حکومتِ پاکستان نے اس کے سوا کیا کیا کہ جنگ سے بچنے کی کوشش کی؟ کیا یہ کوئی گناہ ہے۔ کیا یہ جرم ہے؟اے اہلِ ایمان، اے اہلِ ایمان!
بھارتی طیاروں کو زمین بوس کرنے پر ہر پاکستانی کو فخر ہے۔ یہاں تک تو بات سمجھ میں آتی ہے ۔ لیکن پھر بہت سے لوگ کنفیوژن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہوا یہ کہ بھارت نے بالاکوٹ کے گائوں پر میزائل پھینکا۔ چار کلو میٹر اندر گھس کر اور جنہیں فوجی ترجمان پہ اعتبار نہیں، وہ یہ کہتے ہیں کہ ساٹھ کلو میٹر پاکستانی سرحد کے اندر پہنچ کر۔ اس دعوے کا ثبوت کوئی نہیں۔ کچھ لوگ آنکھیں بند کر کے بھارتی میڈیا کو قبول کر لیتے ہیں۔ کیا سی این این نے یہ کہا؟ بی بی سی نے ؟ وہ عالمی اخبارات کیا کہتے ہیں، اپنی سا کھ کی جنہیں فکر ہوتی ہے؟آزاد ذرائع تصدیق نہیں کرتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ بعض پاکستانی بھارتی حکومت کو قابلِ اعتماد سمجھتے ہیں۔وہی این جی اوز والے، بھاڑے کے ٹٹو دو دن تک پاکستانی افواج کا مذاق اڑاتے رہے ، تاآنکہ دشمن کے طیارے گرے اور پائلٹ پکڑا گیا۔
اتفاق رائے سے سیاسی اور عسکری قیادت نے فیصلہ کیا کہ گرفتار فوجی افسر واپس کر دیا جائے۔ بعض لوگ اس پہ معترض ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسی بھی تعجیل کیا؟ کوئی دن انتظار کرنا چاہئے تھا۔ یہ کمزوری کا اظہار ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ بھارتی دبائو میں ہوا۔ پاکستان کی اس سے سبکی ہوئی۔ بھارتی ، اس عمل کو اپنی فتح قرار دے رہے ہیں۔
میرے دوست میر فضلی کا کہنا ہے کہ قیدی کو سعودی شہزادے محمد بن سلمان کے حوالے کرنا چاہئے تھا۔ میر صاحب عمرے پر جانے والے ہیں۔ شاید اس لیے ان کا دل کچھ نرم پڑا ہے ، وگرنہ شاید وہ بھی، نندن کی رہائی پہ احتجاج کرتے۔ آخر کو کٹّر پاکستانی ہیں۔ آج کل ہم میں سے اکثر کٹّر ہی ہیں۔ ایسے میں ہونا بھی چاہئے۔ ایک چیزمگر حکمت بھی ہوتی ہے۔اقوام کے فروغ کا انحصار جذبات نہیں دانش پہ ہوتا ہے۔
تیس برس ہوتے ہیں، حنیف رامے مرحوم کے بڑے بھائی کو، غالباً محمد بشیر ان کا اسم گرامی تھا، قدیم عرب لباس میں دیکھا۔ لمبا سفید کرتا اور تہمد۔ حیرت کا اظہار کیا تو بولے: یہ وہ پیرہن ہے، جو سرکارؐ زیب تن کیا کرتے ۔ ایک گروپ ہے ہم لوگوں کا، مشترکہ طور پر ہم نے ارادہ یہ کیا ہے کہ ہفتے میں ایک دن یہ ملبوس پہنا کریں۔
اللہ کے آخری رسولؐ سے برّصغیر کے مسلمانوں کو محبت بہت ہے۔ اس باب میں، وہ دنیا بھر کے اہل ایمان سے ممتاز ہیں۔ خطاکار سے خطاکار مسلمان بھی ، آپؐ کے نام پر جان دے سکتا ہے۔
اختر شیرانی کا واقعہ معروف ہے۔ مقبول تھے اور بے پناہ مقبول۔ بادہ نوش تھے اور بلا کے بادہ نوش۔ حالت بگڑ جاتی، تو کچھ بھی کہہ گزرتے۔ مضمرات سے بے نیاز، عواقب و نتائج سے بے نیاز۔ وہ جو فیضؔ نے کہا تھا ؎
آئے کچھ ابر کچھ شراب آئے
اس کے بعد آئے جو عذاب آئے
لاہور کے نیلا گنبد سے ملحق ''عرب بیکری‘‘ نام کا ایک ریستوران ہوا کرتا تھا۔ قیام پاکستان سے پہلے ادیبوں اور شاعروں کی محفلیں وہاںجما کرتیں۔ شیرانی صاحب سیراب ہو چکتے تو وہاں تشریف لاتے۔ آسمان پہ تشریف فرما ہوتے اور ستاروںپہ حکم چلایا کرتے۔
ایک ملحد اور آوارہ آدمی نے‘ جو ہمارے کالیے سے بھی بدتر رہا ہوگا، ان کے ہم عصر شاعروں کا ذکر چھیڑا۔ ایک ایک کا انہوں نے نام رکھا۔ ایک ایک کا تمسخر اڑایا۔ پھر مسلم دنیا کی عصری اور بیتی ممتاز شخصیات کا۔ایک ایک عبقری کو اس طرح اٹھا کر پھینکتے رہے، جیسے آوارہ لڑکے دیوانوں پہ پتھر پھینکتے ہیں۔ اس عیّار نے اچانک رحمۃ للعالمینؐ کا نام لے دیا۔ پھر کیا تھا ، بپھر گئے۔ فرطِ جذبات سے کانپنے لگے: ارے او بدبخت تیری یہ مجال کہ آپؐ کا پاکیزہ نام تیری گندی زبان پر آئے۔ لپک لپک کر چیخے اور چیخ چیخ کر لپکتے رہے۔
پینتالیس برس ہوتے ہیں، علی گڑھ یونیورسٹی کا واقعہ، ایک عینی شاہد سے سنا تھا۔ روزنامہ کوہستان کے مرحوم جنرل منیجر سے۔ نام ان کا بھولتا ہوں۔ لمبے تڑنگے، وجیہہ و شکیل آدمی تھے۔ تھانیدار تھے، اکتائے تو کاروبار کا رخ کیا۔ لاہور کے شرفا میں ممتاز رانا خداداد خاں مرحوم کو ان سے تعلق تھا۔ اخبار کو ایک اچھے منتظم کی ضرورت تھی ۔ انہیں لے آئے۔ بات کرنے کا سلیقہ ایسا کہ سبحان اللہ۔ سامع مسحور ہو جاتا۔
بتایا: علی گڑھ یونیورسٹی میں مشاعرہ تھا۔ جگرؔ مراد آبادی کا ان دنوں بہت غلغلہ تھا،عظیم شاعر ۔ لہک لہک کر غزل سنا رہے تھے کہ کسی کو معلوم نہیں کیا سوجھی۔ ''نعت، جگرؔصاحب،نعت‘‘ ہجوم کی نفسیات عجیب ہوتی ہے، بہکے تو طوفانی دریا کی طرح کسی بھی طرف بہہ نکلتا ہے۔ چند طلبہ اس کے ہم آواز ہوئے پھر سب کے سب ''نعت ، جگر صاحب نعت‘‘
جگرؔ رند ضرور تھے، مگر ایک مہذب آدمی۔ روایات کے سانچے میں ڈھلی شخصیت۔ گنگا جمنی تہذیب کا بہترین نمونہ۔ سستی حرکت تو کبھی ان سے سر زد نہ ہوئی، کبھی سستا لفظ بھی زبان سے نہ نکلا۔ وہ ٹالتے رہے، جب تک ممکن تھا، ٹالتے رہے مگر تابہ کے؟ ایک بیچارہ شاعر اور ہجوم کا ہدف، وہ بھی علی گڑھ کے بانکوں کا۔ آخر کو مجبور ہو گئے۔کہا: ٹوپی لائیے۔ سر ڈھانپا اور مصرعہ پڑھا ع
اک رندِ قدح خوار اور مدحتِ سرکارِ مدینہؐ
مصرعہ پڑھا اور آواز بھیگ گئی۔ دہراتے رہے، حتیٰ کہ آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے،ع
اک رندِ قدح خوار اور مدحتِ سرکارِ مدینہؐ
اک رندِ قدح خوار اور مدحتِ سرکارِ مدینہؐ؟ رو پڑے اور پھر دھاڑیں مار مار کر رونے لگے۔ کہاں کا مشاعرہ اور کہاں کی نعت۔ بکھرتے بکھرتے ہجوم بکھر گیا۔ برسوں بعد پھر وہ وقت آیا کہ لاہور میں سید ابوالاعلیٰ مودودی کے ہاں دیکھے جاتے۔ توبہ کرلی اور تاحیات اس توبہ پہ قائم رہے۔جن کے باطن میں روشنی کی رمق ہو، آخر کو اجالا کرتی ہے۔ جن کے باطن میں ریا کے سوا کچھ نہ ہو، خواہ کیسے ہی پاکباز دکھائی دیں، آخر کو ڈھے پڑتے ہیں۔
یہ تو رندوں کی بات ہے۔ دوسروںکی کیفیت کیا ہے؟ آپؐ کی شان میں گستاخی، سمندر پار کسی دور دراز سر زمین میں ہوتی ہے۔ ہزاروں اور ہزاروں اپنا گریباں چاک کر دیتے ہیں۔ اپنا ہی نہیں، دوسروں کا بھی۔ جلسہ ، جلوس اور ہنگامہ۔ عمارتوں کی عمارتیں برباد، بازار کے بازار نذرِ آتش۔ گستاخ کا تو کیا بگڑے گا، خود کو ہلاک کیے لیتے ہیں ؎
کون دیتا ہے دادِ ناکامی
خونِ فرہاد بر سرِ فرہاد
اللہ کے کم ہی بندوں کو توفیق ہوتی ہے کہ سیرۃ طیبہؐ کا مطالعہ کریں۔ جیسا کہ عمر بھر عالی جنابؐ تلقین کرتے رہے، اللہ کی آخری کتاب میں جی لگائیں۔ کم از کم اتنا کہ بنیادی اصولوں سے آگاہ ہو سکیں۔ ان بنیادی قوانین کو سمجھ سکیں، جو اس کائنات میں کارفرما ہیں۔ جن کا ادراک کیے بغیر، صحت مند زندگی کے تقاضوں کی شناخت ممکن نہیں۔
رزم آرائی کے باب میں خاتم المرسلینؐ کے ارشادات کیا ہیں؟ قتل تو دور کی بات ہے، کسی بے گناہ کو نقصان نہ پہنچے۔ درخت کاٹا نہیں جائے گا، فصل جلائی نہ جائے گی۔ بچے، بوڑھے اور خواتین کو امان ہے۔ کھیت میں کام کرتے کسان اور کارخانے میں مصروف مزدور کو بھی۔
ارشاد گرامی آپؐ کا یہ ہے کہ دشمن سے مقابلے کی آرزو نہ کی جائے۔ بلکہ عافیت کی دعا مانگی جائے۔ ہاں اگر جنگ کے سوا چارہ نہ رہے تو جم کر لڑا جائے۔
حکومتِ پاکستان نے اس کے سوا کیا کیا کہ جنگ سے بچنے کی کوشش کی؟ کیا یہ کوئی گناہ ہے۔ کیا یہ جرم ہے؟اے اہلِ ایمان، اے اہلِ ایمان!