جنگ میں سب سے پہلی موت سچ کی ہوتی ہے۔ بھارت کے حکمران طبقات کی حالت ایسی ہے کہ نہ یہ جنگ لڑ سکتے ہیں اور نہ کوئی حقیقی امن قائم کر سکتے ہیں۔ یہ صرف حالت جنگ ہی مسلط کر سکتے ہیں یا امن کا جھانسہ دے سکتے ہیں۔ حکمرانوں کے پیدا کیے ہوئے جنگی جنون کے اس ماحول میں ایک دفعہ پھر سچائی پیچھے چلی گئی ہے۔ یہی اس سابقہ نوآبادیاتی خطے کے حکمرانوں کی عیار فطرت ہے‘ جو ان کی منافقت، بد دیانتی، سیاست اور اخلاقیات میں صاف نظر آتی ہے۔ ان کا یہ نفرت انگیز کردار ان کے خمیر کی وجہ سے ہے۔
برصغیر کی نام نہاد 'آزادی‘ اس کے قومی بورژوا لیڈروں کی کسی جدوجہد کے نتیجے میں نہیں بلکہ برطانوی راج کی افسر شاہی کے ساتھ مذاکرات کے نتیجے میں حاصل ہوئی تھی۔ اس طرح کے 'حریت پسند‘ عام لوگوں کی زندگیوں میں کوئی معاشی و سماجی خوشحالی نہیں لا سکتے۔ پرانے بوسیدہ نظام کا جبر عوام پر جاری رہتا ہے جس میں ریاست اور حکمرانوں کی صرف شکل و صورت ہی تبدیل ہو جاتی ہے۔ گماشتہ حکمران طبقات کو برطانوی راج نے یہاں اپنی مسخ شدہ سرمایہ داری کو جاری رکھنے کیلئے مسلط کیا تھا۔ ان نو دولتیے حکمرانوں نے اپنی استحصالی حاکمیت اور سامراجی لوٹ مار کو جاری رکھنے کیلئے برطانوی سامراجیوں کی 'تقسیم کرو اور حکمرانی کرو‘ کی واردات کو براہ راست نوآبادیاتی حکمرانی کے خاتمے کے بعد بھی جاری رکھا ہوا ہے۔ اسی لیے پچھلی سات دہائیوں سے جنگی جنون کا ماحول، مذہبی اور وطن پرستی کے تعصبات اور نفرتیں جاری ہیں۔
تاہم برطانوی سامراج اپنے مقامی گماشتوں کے ساتھ اس نظام کو تب ہی مسلط کر سکے جب انہوں نے عوامی انقلاب کے سب سے درخشاں باب '1946ء کے انقلاب‘ کو کچل دیا۔ درباری مؤرخین اسے مسخ کر کے محض 'جہازیوں کی بغاوت‘ قرار دیتے ہیں۔ یہ لوگ جدوجہدِ آزادی کی تاریخ کو بھی مسخ کر کے پیش کرتے ہیں۔ عالمی اور علاقائی سطح پر یہ تاثر دیا گیا ہے کہ یہ آزادی انڈین نیشنل کانگریس، جس کی قیادت گاندھی، پاٹیل اور نہرو کر رہے تھے، اور مسلم لیگ، جس کی قیادت قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ کر رہے تھے، کی جدوجہد کے نتیجے میں حاصل ہوئی‘ لیکن اسی اثنا میں انتہائی عیاری سے مزدوروں، نوجوانوں، کسانوں اور ہندوستانی فوج، نیوی اور ایئر فورس کے سپاہیوں کی آزادی کے لیے جدوجہد اور قربانیوں کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ مارکس نے 1857ء کی جنگ آزادی سے پہلے اور بعد میں اس اَمر کا تجزیہ کیا تھا کہ برطانوی سامراج نے ہندوستانی فوجیوں کے ذریعے ہی ہندوستان کو فتح کیا تھا‘ لیکن 1946ء میں برطانوی سامراج اپنی جابرانہ حاکمیت کو قائم رکھنے کے لیے برٹش انڈین آرمی کے ہندوستانی سپاہیوں پر مزید اعتماد نہیں کر سکتے تھے۔ ان میں ایک ایسی دیوہیکل بغاوت ہوئی کہ برطانوی راج کے پالیسی ساز بھی دنگ رہ گئے۔
جہازیوں اور مزدوروں کی اس شاندار بغاوت نے برطانویوں کو برصغیر سے وقت سے پہلے نکلنے پر مجبور کر دیا تھا کیونکہ یہ تحریک اس سماجی معاشی نظام کو ہی اکھاڑ پھینک سکتی تھی‘ جس نے انہیں نسلوں تک محکوم بنائے رکھا تھا۔ اس نظام کی طوالت ہی برصغیر کے عوام کی محرومی، محکومی، غربت اور خون خرابے کی بنیادی وجہ ہے‘ جس نے اس خطۂ زمین پر سیارے کی غربت کا سب سے وسیع اجتماع بنا رکھا ہے۔ اس انقلابی بغاوت کو 1947ء کے خونیں ردِ انقلاب کے ذریعے کچلا گیا‘ جس کے زخم آج تک رس رہے ہیں۔
تہتر سال پہلے فروری 1946ء کے انہی دنوں میں ایک انقلابی چنگاری نے ایک ایسی شاندار سرکشی کو جنم دیا‘ جس نے جنوب ایشیاء کے علاقے‘ برصغیر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا‘ جہاں مسلح محنت کش‘ سامراجیوں کی طاقت اور جابرانہ نوآبادیاتی ریاست کو للکار رہے تھے۔ اس انقلابی لہر کی پسپائی‘ مقامی لیڈروں کی غداری اور سامراجی گماشتگی کی وجہ سے شکست نے بٹوارے کی ہولناکی کو جنم دیا۔ برصغیر میں ہندوستان کی تقسیم نے ڈیڑھ ملین معصوم انسانوں کے قتل عام اور دو ملین سے زائد کو ہجرت کرنے پر مجبور کیا؛ تاہم جہازیوں کی اس شاندار سرکشی میں سیکھنے کے لیے ہمارے لیے اہم اسباق ہیں۔ ان کی دلیری نے عوام کے دل و دماغ کو ایسی جرأت سے بھر دیا‘ جو تاریخ کے غیر معمولی واقعات ہیں۔
فروری 1946ء کی بحری بغاوت طویل عرصے سے جہازیوں میں مجتمع شدہ غم و غصے کے نتیجے میں برپا ہوئی تھی۔ برطانوی جہازیوںکی تنخواہیں ہندوستانی جہازیوں کی تنخواہوں سے دس گنا زیادہ تھیں۔ اسی طرح ان کی مراعات بھی زیادہ تھیں‘ لیکن بغاوت کی بڑی اور اہم وجہ سیاسی تھی۔ امفال کے گھیرائو کے دوران انڈین نیشنل آرمی کے لیڈروں کے مقدمات کی سماعت اور جدوجہد، جب انڈین نیشنل آرمی نے برطانوی فوج کو سخت نقصانات پہنچائے تھے، نے جہازیوں کو اس بات کا پکا یقین دلایا کہ برطانوی راج ناقابل شکست نہیں ہے۔
بغاوت کا آغاز 18 فروری 1946ء کو ہوا‘ جب گیارہ سو جہازیوں نے ایچ ایم ایس (HMS) تلوار میں کام روک دیا اور ہڑتال کا اعلان کیا۔ جہازیوں نے متفقہ طور پر سگنل مین ایم ایس خان کو صدر اور پیٹی افسر ٹیلی گرافسٹ مدن سنگھ کو نائب صدر منتخب کر لیا۔ مشہور سگنلر بیدی بسنت سنگھ، ایس سی سن گپتا، چیف پیٹی افسر، سکول ماسٹر نواز، سیمین اشرف خان اور محمد حسین بھی مرکزی ہڑتالی کمیٹی کے ممبران منتخب ہوئے۔ مرکزی ہڑتالی کمیٹی نے اپنی جدوجہد کا مقصد طے کر لیا تھا، مکمل سیاسی اور سماجی و معاشی آزادی۔
بمبئی کی بندرگاہ میں یہ بغاوت جلد ہی 22 کشتیوں اور کیسل بیرک اور فورٹ بیرک بیس تک پھیل گئی۔ ہڑتال جنگل کی آگ کی طرح کراچی، مدراس، وشاکا پٹنم، کلکتہ، کوچین، جام نگر اور انڈامن جزائر کی فوجی چھائونیوں سے لے کر مشرق وسطیٰ میں بحرین اور عدن کے ساحلوں تک پھیل گئی۔ ہڑتالیوں نے 70 کشتیوں اور تمام تر 20 سمندری اسٹیبلشمنٹ کو جیت لیا اور تیس ہزار سے زائد جہازی اس سرکشی میں شامل ہو گئے۔ اگلی صبح ہندوستانی جہازیوں نے بندرگاہ کے احاطے میں کھڑی فوجی گاڑیوں پر قبضہ کر لیا۔ وہ انہیں چلاتے ہوئے بمبئی کی گلیوں میں انڈین نیشنل آرمی کے قیدیوں کے حق میں نعرے لگا رہے تھے اور 'ہندو مسلم ایک ہیں‘ کے نعرے بھی لگ رہے تھے۔ مرکزی ہڑتالی کمیٹی نے ایک لیف لیٹ شائع کیا جو اِن نعروں کے ساتھ ختم ہوتا تھا 'مزدوروں، سپاہیوں، طالب علموں اور کسانوں کی یکجہتی زندہ باد۔ انقلاب زندہ باد۔‘
پورے متحدہ ہندوستان میں ہڑتالی جہازیوں کے حق میں جوش و ولولہ پھیل گیا تھا۔21 فروری 1946ء کی صبح برطانوی گارڈز نے کیسل بیرک میں ہندوستانی جہازیوں پر فائر کھول دیے جس سے یہ بغاوت ایک پُرتشدد مسلح سرکشی میں تبدیل ہو گئی۔ سینکڑوں کی تعداد میں ہڑتالیوں نے انڈین ریلوے کے وکٹوریا ٹرمنس کے سامنے مظاہرہ کیا۔ جب برطانوی افسروں نے ہندوستانی سپاہیوں کو ہڑتالی جہازیوں پر گولی چلانے کا حکم دیا تو انہوں نے اپنے ہندوستانی محنت کش بھائیوں پر گولی چلانے سے انکار کر دیا تھا۔
ہڑتالی جہازیوں نے 21-20 فروری کو عام ہڑتال کی کال دی جس کا ناقابل یقین جواب آیا۔ پورے ملک میں ٹیکسٹائل فیکٹریوں، ملوں، ریلوے اور دوسری صنعتوں سے تین لاکھ سے زائد مزدور کام چھوڑ کر باہر نکل آئے۔ سڑکوں اور گلیوں میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں اور نوجوانوں اور مزدوروں نے پولیس اور فوج کے ساتھ مورچہ بند ہو کر لڑائیاں لڑیں۔ یہ ہڑتال برطانوی راج کے لیے براہ راست چیلنج تھا۔ کلکتہ میں 120,000 سے زائد لوگ سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ دوسرے شہروں اور قصبوں میں بھی اسی طرح کے مظاہرے ہوئے۔
یہ بغاوت برطانوی راج کے دوسرے حصوں میں ہندوستانی مسلح افواج میں بھی پھیلنا شروع ہو گئی۔ جبل پور میں رائل انڈین آرمی سگنل کور کے دو ہزار سپاہیوں نے بغاوت کر دی تھی۔ اسی طرح مدراس میں انڈین گنرز، الٰہ آباد میں سگنلرز اور دہلی میں آرمی ہیڈ کوارٹر کے کلیریکل سٹاف میں بھی چھوٹی بغاوتیں ہوئیں۔ رائل انڈین ایئرفورس کے ہندوستانی افسران نے جہازیوں اور جہازوں پر حملے کے لیے برطانوی سپاہیوں کو لے جانے سے انکار کر دیا۔ سڑکوں اور ریلوے کی پٹڑیوں کو درخت گرا کر بند کر دیا گیا۔ ایئر فورس کی ہڑتال الٰہ آباد، ماری پور (کراچی)، کلکتہ، کانپور، پالام (دہلی)، پونا، کالانگ، چکلالہ، لاہور اور نیوگومبو کے ایئربیس تک پھیل گئی تھی۔ ہڑتال جنوب مشرقی ایشیا تک پھیل گئی تھی جہاں سنگا پور میں 4000 ایئرفورس کے اہلکاروں نے ہڑتال کر دی تھی۔ (جاری)