تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     28-02-2019

سُرخیاں‘ متن اور ڈاکٹر انور سجاد کی علالت

مودی کی مثال بندر کے ہاتھ میں ماچس جیسی ہے: فیاض چوہان
وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ ''مودی کی مثال بندر کے ہاتھ میں ماچس ہے‘‘ اگرچہ اصل محاورہ تو بندر کے ہاتھ میں استرا ہے اور جس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ بندر اس سے اپنی شیو بھی کر سکتا ہے ‘لیکن ساتھ ساتھ کٹ لگنے کے امکانات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور جس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ہم محاوروں کو اپنی مرضی کے مطابق تبدیل بھی کر سکتے ہیں اور جس کا شمار بھی اس تبدیلی میں ہونا چاہیے جو ہم لانا چاہتے ہیں اور ہمارے بعض رفقاء کے مطابق وہ تبدیلی آ بھی چکی ہے اور جس کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ مخالفین نے مجھ پر جادو کر دیا ہے ؛چنانچہ اُن سے درخواست ہے کہ ہمارا مقابلہ سیاست سے کریں‘ جو کہ بہت آسان بھی ہے‘ جبکہ کسی شریف آدمی پر جادو کرنا تو احساسِ شکست کی نشانی ہے اور مجھ پر اس جادو کا کوئی خاص اثر بھی نہیں ہوا ہے‘ کیونکہ میں اب بھی وہ کچھ کرتا پھر رہا ہوں‘ جو پہلے کرتا تھا۔ آپ اگلے روز پنجاب اسمبلی کے باہر صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
قید و بند کی صعوبتیں پیپلز پارٹی کا زیور ہیں: جاوید اکبر
شیخوپورہ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ضلعی صدر ملک جاوید اکبر نے کہا ہے کہ ''قید و بند کی صعوبتیں پیپلز پارٹی کا زیور ہیں‘‘ جبکہ اصل بات تو بقول شاعر یہ ہے کہ ؎
نہیں محتاج زیور کا جسے خوبی خدا نے دی
اور خدا نظرِ بد سے بچائے‘ ہماری خوبیوں کا اندازہ لگانا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے اور صرف زرداری صاحب کی ذاتِ بابرکات جن خوبیوں کا مجموعہ ہے‘ اُن کا بیان کرنا سورج کو چراغ دیکھانے کے مترادف ہے کہ اُن جیسی ہاتھ کی صفائی اللہ نے کسی کو نہیں دی ہے‘ جبکہ ویسے بھی وہ کافی صاف ستھرے آدمی ہیں اور جیل میں رہ کر وہ مزید صاف ستھرے ہو جاتے ہیں اور آج کل چونکہ وہ کچھ میلے میلے نظر آتے ہیں‘ اس لیے صفائی ستھرائی کی کسر پوری کرنے کے لیے وہ ایک با ر پھر جیل کے حمام میں غسل وغیرہ کے لیے جانے کا ارادہ رکھتے ہیں اور آٹھ دس سال تو یوں چٹکیوں میں گزر جاتے ہیں۔ آپ اگلے روز میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
عدالتوں کا احترام ن لیگ کا طرئہ امتیاز ہے: رانا سکندر حیات
چیئرمین ضلع کونسل قصور اور ن لیگ کے سرگرم رکن رانا سکندر حیات نے کہا ہے کہ ''عدالتوں کا احترام ن لیگ کا طرئہ امتیاز ہے‘‘ اور یہ خاص طور پر اُس وقت تک رہنا ہے‘ جب تک ہمارے قائد کے خلاف کوئی مقدمہ زیر سماعت ہو اور مخالف فیصلہ آنے پر یہ طرئہ امتیاز کہیں ادھر اُدھر ہو جاتا ہے اور ن لیگ کے اکثر رہنماؤں کے خلاف توہین عدالت ہی کے ضمن میں کارروائی جاری رہتی ہے‘ جبکہ اس طرئہ امتیاز کا اصل رنگ ہمارے قائد نے جی ٹی روڈ پر جما کر دکھا دیا تھا؛ چنانچہ اب کچھ عرصے سے خاموشی اُن کا طرئہ امتیاز ہے جس کا نتیجہ کسی وقت بھی برآمد ہو سکتا ہے۔ علاوہ ازیں حالیہ فیصلے کے خلاف اپیل کے دوران بھی یہ طرئہ امتیاز عروج پر رہے گا اور اس کے بعد بھی باقی رہتا ہے یا نہیں‘ یہ اپیل کے فیصلے پر منحصر ہے‘ اس لیے اگر عدالتوں کو اس طرئہ امتیاز کا کچھ پاس ہے تو انہیں فیصلہ کرتے وقت بھی اس کا لحاظ رکھنا ہو گا۔ آپ اگلے روز چیئرمینوں کی کثیر تعداد کی موجودگی میں ایک صحافی سے گفتگو کر رہے تھے۔
نواز شریف کو ڈیل نہیں‘ انصاف کی ضرورت ہے: عظمیٰ بخاری
مسلم لیگ ن کی سینئر رہنما اور رکن پنجاب اسمبلی عظمیٰ بخاری نے کہا ہے کہ ''نواز شریف کو ڈیل نہیں‘ انصاف کی ضرورت ہے‘‘ کیونکہ ڈیل تو نہیں ہو سکی‘ اب انصاف ہی سے ہماری امیدیں وابستہ ہیں‘ جبکہ انصاف پر بھی وہی فیصلہ پورا اُترتا ہے ‘جو اُن کے حق میں ہو‘ جبکہ مخالفانہ فیصلہ محض انتقامی کارروائی ہوتا ہے‘ اس لیے اگر عدالتوں کو اپنے حق میں نعرے لگوانے کی ضرورت ہو تو اُنہیں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے‘ جبکہ انصاف پر مبنی فیصلے ان کی صحت کے لیے بھی بہت ضروری ہیں۔ اس لیے فیصلوں کے صدمات کی وجہ سے نواز شریف کو کچھ ہو گیا تو عمران خاں کے ساتھ ساتھ اس کی ذمہ دار عدلیہ بھی ہوگی‘ علاوہ ازیں اسے مخالفانہ نعروں سے بھی بچنا چاہیے‘ بلکہ کارکنوں کی دُعائیں لینا چاہئیں اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی بددُعاؤں سے بچنے کی بھی ‘حتی الوسع تدبیر کرنی چاہیے‘ کیونکہ اپنی قیادت کی طرح یہ بھی جتی ستی لوگ واقع ہوئے ہیں۔ آپ اگلے روز فیروز والا میں صحافیوں سے گفتگو کر رہی تھیں۔
انور سجاد کی علالت
اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ اُردو افسانے کے حوالے سے ڈاکٹر انور سجاد ایک بڑا نام ہے۔ وہ کافی عرصے سے علیل چلے آ رہے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں کوئی ادیب یا فنکار بیمار پڑ جائے تو وہ زیادہ دیر تک اس حالت میں نہیں رہ سکتا اور ملک عزیز میں علاج کی سہولتوں کے اس فقدان میں یہ لوگ اپنی باقی زندگی انتہائی کسمپرسی کے عالم میں گزارتے ہیں۔ انور سجاد بھی اس مرحلے سے گزر رہے ہیں‘ جبکہ ملکِ عزیز میں ایسی ہستیوں کے خاطر خواہ علاج اور امداد کے لیے کوئی ادارہ یا سرکاری طور پر کوئی ضابطہ موجود نہیں اور انہیں حکومت کے رحم و کرم پر ہی انحصار کرنا پڑتا ہے اور عام طور پر دیکھا یہی گیا ہے کہ حکومت کو ایسے بدنصیبوں کی مدد کرنے کا خیال آئے بھی‘ تو اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ حال ہی میں سرائیکی کے بے مثل شاعر شاکر شجاع آبادی کی طویل اور پریشان کن علالت کے بعد حکومت نے جب اس کیلئے مدد کا ہاتھ بڑھایا تو وہ بے پایاں اذیت برداشت کر چکا تھا۔ خدا کرے یہ مدد اس کے کام بھی آ جائے۔ گلوکارہ ناہید اختر کے میاں کا انتقال ہوا تو خادم اعلیٰ شہباز شریف نے اسے ایک لاکھ روپے کا چیک بلا طلب بھجوا دیا تھا۔ انور سجاد کیلئے حکومت سے بار بار اپیل کی گئی ہے اور جو قلیل امداد اُسے فراہم کی جاتی تھی‘ اب سُنا ہے کہ وہ بھی بند کر دی گئی ہے۔ حکومت ؛اگر ایسے جواہر پاروں کی زندگی نہیں تو کم از کم ان کی موت ہی آسان کر دیا کرے!
آج کا مطلع
یہ زندگی کوئی انعام بھی تمہارا ہے
وظیفۂ سحر و شام بھی تمہارا ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved