تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     27-02-2019

طرزِ حکمرانی اور کامیاب قومیں

کئی سال گزرے، پروفیسر رابرٹ نکلز کی کہی ہوئی ایک بات ابھی تک ذہن میں کندہ ہے۔ محترم نے استنبول کے اوپن ایئر کیفے میں عشائیہ کے دوران بہت پتے کی بات کہی تھی۔ قارئین کے ساتھ شیئر کرنا اس بحث کے تناظر میں ضروری ہے کہ ہم ایک کامیاب قوم کیسے بن سکتے ہیں۔ ممکن ہے‘ شعور سے خالی حکمرانوں کے لیے یہ ایک معمولی بات ہو، لیکن صاحبانِ عقل کے لیے نہیں۔ 
رابرٹ نکلز امریکہ کی یونیورسٹی میں کئی دہائیوں سے استاد ہیں۔ پاکستان سے اُن کا خاص تعلق ہے۔ وہ ہمارے معاشرے، تاریخ اور سیاست پر چند ایک کتابیں لکھ چکے ہیں۔ جب ہم کھانا کھانے میں مصروف تھے، اور یہ آخری وقت تھا‘ جب کیفے بند ہونا شروع ہو جاتے ہیں‘ صفائی کرنے والی صاف ستھری گاڑیاں نمودار ہوئیں۔ کارپوریشن کے ملازمین صفائی میں مصروف ہو گئے۔ رابرٹ نکلز نے ہمیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا، ''پاکستان اُس دن تبدیل ہو گا جب آپ کے شہروں میں کوڑا کرکٹ رات کو ہی ٹھکانے لگا دیا جائے گا‘‘۔
ہمارے ملک میں کون سا شہر، محلہ، کوئی دور دراز کی بستی یا گائوں ہے جہاں گندگی کے ڈھیر، اُڑتے ہوئے غلیظ پلاسٹ کے لفافے اورکھانے پینے کی اشیا کے ریپرز دکھائی نہ دیتے ہوں۔ درست کہ ہمارے زیادہ تر شہری ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کا وہ شعور نہیں رکھتے جو ہونا چاہیے، نہ ہی وہ اسے اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں‘ لیکن ریاست کو کیا ہوا ؟ کیا شہریوں کی تربیت، اور احتساب ریاست کی ذمہ دار ی نہیں؟ 
چند سال پہلے حکومتِ ایران کی دعوت پر کچھ دن تہران، اور کچھ دن اصفہان میں قیام کا اتفاق ہوا۔ تمام تر مشکلات، امریکہ اور کچھ مغربی ممالک کی طرف عائد کردہ معاشی پابندیوں کے باوجود ایران کا طر زِ حکمرانی پاکستان سے بہتر دکھائی دیا۔ تہران میں صبح سڑکوں اور بس سٹاپوں پر پبلک ٹرانسپورٹ بہت صاف ستھری، اور وقت کی پابند تھی۔ اصفہان کے پارکوں میں با وردی ملازمین صبح سویرے، ٹھیک آٹھ بجے باغبانی اور صفائی کے دیگر امور میں مصروف ہو جاتے۔ مغرب میں صفائی کے معیار کا تو مشاہدہ ہے، لیکن میں نے دونوں مثالیں ہمسایہ مسلم ملک کی دینا مناسب سمجھا۔ پاکستان کے کسی بھی شہر کے پارک یا دفتر میں صفائی، نظم و نسق، احساسِ ذمہ داری اور کام کا جذبہ ڈھونڈے سے نہیں ملتا۔
چھوٹے اقدامات، بنیادی اصلاحات، جن کا تعلق عام آدمی کی روزمرہ کی زندگی سے ہوتا ہے، بڑے سماجی انقلابوں کا پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں۔ سماجی تبدیلی بلند بانگ نعروں، دھمک دار تقریروں اور مسحور کن وعدوں یا دلفریب بیانات سے نہیں آتی۔ ناکام لوگ، اور ناکام ریاستیں‘ دونوں وقت کی دولت سنہرے سپنے سجانے میں ضائع کر دیتے ہیں۔ بڑے بڑ ے منصوبے بنتے ہیں، دعوے کیے جاتے ہیں، لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ کامیاب قومیں اپنی اصلاحات، اور تبدیلی کا سفر گھر، دفتر، پارک، سکول اور سڑک سے شروع کرتی ہیں۔ وہاں وقت کی پابندی کی جاتی ہے۔ نالائق اور کام چور سرکاری افسران کا احتساب ہوتا ہے۔ ہاں، بیانات سے گریز کیا جاتا ہے۔ ترقی کی شروعات بہت سادہ اور آسان ہے۔ ایشیا کا ٹائیگر بننے سے پہلے سڑک پر پڑا ہوا شاپنگ بیگ اٹھائیں۔ 
پاکستان کو سدھارنے اور معاشرے کو جدید بنانے کیلئے بہت گمبھیر بحث یا فکری عرق ریزی کی ضرورت ہے اور نہ بھاری بھرکم سرمائے کی۔ اس کیلئے طرزِ حکمرانی کو قانون اور انصاف کے تقاضوں میں ڈھالنا ہو گا۔ قوانین موجود ہیں، بلکہ سچ پوچھیں تو ضرورت سے زیادہ ہیں۔ سرکاری ملازمین اور افسران کو جوابدہ بنائیں۔ دفتروں، پارکوں اور دیگر عوامی مقامات اور کام کرنے کی جگہوں پر وقت کی پابندی کو لازمی بنانا مشکل نہیں‘ لیکن پاکستان کے سیاسی اور سماجی پسِ منظر میں وقت کی پابندی اور ذمہ داری کا احساس ایک اچنبھے کی بات دکھائی دیتی ہے۔ کامیاب ممالک میں کسی افسر یا عام ملازم کا کسی معقول عذر کے بغیر چھٹی کرنے، تاخیر سے پہنچنے یا سروس فراہم کرنے کے عوض رشوت طلب کرنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ناممکن ہے کہ کوئی ملازم ایسا رویہ اپنائے اور اپنی سیٹ پر بھی رہے بلکہ ترقی کے مراحل بھی طے کرتا رہے۔ صرف کمزور ریاستوں میں ہی ایسا ہوتا ہے۔ 
کسی ریاست کے کمزور یا طاقتور ہونے کا تعلق اس کی عسکری سکت سے نہیں، بلکہ طرزِ حکمرانی اور اداروں کی استعداد سے ہوتا ہے۔ اس میںکوئی شک نہیں کہ آج ہم تباہی کے دہانے پر پہنچنے سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن یہ ہمارے لیے کوئی نئی بات نہیں۔ ہر پانچ دس سال بعد ہم ایسی صورتحال کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کہیں کھائی ہوتی ہے تو کہیں چکراتے بگولے۔ ہمارے قرضوں کی طرح حکمران بھی گردشی نکلتے ہیں۔ ذرا سانس لینے کی فرصت ملے تو وہی گھن چکر، وہی نمائشی منصوبے، وہی چکاچوند‘ بے کار تعمیرات۔ عوام تک ان کے فوائد نہیں پہنچ پاتے اور قرضوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ 
طرزِ حکمرانی کو تبدیل کرنے کا عمل بھی ہماری تاریخ میں گردشی رہا ہے۔ بڑے بڑے منصوبہ ساز ہوشربا اصلاحاتی عمل کے ساتھ آتے ہیں‘ لیکن عملی طور پرنتائج صفر۔ موضوع، دلائل اور سفارشات میں غالب عنصر یکسانیت کا ہے۔ موضوع یہ رہا ہے کہ نوکر شاہی کو تبدیل کیا جائے، اسے موثر بنایا جائے اور حکومت کی منصوبہ بندی اور پالیسیوں پر عمل کرانے کی استعداد پیدا کی جائے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس کا ڈھانچہ نوآبادیاتی ہے۔ دو اور عناصر بھی اس کی اندرونی ثقافت کا حصہ بن چکے ہیں۔ پہلا‘ منظم کرپشن‘ دوسرا‘ سیاسی وفاداریاں۔ یہ سب تبدیل کرنے کی ضرورت ہے مگر دیکھنا ہو گا کہ جہاں ماضی کی اصلاحات ناکام ہوئیں، اب کیونکر کامیابی نصیب ہو گی۔ نہ تو موجودہ حکمران طبقہ سوائے وزیر اعظم عمران خان کے‘ مختلف ہے نہ نوکر شاہی۔ 
ڈاکٹر عشرت حسین وسیع تجربہ رکھتے ہیں، اہل اور دانشمند ہیں اور اس طرز حکمرانی کی تبدیلی کے سلسلے میں حکومتی ٹاسک فورس کے سربراہ ہیں۔ یقینا وہ پاکستانی زمین پر رہتے ہوئے آسمانی باتیں نہیں کریں گے۔ وہ اصل مسائل کا ادراک رکھتے ہوئے حقیقت پسندی سے کام لیں گے اور قابلِ عمل تجاویز قوم کے سامنے لائیں گے؛ تاہم میرے نزدیک وہ عام اور معمولی تبدیلیاں ہیں جو مروجہ طرزِ حکومت کے اندر رہتے ہوئے مستعدی سے لے آئیں تو ہم غیر معمولی اور دور رس نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔ وہ تبدیلیاں کیا ہیں، یہ سب کو معلوم ہے۔ مثال کے طور پر ٹیکس وصولی کا ایک وسیع‘ مربوط نظام اور قوانین موجود ہیں، لیکن ایسا کیوں ہے کہ جن لوگوں پر ٹیکس لازم ہے، ان سے وصول نہیں کیا جاتا؟ اس کی وجہ منظم کرپشن، سیاسی مداخلت اور کام چوری کی روایت ہے۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ کم از کم بڑے اور چھوٹے شہروں میں ہر تاجر، دکاندار اور صنعتکار رجسٹریشن اور ٹیکس نمبر کے بغیر کاروبار نہ کرسکے؟ یہ فیصلہ تحریکِ انصاف کو کرنا ہے کہ کیا ریاستی اداروں کو اسی طرح کمزور رکھنا، اور ڈنگ ٹپائو پالیسوں سے کام چلانا ہے یا حقیقی تبدیلیاں لاکر پاکستان کو ترقی کی شاہراہ پر ڈالنا ہے؟ اصل اور کٹھن چیلنج طرزِ حکمرانی میں تبدیلی لانا ہے۔ 
اگر آپ سرکاری اداروں اور وہاں پر متعین سرکاری ملازمین کا موازنہ نجی اداروں کی کارکردگی سے کریں تو زمین آسمان کا فرق دکھائی دے گا۔ دونوں شعبوں میں یکساں تعلیمی، سماجی اور معاشی پسِ منظر رکھنے والے پاکستانی افراد، مرد اور خواتین کام کرتے ہیں۔ تو ان کی کارکردگی ایک جیسی کیوں نہیں؟ وجہ صرف نظم و نسق کی پابندی، قوانین کا نفاذ، جوابدہی کا اصول اور شعبوں کے لائق اور مستعد سربراہ ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ صنعتی معاشروںکی تعمیر‘ خیرہ کن ترقی کا راز ریاستی اداروں کی مستعدی اور فعال طرزِ حکومت میں مضمر ہے۔ ہر جگہ ریاست ہی پہل کرتے ہوئے راستہ دکھاتی ہے۔ یہ نجی شعبے کی نگہبانی اور آبیاری کرتی ہے‘ لیکن نجی شعبہ اسے ڈکٹیٹ نہیں کر سکتا۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ چلتے ہیں۔ 
ترقی اور کامیابی کے اصول نہ تو تہذیبی روایات کے تابع رہے ہیں اور نہ ہی کسی مذہبی اور ثقافتی دھڑے کے ماتحت۔ ترقی کا تعلق عالمگیر اصولوں سے ہے، جیسا کہ وقت کی پابندی، کام کی نوعیت کا تعین، کارکردگی کی معروضی پیمائش کا پیمانہ، ذمہ داری، احتساب اور ریاستی اداروں میں ذمہ داری کا احساس، آئین، قانون اور عوام سے وفاداری۔ ان کے لیے بیرونی قرضوں اور افلاطونی سوچ بچار کی ضرورت نہیں۔ ضرورت ہے تو صرف عملیت پسندی، نیک نیتی اور آہنی ارادے کی۔ اس کی ابتدا دفتر، سکول، پارک، مارکیٹ اور دانشگاہ سے ہو سکتی ہے۔ کل نہیں آج۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved