘ جان قربان کرچکے ہیں۔ پروفیسرغلام اعظمؒ ۲۳اکتوبر۲۰۱۴ء کو۲۹سال کی عمر میں اور مولانا اے کے ایم یوسفؒ ۹فروری۲۰۱۴ء کو ۸۸سال کی عمر میں امام ابوحنیفہؒ اور امام ابن تیمیہؒ کی سنت زندہ کرتے ہوئے جیل میں وفات پا کر زندۂ جاوید ہوچکے ہیں۔
جماعت کے جن رہنماؤں نے دارورسن کو لبیک کہا‘ مگر ظالم کے سامنے رحم کی بھیک مانگنے سے انکار کردیا‘ ان کا کردار تاریخ میں ہمیشہ جگمگاتا رہے گا۔ عبدالقادر مُلّاؒ ۳۱دسمبر۲۰۱۳ء کو ۶۵سال کی عمر میں‘ محمد قمرالزمانؒ۲۱اپریل۲۰۱۵ء کو ۳۶سال کی عمر میں ‘ علی احسن محمد مجاہدؒ ۲۲؍ نومبر۲۰۱۵ء کو ۶۷سال کی عمر میں‘ مولانا مطیع الرحمن نظامیؒ ۵مئی ۲۰۱۶ء کو ۷۳سال کی عمر میں اور میرقاسم علیؒ ۳ستمبر۲۰۱۶ء کو ۶۴سال کی عمر میں تختۂ دار پر جامِ شہادت نوش کرگئے۔ ان عظیم شہدا کو تاریخ ہمیشہ خراجِ تحسین پیش کرتی رہے گی۔ (تفصیلات کتاب ''عزیمت کے راہی ‘‘جلد۵ اور ۶ میں دیکھی جاسکتی ہیں)
کیا خوش نصیب تھے کہ جنت کے بالاخانوںمیں شہدا کی معیّت اور سیدالشہدا حضرت حمزہؓ کی رفاقت ومحبت ان کا مقدر ٹھہری۔ مصر وبنگلہ دیش کے یہ پرعزم اہلِ ایمان زبانِ حال سے پیغام دے رہے ہیں:
یہ سارے خداؤں سے بیزار بندے
فقط ایک تیرے پرستار بندے
تیرے دینِ حق کی حمایت کے مجرمیہ
ہر اک سزا کے سزاوار بندے
یہ دنیا سے غافل یہ عقبیٰ کے طالب
یہ نادان بندے یہ ہْشیار بندے
یہ سود و زیاں کے تصور سے بالا
یہ تیری محبت سے سرشار بندے
اٹھے ہیں کہ قائم کریں دینِ حق کو
تری نصرتوں کے طلب گار بندے
ترے دینِ حق کی شہادت کے مجرم
اور اس جرم کو برملا کرنے والے
محمدؐ کی رحمت کے یہ خوشہ چیں ہیں
عدو کے بھی حق میں دُعا کرنے والے
(کاروانِ شوق‘ از نصراللہ خاں عزیزؔ‘ ص۱۱۶)