ملک کے سب سے بڑے صوبے میں اختیارات کے ایک سے زیادہ مراکز کی بات تو تونسہ کے درویش سردار کی وزارتِ اعلیٰ کے اوّل روز ہی سے سنائی دینے لگی تھی، یہ بھی کہ اہم اور نازک مسائل پر سول اور ملٹری لیڈرشپ ''سیم پیج‘‘ پر ہیں۔ اب اقتدار کی غلام گردشوں سے شناسائی رکھنے والے دوست بتاتے ہیں کہ ''سول ‘‘ میں بھی معاملات چنداں قابلِ رشک نہیں۔ تحریکِ انصاف کے اندر بھی ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کا کھیل جاری ہے۔ وزارتوں میں طوائف الملوکی ہے اور اس حوالے سے سب سے ''دلچسپ‘‘ کیفیت جناب فواد چودھری کی وزارتِ اطلاعات و نشریات میں ہے۔ یہاں ایک پھڈا پی ٹی وی کے ایم ڈی کے حوالے سے ہے۔ وزیر اطلاعات انہیں فارغ کرنا چاہتے ہیں، لیکن وہ اپنی جگہ ڈٹے ہوئے ہیں کہ انہیں وزیر اعظم کے مشیر نعیم الحق صاحب کی پشت پناہی حاصل ہے۔ وزیر صاحب اور مشیر صاحب، دونوں کے لیے یہ ناک کا مسئلہ بن گیا ہے۔ نعیم الحق کو خان صاحب سے دیرینہ ذاتی رفاقت کا ''مان‘‘ ہے۔ یہ رفاقت محاورتاً نہیں‘ واقعتاً ''نصف صدی کا قصہ ہے‘‘۔ جب عمران خان صاحب انگلینڈ میں کائونٹی کھیلتے تھے، نعیم الحق وہاں ایک بینک میں جاب کرتے، تب مقبول اور مہنگے کرکٹر کے مالی معاملات کی دیکھ بھال وہی کرتے تھے۔ یہ تعلق ذاتی دوستی میں بدل گیا۔ یہ الگ بات کہ ان کو قریب سے جاننے والے بتاتے ہیں کہ ''ذاتی دوستی‘‘ کے حوالے سے خان صاحب کبھی غیر ضروری حد تک جذباتی نہیں رہے۔ کرکٹ نے اٹھتی جوانی ہی میں انہیں شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچا دیا تو ''خود اعتمادی‘‘ بھی بڑھ گئی؛ چنانچہ ان کے ساتھ ''ذاتی دوستی‘‘ یا ''جذباتی تعلق‘‘ کا معاملہ اکثروبیشتر یکطرفہ ہی رہا۔
قارئین سے معذرت کہ بات کسی اور طرف نکل گئی، ہم نعیم الحق کا ذکرکررہے تھے۔ عمران خان صاحب سے ان کا تعلق اس حد تک جذباتی ہے کہ ٹی وی ٹاک شو میں نعیم الحق کی موجودگی میں، خان پر تنقید نعیم کے غیظ وغضب کو دعوت دینے سے کم نہیں ہوتی۔ جس کو ہو جان و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں؟
اُدھر ہمارے فواد چودھری بھی اپنی ''قدروقیمت‘‘ خوب سمجھتے ہیں۔ ایک ڈیڑھ عشرے میں وہ کہاں کہاں نہیں ہوآئے۔ اس لحاظ سے ان کا سیاسی تجربہ، تحریک انصاف میں بہت سوں سے بڑھ کر ہے۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا نعیم الحق، تحریک انصاف (اور عمران خان) کے سولو سپوکس پرسن ہوتے تھے۔ نوازشریف کے خلاف پانامہ کی سماعت شروع ہوئی تو میڈیا کو اس حوالے سے بریف کرنے کی ذمہ داری خان صاحب نے فواد چودھری کے سپرد کی جس نے انہیں دیکھتے ہی دیکھتے کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ شہرت کی اس منزل تک برسوں کا سفر انہوں نے ہفتوں اور مہینوں میں طے کر لیا تھا۔ گزشتہ سال پی ٹی آئی کی حکومت بنی، تو وزیر اعظم کے ذہن میں سیاسی حریفوں سے نمٹنے کے لیے جس طرح کے وزیر اطلاعات کا تصور تھا، چودھری صاحب اس پر بدرجہ کمال پورا اترتے تھے۔
نیشنل براڈکاسٹر کے حالات ومعاملات برسوں سے دگرگوں ہیں۔ سیاست بازی بھی اس میں شامل ہے۔ جس وقت یہ سطور قلم بند کی جا رہی ہیں، وزیر اطلاعات، وزیر اعظم صاحب سے ایم ڈی پی ٹی وی کے مسئلے پر ملاقات کرنے والے ہیں۔ اس ملاقات کے بعد اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ان سطور کی اشاعت تک واضح ہو چکا ہوگا۔ اس دوران ہم عبدالخالق سرگانہ کی کتاب ''پی ٹی وی میں ماہ و سال‘‘ سے کیوں نہ لطف اندوز ہوں۔ 1976ء تک سرگانہ یہاں ''نیوز‘‘ میں اہم ذمہ داریوں پر فائز رہے۔ ریٹائرمنٹ کے وقت ڈائریکٹر نیوز کے علاوہ اسلام آباد سینٹر کے انچارج تھے۔ طویل ملازمت کے دوران، بے شمار دلچسپ واقعات میں سے چند کا ذکر: پی ٹی وی کے ابتدائی برسوںمیں، ٹیکنیکل سہولتیں زیادہ نہ تھیں، وزیر اعظم بھٹو عید کی نماز لاڑکانہ میں پڑھا کرتے؛ چنانچہ اس دن کے خبرنامے کے لیے اس کا خصوصی اہتمام کیا جاتا۔ لاڑکانہ سے فلم کراچی لانے کے لیے طیارہ چارٹر کیا جاتا اور یوں ایک منٹ کی خبر آج کے حساب سے لاکھوں میں پڑتی۔
محترمہ کی دوسری حکومت کی برطرفی کے بعد ملک معراج خالد کی نگران وزارتِ عظمیٰ (اور مرحوم ارشاد حقانی کی وزارتِ اطلاعات) کے دور میں حکم ملا کہ بیگم صاحبہ کی حکومت کے دوران پرائم منسٹر ہائوس میں ''مردِ اوّل‘‘ کے گھوڑوں کے حوالے سے فلم بنائی جائے۔ زرداری صاحب نے یہاں پولو گرائونڈ بھی بنوا رکھا تھا۔ کسی نے بتایا کہ یہاں ایک گھوڑا ایسا بھی تھا جس کی قیمت (ان دنوں) ایک کروڑ تھی۔ گھوڑوں کی ''قیام گاہیں‘‘ بھی ایئر کنڈیشنڈ تھیں۔ ڈاکومنٹری میں بتایا گیا کہ پرائم منسٹر ہائوس میں یہ وی آئی پی گھوڑے سیب کھاتے تھے۔ معزول وزیر اعظم نے اس فلم کا بہت برا منایا۔ اس حوالے سے ان کا (دلچسپ) موقف تھا کہ یہ گھوڑے زرداری کے نہیں بلکہ ان کے دوست ٹوانہ صاحب کے تھے۔ گھوڑوں کے حوالے سے ایک غیرملکی صحافی کے سوال پر محترمہ بہت lrritate ہوئیں۔
ایک دن چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کے رجسٹرار (راجہ لہراسپ خان) نے سرگانہ کو بلا کر سرزنش کی کہ چیف صاحب خبرنامے میں اپنی خبروں کی پلیسنگ پر مطمئن نہیں۔ پروٹوکول کے حساب سے ان کی خبر صدر اور وزیر اعظم کے بعد ہونی چاہیے۔ سرگانہ نے وضاحت کی کہ خبریں صرف پروٹوکول کے حساب سے نہیں ہوتیں، اس میں ''خبریت‘‘ بھی دیکھی جاتی ہے۔ بدمزگی اس حد تک بڑھی کہ سرگانہ چائے پئے بغیر اٹھ آئے۔ ان دنوں اشفاق گوندل چیئرمین تھے، اس حوالے سے ''تحریری نوٹس‘‘ پر انہوں نے لکھا، As Per Rules and Practice جس کے بعد کسی نے کچھ نہ کہا۔
چودھری پرویز الٰہی پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے۔ ان کی والدہ کا انتقال ہوا تو صدر پرویز مشرف لاہور میں تھے۔ وہ اگلے روز فاتحہ کے لیے پہنچے۔ پی ٹی وی کے نمائندے کو چودھری صاحب نے تاکید کی کہ خبر میں یہ بات ضرور نمایاں ہو کہ صدر صاحب فاتحہ کے لیے سب سے پہلے پہنچے۔
1977ء کے الیکشن کے دوران عدالت نے حکم دیا کہ حکومت اور اپوزیشن (پیپلز پارٹی اور پی این اے)کو پی ٹی وی پر برابر وقت دیا جائے، پابندی لازم تھی۔ پی این اے کے سربراہ مفتی محمود کے ساتھ پی ٹی وی نے دلچسپ ایکٹوٹی کی کہ ان کی تقریر کے دوران، سائونڈ کو کم یا زیادہ کرنے والے Fader کو مسلسل آگے پیچھے کیا جاتا رہا؛ چنانچہ عدالتی حکم کی تعمیل بھی ہو گئی اور مفتی صاحب کی آواز بھی کسی کی سمجھ میں نہ آئی۔
نواز شریف کے پہلے دور میں قازقستان کے صدر سلطان نذر بایوف کی آمد پر پی ٹی وی کے رپورٹر نے معزز مہمان کا انٹرویو کیا۔ وزیر اعظم پاکستان نے نوٹ کیا کہ رپورٹر کا لباس مناسب نہیں؛ چنانچہ وی آئی پیز کے ساتھ کام کرنے والے پی ٹی وی سٹاف کو سرکاری وردی فراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ہر دو سال بعد گرمیوں میں بش کوٹ اور سردیوں میں انگریزی سوٹ۔ اب شاید بچت کے نقطۂ نظر سے اس پر عمل نہیں ہو رہا۔
''پی ٹی وی کے ماہ و سال‘‘ میں 12اکتوبر 1999 کی شام آرمی چیف پرویز مشرف کی برطرفی کی خبر کے بعد پی ٹی وی اسلام آباد ہیڈ کوارٹر میں ہونے والی کشمکش کی تفصیل بھی ہے (دیوار پھلانگنے کا شارٹ دنیا بھر میں ٹی وی چینلز پر دکھایا گیا تھا) ایک موقع پر پنجاب پولیس کے ایلیٹ دستے کے ساتھ جھڑپ کا خطرہ بھی پیدا ہو گیا تھا۔ ذرا سی بے احتیاطی خون خرابے کا باعث بن سکتی تھی۔
12اکتوبر کے بعد جنرل پرویز مشرف پہلے بیرونی دورے پر روانہ ہوئے تو پیرس پہلا سٹاپ اوور تھا۔ مارشل لاء کی وجہ سے، مغربی دنیا میں کوئی انہیں خوش آمدید کہنے کو تیار نہیں تھا۔ سفیر پاکستان شہریار خان کی بھرپور تگ ودو کے بعد فرانس کے وزیر خارجہ ایئرپورٹ پر مختصر ملاقات کے لیے رضا مند ہوگئے لیکن چھوٹتے ہی ان کا سوال تھا: آپ مارشل لاء کب اٹھا رہے ہیں؟ کافی ایڈیٹنگ کے بعد، خبرنامے میں شامل کرنے کے لیے کچھ فقرے نکل آئے۔
ترکی میں بھی معاملہ مختلف نہ تھا۔ صدر سلیمان ڈیمرل نے ملاقات میں روایتی خیر سگالی کے اظہار کے بعد، جنرل صاحب سے کہا کہ حتنی جلدی ممکن ہو، اقتدار منتخب نمائندوں کے حوالے کر دیں۔ باہر نکلے تو جنرل صاحب کافی مایوس تھے، کہنے لگے: یار! ڈیمرل صاحب نے کچھ زیادہ ہی نہیں کہہ دیا؟ وزیر اعظم بلند ایجوت نے بھی غیر جمہوری اور غیر سیاسی طرز حکومت کے نقصانات بتائے۔ (سفیر پاکستان کرامت اللہ غوری کی ''بار آشنائی‘‘ میں بھی اس کی تفصیل موجود ہے)۔