ہم سب اس دنیا میں جب تک رہتے ہیں‘ کچھ نہ کچھ کرتے ہی رہتے ہیں۔ یہی ہمارے جینے کا بنیادی مقصد ہے۔ ہر انسان کو کچھ نہ کچھ کرتے ہوئے زندگی بسر کرنا پڑتی ہے۔ ''کچھ نہ کچھ‘‘ کا کیا مطلب ہوا؟ کیا یہ کہ دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرنے کے لیے کچھ کرنا ‘یعنی معاشی سرگرمی؟ خیر‘ کچھ نہ کچھ کرتے رہنے کا ایک مطلب یہ بھی ہے۔ ہوش سنبھالنے کے بعد آخری سانس تک کسی نہ کسی حیثیت میں اپنی برادری اور معاشرے کی خدمت انجام دینا پڑتی ہے۔ یہ معاشی خدمت ہمیں زندہ رہنے کے لیے درکار وسائل فراہم کرتی ہے۔ جب ہم دوسروں کے لیے کام کرتے ہیں تو وہ ہمیں معاوضہ دیتے ہیں‘ جس کے ذریعے ہم اپنی ضرورت کا سب کچھ یا بہت کچھ حاصل کرنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں۔
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ہمیں دو وقت کی روٹی کے حصول کی سطح سے بلند ہونا پڑتا ہے‘ تاکہ زندگی ڈھنگ سے بسر کی جاسکے۔ سانسوں کا تسلسل برقرار رکھنے یا دل کو دھڑکتا رکھنے کیلئے تگ و دَو کرنا ہمارے لیے ناگزیر ہے ‘مگر یہ خالص حیوانی سطح ہے؛ اگر ہمیں اپنے انسان ہونے کا واقعی احساس ہے‘ تو اس حیوانی سطح سے بلند ہونا ہی پڑے گا۔ حیوانی سطح پر زندہ رہنا ہمارے لیے انتہائی خسارے کا سَودا ہے‘ کیونکہ اس سطح پر جینے کی صورت میں خود کو بلند کرنے کی تمام امنگیں اور صلاحیتیں دم توڑنے لگتی ہیں اور ہم محدود ہوتے چلے جاتے ہیں۔
امریکا کی معروف آرٹسٹ‘ ڈیزائنر اور اربن پلانر کینڈی چینگ نے 2011 ء میں نیو آرلینز کے ایک بند پڑے ہوئے مکان کو فن پارے میں تبدیل کیا۔ بات کچھ یوں تھی کہ کینڈی اپنے کسی پیارے کی موت سے بے حد افسردہ تھی۔ کسی چیز‘ کسی کام میں اُس کا دل نہیں لگ رہا تھا۔ زندگی کا سارا لطف ہی غارت ہوچلا تھا۔ کینڈی کو اپنی زندگی مفہوم سے عاری سی دکھائی دے رہی تھی۔ ایسے میں اُس کے لیے سب سے بڑا چیلنج زندگی میں دوبارہ دلچسپی لینا تھا۔ اُس نے اپنے گھر سے کچھ دور بند پڑے ہوئے مکان کو کھولا اور اُس کی دیواروں کو صاف کرکے اُن پر جگہ جگہ لکھا دیا ... ''مرنے سے پہلے میں ...‘‘ یعنی لوگوں کو دعوت دی گئی کہ وہ لکھیں کہ مرنے سے پہلے وہ لازمی طور پر کیا کرنا چاہتے ہیں۔
کینڈی نے سوچا لوگ شاید ہی دلچسپی لیں یا کچھ وقت لگے گا۔ یہ دیکھ کر اُس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں نے اُس خالی مکان کی دیواروں پر اپنی خواہشیں تحریر کرنا شروع کردیا۔ یہ مکان راتوں رات سیلیبریٹی کی حیثیت اختیار کرگیا! پھر یوں ہوا کہ دور و نزدیک سے لوگ اس مکان کو دیکھنے آنے لگے اور جو بھی آتا ‘وہ اپنی سب سے بڑی خواہش ضرور تحریر کرتا۔ کوئی لکھتا کہ مرنے سے پہلے وہ کتاب لکھنا چاہتا ہے۔ کوئی یہ خواہش ظاہر کرتا کہ مرنے سے پہلے کچھ گائے ‘تاکہ لوگ سُنیں اور یاد رکھیں۔ کسی کی یہ خواہش ہوتی کہ مرنے سے پہلے وہ اپنی ماں کو بتانا چاہتا ہے کہ وہ اُن سے بے انتہا محبت کرتا ہے۔
کینڈی نے کچھ سوچا اور اُسے عملی شکل دی تو خالی پڑے ہوئے مکان کو بھی غیر معمولی شہرت ملی اور یوں ایک منفرد فن پارہ معرضِ وجود میں آیا۔ سوال صرف سوچنے اور اس پر عمل کا ہے۔ کون ہے ‘جو کچھ کرنا نہیں چاہتا؟ دنیا کا ہر انسان اِس گمان میں مبتلا رہتا ہے کہ جو کچھ وہ کر رہا ہے‘ وہ بہت اہم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہزار میں کوئی ایک فرد ہوتا ہے ‘جو زندگی کی معنویت میں اضافہ کرنے سے متعلق شعوری سطح پر کچھ ایسا کر رہا ہوتا ہے‘ جس کی واقعی کچھ وقعت ہو۔ عمومی سطح پر لوگ معمولی سی سرگرمی کو بھی غیر معمولی وقعت کی حامل سمجھتے ہیں‘ مثلاً: کسی کو مطالعے کی اہمیت کے بارے میں بتائیے تو وہ روزانہ اخبار پڑھنے کے عمل کو بھی مطالعہ بتانے لگتا ہے!
عام آدمی یہ سمجھتا ہے کہ وہ جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے جو کچھ کر رہا ہے‘ یعنی جن معاشی سرگرمیوں میں مصروف رہتا ہے‘ وہی زندگی کا حقیقی مقصد ہیں! یہی مغالطہ اُسے آگے بڑھنے سے روکتا ہے۔ جب انسان اپنی عمومی نوعیت کی معاشی سرگرمیوں اور چند ایسے ہی دوسرے افعال کو بہت کچھ سمجھنے لگے تو پھر مزید کچھ سیکھنے اور زندگی کو زیادہ معنویت عطا کرنے کے بارے میں سوچنا بھی چھوڑ دیتا ہے۔
ٹاڈ ہنری نے اپنی دوسری کتاب ''ڈائی ایمپٹی‘‘ میں اس نکتے پر سیر حاصل کی ہے کہ انسان کو اپنی تمام صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کرنا چاہیے۔ جینے کا لطف اس امر میں مضمر ہے کہ انسان اپنی صلاحیت و سکت کے بھرپور اظہار کے حوالے سے سنجیدہ ہو اور دنیا کو بتائے کہ اُسے بہت کچھ آتا ہے۔
ٹاڈ ہنری نے لکھا ہے کہ دنیا کے ہر انسان کو مرتے دم تک ‘اس امر کے لیے کوشاں رہنا چاہیے کہ دنیا کا معیار بلند کرنے کے لیے وہ جو کچھ بھی کرسکتا ہے ‘کر گزرے؛ اگر کسی کو اچھا لکھنا آتا ہے ‘تو خوب لکھے۔ کوئی گاسکتا ہے تو خوب گائے۔ کوئی؛ اگر کسی کھیل میں مہارت رکھتا ہے تو خوب کھیلے۔ ہر انسان اگر اپنے آپ کو ظاہر کرنے کی ٹھان لے تو دنیا کو بہت کچھ دیکھنے کو ملے اور مزید بہت کچھ کرنے کی تحریک بھی ملتی رہے۔
ہم سوشل میڈیا کے دور میں جی رہے ہیں۔ کچھ مدت پہلے تک ڈیسک ٹاپ پبلشنگ ہوا کرتی تھی ‘یعنی جو کچھ بھی دنیا تک پہنچانا ہے‘ وہ لکھیے اور بلاگز وغیرہ کے ذریعے پہنچادیجیے۔ اب آڈیو اور ویڈیو فائلز کے ذریعے بہت کچھ سامنے آرہا ہے۔ کوئی اگر گاسکتا ہے تو گائے اور دنیا کو اپنے فن سے روشناس کروائے۔ کل تک معاملہ یہ تھا کہ جسے لکھنا نہ آتا ہو وہ خود کو معذور سا محسوس کرتا تھا۔ اب یہ حالت بھی نہیں رہی۔ معاملہ یہ ہے کہ اگر کسی کو لکھنے میں الجھن محسوس ہوتی ہے تو آڈیو اور ویڈیو فائلز کے ذریعے اپنی بات دنیا تک پہنچا دیتا ہے۔ ایسی صورت میں لوگ بھی پڑھنے کی زحمت سے چُھٹ جاتے ہیں‘ یعنی سر کے نیچے تکیہ رکھ کر دوسروں کے خیالات مزے سے سُنیے۔
ٹاڈ ہنری کا کلیدی نکتہ یہ ہے کہ انسان کو اِس دنیا سے خالی ہاتھ جانا چاہیے۔ جس میں جو صلاحیت ہے ‘وہ اُس صلاحیت کو نچوڑ کر رخصت ہو۔ اولیور وینڈل ہومز نے ''وائس لیس‘‘ میں ایک خوبصورت لائن لکھی ہے کہ ''ماتم ہے‘ اُن کے نام کا جو بہت اچھا گاسکتے تھے ‘مگر اپنی ساری موسیقی اپنے وجود‘ یعنی جسم ہی دبائے ‘اس دنیا سے چلے گئے!‘‘
روئے زمین پر کوئی بھی شخص بے صلاحیت نہیں۔ قدرت نے ہر انسان کو کسی نہ کسی حوالے سے باصلاحیت پیدا کیا ہے۔ اور ہر انسان کو خود اس بات کا اندازہ لگانا ہے کہ وہ کون سا کام اچھی طرح کرسکتا ہے۔ جب صلاحیت کا اچھی طرح اندازہ ہو جائے ‘تو انسان پر لازم ہے کہ اُس صلاحیت کو بروئے کار بھی لائے۔ اسی صورت وہ اپنے وجود کی معنویت میں بھی اضافہ کرسکتا ہے؛ اگر کسی کو زندگی کے مفہوم کی تلاش ہے‘ تو زیادہ دور نہ جائے‘ اپنے وجود میں جھانکے اور جو صلاحیت قدرت نے بخشی ہے اُسے بروئے کار لائے۔ زندگی کے مفہوم و مقصود کو پالینے کے لیے اتنا کرلینا بھی کافی ہے۔