مادری زبانوں کے عالمی دن کے موقعہ پہ لسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں نے خبر دی کہ پچھلے بیس سالوں میں خیبر پختون خوا کے شمالی علاقوں میں بولی جانے والی دو پرانی زبانیں، پدیشی اور گھاورد ناپید ہو گئیں۔ معروف محقق زبیر توروالی کہتے ہیں: ملک بھر میں کل 74 زبانیں مگر صرف خیبر پختون خوا میں مجموعی طور پہ 23 زبانیں بولی جاتی ہیں‘ جن میں 12 ڈسٹرکٹ چترال اور 8 زبانیں مالا کنڈ ڈویژن میں بولی جاتی ہیں، جن میں تورال، کھوار، پلولہ، دمیلی، شیخان، کلاشہ، گوارباتی، گوجری، مدک لشٹی، داخی، یدغا اور مانکیانی جیسی پرانی زبانیں شامل ہیں؛ تاہم صوبے کی بڑی آبادی بالترتیب پشتو، ہندکو اور سرائیکی زبانیں بولتی ہے۔ اگرچہ وسطی اضلاع کی غالب اکثریت پشتو بولتی ہے لیکن لکی مروت سٹی، کوہاٹ سٹی، پشاور سٹی، نوشہرہ و صوابی کی دو تحصیلوں اور ہزارہ ڈویژن کے چھ اضلاع میں ہندکو جبکہ ڈیرہ اسماعیل خان ڈویژن میں سرائیکی زبان بولی جاتی ہے۔ صوبہ خیبر پختون خوا کے دشوار گزار پہاڑی علاقوں کے کنج تنہائی میں آباد خود مختار ثقافتوں کی حامل مختصر آبادیاں جس تیزی سے ملک کے مرکزی دھارے سے مربوط ہوتی جائیں گی‘ اسی رفتار سے ان کی تہذیب و ثقافت اور علاقائی زبانیں غالب تہذیب اور ملک گیر قومی زبان میں ضم ہوتی جائیں گی۔ اندیشہ ہے کہ اگلے پچاس سالوں میں تمام چھوٹی ثقافتیں اورساری پرانی بولیاں معدوم ہو جائیں گی۔ اس وقت دنیا میں لگ بھگ سات ہزار زبانیں بولی جاتی ہیں لیکن دنیا کی 94 فیصد آبادی صرف چھ فیصد زبانیں بولتی ہے‘ باقی 94 فیصد زبانیں دنیا کی محض چھ فیصد آبادی تک محدود ہو کے رہ گئی ہیں۔ ان ہزاروں چھوٹی زبانوں کو بولنے والے لوگ بتدریج کم ہو رہے ہیں۔
ماہرین خدشہ ظاہر کرتے ہیں کہ اگلے چند سالوں میں دنیا کی 473 زبانیں مر جائیں گی‘ اور اکیسویں صدی کے اختتام تک ان سات ہزار میں سے بھی نوے فیصد زبانیں نا پید ہو چکی ہوں گی۔ فی الوقت کرہ ارض کے 845 ملین لوگ مینڈیرین زبان بولتے ہیں‘ 329 ملین لوگ سپینش اور 328 ملین لوگ انگلش بولتے ہیں۔ دنیا کی 133 زبانیں ایسی بھی ہیں جنہیں دس پندرہ لوگوں سے زیادہ بولنے والے میسّر نہیں (Ethnologue)۔ بلا شبہ سرعت پذیر ذرائع ابلاغ اور ٹیکنالوجی کی وسعت نے کرہ ارض پہ بسنے والے انسانوں کو ایک دوسرے سے قریب کر کے زمین کو ایک گائوں جیسی جڑت میں ڈھال دیا ہے۔ اسی گلوبلائزیشن کے نتیجے میں دنیا کے دور افتادہ خطوں میں آباد چھوٹی کمیونٹیز کو کنجِ تنہائی سے نکل کے وسیع و بسیط دنیا کے ساتھ حیرت انگیز مکالمے کے مواقع ملے، جس سے ہزاروں چھوٹی زبانیں بہ رضا و رغبت ان ہمہ گیر رابطوں کا شکار بن کے ابلاغ کے مرکزی دھارے میں گم ہونے لگیں۔ یہ فطری امر ہے کہ بوڑھی ثقافتیں اور ناتواں تہذیبیں جدید ٹیکنالوجی سے مزّین تازہ دم اور طاقتور تہذیبوں کی کشش سے نہیں بچ پائیں گی۔ بلا شبہ مادری زبانیں، قدرتی طریقہ کار کے مطابق انسان کے خود اپنی فطرت سے ابلاغ، خاندانی رشتوں کی استواری اور قرب و جوار کے ماحول سے ہم کلام ہونے کا مؤثر وسیلہ ہیں، جن کا کوئی نعم البدل نہیں۔ مادری زبان میں ہی لوگ حسن کی مسحور کن تعریف، محبت کا دلنشیں اظہار، حس مزاح کی گدازیت و ذکاوت، زندگی کے لطیف ترین احساسات اور انسانی رشتوںکی نزاکتوں کی خوبصورت تفہیم کر سکتے ہیں۔ معاشرے کا ثقافتی ورثہ اور مادری زبان دونوں ہی انسانوں کے مابین فطری میثاق کی حیثیت رکھتے ہیں۔ شاید اسی لئے سقراط نے اپنے شاگردوں، فیڈو اور کرائیٹو، کو آخری نصیحت یہی کی تھی کہ ''اصطلاحوں کی حرمت کو پامال کبھی نہ کرنا‘‘ ایک گراں قدر ثقافتی مصنوعہ کے طور پہ مادری زبانوں کی اہمیت مسلمہ اور ان کی قدر و منزلت اختلاف سے بالا تر ہے۔ حقیقت پسندی کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ریاست چھوٹی کمیونٹیز کو اپنی ثقافتوں کو برقرار رکھنے میں مدد دے‘ لیکن کیا کیجئے کہ دنیا انسانیت میں کارفرما ہمہ گیر تغیر و تبّدل اور عروج و زوال کے اٹل قوانین ہر لمحہ فنا و بقا کے عمل کو محو خرام رکھتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے، صرف چھوٹی اور کمزور ہی نہیں بلکہ عظیم الشان زبانیں بھی زوال کے بے لاگ عمل کا شکار بن کے صفحہ ہستی سے مٹ گئیں، جن میں سنسکرت، قبطی، سریانی، عبرانی اور لاطینی جیسی گراں قدر زبانیں بھی شامل تھیں، جنہیں صدیوں تک کرۂ ارض کے کروڑوں انسانوں نے ابلاغ کا ذریعہ بنایا۔ متذکرہ زبانوں نے انسانیت کو پُر شکوہ تہذیبیں، لا فانی اخلاقی اصول اور ایسے بنیادی علوم عطا کئے جو آج کی جدید سائنسی تہذیب کی اساس بنے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ انیسویں صدی میں رومان پرور صہیونی تحریکوں نے عبرانی زبان کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی‘ جس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے۔ آج اسرائیل میں دس ہزار سے زیادہ لوگ عبرانی لکھ، پڑھ اور سمجھ سکتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں اسرائیلی حکومت نے عبرانی کو زندہ زبان کے طور پہ تسلیم کر لیا۔ سنسکرت، عبرانی اور لاطینی سمیت کئی پیش پا افتادہ زبانوں کو سمجھنے والے ماہرین اب بھی ماضی میں بسنے والے انسانوں کے روّیوں، ان کی بود و باش، قدیم علوم اور فراموش شدہ ثقافتوں کے مطالعہ میں سر کھپا رہے ہیں‘ لیکن ان ساری لن ترانیوں کے باوجود فطرت کا اٹل اصول یہی ہے کہ گزری ہوئی تہذیبوں اور مری ہوئی زبانوں کو دوبارہ زندہ کرنا ممکن نہیں۔
ول ڈیورانٹ کہتے ہیں ''کائنات میں انسان کو اشرف مخلوق بنانے والی دس چیزوں میں پہلی قوتِ بیان اور دوسری آگ پہ تصرف تھی‘‘۔ انسان نے جب بولنا سیکھا تو اس نے احساسات و جذبات اور خیالات کے تبادلے کے ذریعے باہمی ربط پیدا کیا اور اسی طریقے سے عقل اجتماعی کو مرتب کر کے خود کو طاقتور بنا لیا۔ بلا شبہ زبانیں بھی دیگر حیات آفرین چیزوں کی مانند زندہ وجود رکھتی ہیں۔ یہ مخصوص سماجی عمل کے ذریعے پیدا ہوتی ہیں، پھلتی پھولتی ہیں، ان کے وجود سے نئی ثقافتیں، منفرد لہجے اور نئی زبانیں جنم لیتی ہیں اور پھر وقت کے ساتھ یہ عظیم زبانیں اپنی پُرشکوہ ثقافتوں سمیت بتدریج بوڑھی اور ناتواں ہو کے مر جاتی ہیں۔ سنسکرت سے ہندی، اردو، میراٹھی، بنگالی، پنجابی اور سندھی سمیت درجنوں زبانوں کو وجود ملا۔ سریانی کی کوکھ سے فارسی، ترکی اور پشتو سمیت کئی نئی زبانیں نکلیں۔ عبرانی، عربی جیسی فصیح و بلیغ زبان کو وجود دے گئی جس نے ریگ زارِ عرب کو نورِ علم سے معمور کر دیا۔ لاطینی کے بطن سے انگلش اور سپینش جیسی بڑی زبانوں کی پیدائش ہوئی جو انسانیت کی سب سے بڑی میراث، سائنسِ، کی امین بنیں۔ اس لئے زبانوں اور ثقافتوں کی موت و حیات کا عمل چھوٹی و بڑی زبانوں پہ موقوف نہیں بلکہ یہ ہر دم رواں اور تغیر پذیر عمل ہے‘ جس کے تحت مخصوص ماحول میں زبانیں پیدا ہوتی ہیں، پھلتی پھولتی ہیں اور پھر اجڑ جاتی ہیں۔ وقت کی صرف ایک ہی کروٹ سے انگریزی، اطالوی اور فرانسیسی جیسی چھوٹی زبانیں تیزی سے نشوونما پا کے صرف ایک صدی کے اندر بڑی زبانیں بن کے لاطینی جیسی شاندار زبان کو تاریخ کے جز دانوں میں دفن کر دیتی ہیں۔ تیرہویں صدی عیسوی میں دانتے نے عام بول چال کی اطالوی زبان کو ادب کی زبان بنا کے قومی زبان کا درجہ دلا دیا تھا۔ اہل دانش کہتے ہیں کہ جب روما کی بوڑھی تہذیب مر رہی تھی تو اس کے خمیر سے ایک نئی تہذیب ابھرنے والی تھی، عین اسی وقت دانتے نشاۃ ثانیہ کا علم بردار بن کے اٹھا۔ اس عہد میں نہایت تیزی کے ساتھ علاقائی قومیت کا تصور پھیلنے لگا۔ یورپ کا ہر ملک الگ ہو کے اپنی قومی شناخت پہ ناز کرنے لگا اور ان کی دیسی زبانیں قومی زبانیں بننے لگیں۔ دانتے نے خود لکھا ''ہمارے علم میں نہیں کہ ہم سے پہلے دیسی زبانوں کی طرف کسی نے توجہ دی ہو‘‘ اس رجحان کے ساتھ ہی نشاۃ ثانیہ کی لہر نے پورے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ فرانس میں مونتین، رونسا اور دوبیلے اور انگلستان میں سپینسر نے دیسی زبانوں میں تخلیقی کام کر کے چھوٹی زبانوں کو علمی اور قومی زبانوں میں بدل دیا۔