گزشتہ دو اڑھائی مہینوں کے دوران پاکستان اور بھارت کے درمیان جو کچھ ہوتا رہا، بظاہر تاریخ کا حصہ بن چکا ہے، لیکن یہ تاریخ ایسی ہے جو بار بار خود کو دہرانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ پردھان منتری نریندر مودی کی انتخابی سیاست نے بھارتی معاشرے میں جنگی جنون کو جس طرح ہَوا دی، وہ کسی بھی وقت کچھ کرکے دکھا سکتا ہے۔ انہوں نے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کھلم کھلا کہا ہے کہ جو کچھ کیا گیا وہ ''پائلٹ پروجیکٹ‘‘ تھا۔ گویا یہ انجام نہیں آغاز تھا۔ اِس آغاز کا انجام کیا ہو گا، وہ اِس بارے میں زیادہ غور و خوض پر تیار نہیں ہیں۔ دُنیا بھر کے مبصرین کہہ رہے ہیں کہ مودی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے، اور کوئی بھی کرتب دکھا سکتے ہیں۔ پاکستان کی پوری کوشش ہے کہ جذبات کی آگ کو ہَوا نہ دی جائے، اس پر پانی ڈالا جائے، دونوں مُلک ایک دوسرے کے ساتھ ایک ہی میز پر بیٹھیں، اور مسائل حل کرنے کی پُرامن کوششوںکا آغاز کریں۔ وزیر اعظم عمران خان دستِ تعاون بڑھائے ہوئے ہیں، لیکن دوسری طرف سے آگے بڑھ کر اس ہاتھ کو تھاما نہیں جا رہا۔ نریندر مودی ٹیلی فون تک پر بات کرنے کے روادار نہیں ہیں۔ وزیر خزانہ شاہ محمود قریشی کھلم کھلا اظہارِ افسوس کر گزرے ہیں۔ عمران خان اپنے ہم منصب کو ڈھونڈ رہے ہیں، لیکن ان کا فون ''رسپانڈ‘‘ نہیں کر رہا۔
پلوامہ کے خود کش حملے کے بعد بھارت نے (حسبِ معمول) پاکستان پر الزام لگایا تھا، لیکن پاکستان نے حسبِ معمول جواب نہیں دیا، بلکہ معمول سے ہٹ کر وزیر اعظم عمران خان نے اپنی ٹی وی تقریر میں یہ پیشکش کی کہ بھارت جس بھی طرح کی تحقیقات چاہے، ہم کرانے کے لئے تیار ہیں۔ پلوامہ میں جو کچھ ہوا، اس میں پاکستان کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔ اپنی جان پر کھیلنے والا نوجوان مقبوضہ کشمیر ہی کا باسی تھا۔ اس کی شناخت بھی ہو چکی تھی، اور بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں اس کی تذلیل کی توثیق بھی کر دی گئی تھی۔ اس نے بارود سے بھری جو گاڑی استعمال کی تھی وہ بھی پاکستان سے نہیں گئی تھی۔ بارودی گولے بھی وہی تھے، جو بھارتی فوج استعمال کرتی چلی آ رہی ہے۔گویا، کوئی شہادت ایسی نہیں تھی، جو براہِ راست پاکستان پر ذمہ داری ڈال سکے، لیکن وزیر اعظم عمران خان نے ''کسی بھی طرح کی تحقیقات‘‘ کی پیشکش کر کے حالات میں ایک نیا اعتماد بھرنے کی بھرپور کوشش کی تھی۔ چاہیے تو یہ تھا کہ بھارت اس موقع کا فائدہ اٹھاتا، اور اس تحقیقات کو جتنا بھی وسیع کرنا چاہتا تھا، کر گزرتا، اس کے لیے بین الاقوامی ماہرین کی خدمات بھی حاصل کی جا سکتی تھیں، اور پاک بھارت تعلقات ایک نیا موڑ مڑ سکتے تھے۔ پاکستان کی سرزمین پر دہشت گردوں کی موجودگی کے جو الزامات لگائے جاتے ہیں، ان کو ثابت کرنے کا اس سے اچھا موقع کوئی اور نہ تھا۔ لیکن اس کے بجائے جنگی راستے کا انتخاب کیا گیا، اور پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کر کے دہشت گردی کے مبینہ ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کا اعلان کر دیا گیا۔ بھارتی میڈیا تو ساڑھے تین سو دہشت گردوں کے مرنے کی خبریں بھی لے آیا۔ مبالغہ آمیز تفصیلات کے علی الرغم پاکستانی فضائی حدود کی خلاف وزی کا دعویٰ درست تھا، پاکستانی فضائیہ کے طیاروں نے ''مہمانوں‘‘ کا تعاقب کیا، لیکن وہ صحیح سلامت بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس پر پاکستان میں افسردگی طاری ہوئی، جبکہ بھارت میں خوب بغلیں بجائی گئیں۔ فتح کے شادیانے بجائے گئے، اور مودی صاحب کے ہم نوائوں نے آسمان سر پر اُٹھا لیا۔ کرنا خدا کا یہ ہوا کہ اگلے ہی روز پاکستان کے بہادر ہوا بازوں نے پانسہ پلٹ دیا۔ بھارت کے دو جنگی طیارے مار گرائے، اور ایک ہوا باز کو اپنی سرزمین پر زندہ گرفتار کر لیا۔ اس کارروائی نے پانسہ پلٹ دیا، اور اہلِ پاکستان کی سانس میں سانس آئی۔ اب گرفتار ہونے والا ہوا باز ''ابھی نندن‘‘ واپس بھارت کے سپرد کیا جا چکا ہے، وزیر اعظم عمران خان ایک امن پسند مدبر کے طور پر اُبھر کر سامنے آئے ہیں، دُنیا بھر میں اُن کے اِس خیر سگالی اقدام کو سراہا جا رہا ہے۔ تصادم میں اضافے کے امکانات کم ہو گئے ہیں، لیکن نریندر مودی کے تیور ابھی تک بدلے نہیں ہیں۔
مودی شر میں سے پاکستان کے لیے یہ خیر بھی برآمد ہوئی ہے کہ پوری پاکستانی قوم متحد ہے۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں تمام سیاسی جماعتوں نے دفاع وطن کے لیے متحد ہونے کا اعلان کر کے اپنے جھگڑوں کو بھلا دیا ہے۔ پاکستانی سیاست جس طرح تقسیم نظر آتی تھی، حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کے رہنما جس طرح ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بنے ہوئے تھے، وہ سب قصۂٔ ماضی بن چکا ہے۔ مارا ماری اور چھینا جھپٹی کی جگہ اتحاد اور اتفاق کے نعروں نے لے لی ہے، یوں پاکستان کے لوگوں نے سُکھ کا سانس لیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اپنی مسلح افواج پر پاکستانیوں کا اعتماد بڑھا ہے۔ ہماری فضائیہ نے جس طرح سرپرائز دیا، اور اپنی پیشہ ورانہ صلاحیت کی جس طرح دھاک بٹھائی، اس نے ہر پاکستانی کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے۔ اہلِ سیاست متحد ہوں، اور اہلِ دفاع کے پیچھے کھڑے ہوں، تو پھر میلی آنکھ سے دیکھنے والا بچ کر کہاں جا سکتا ہے؟ ''بیلٹ‘‘ اور ''بلٹ‘‘ کا یہ اشتراک ہم سب کو مبارک۔ اب یکسوئی کے ساتھ اپنے گریبان میں بھی جھانکا جا سکتا ہے کہ او آئی سی کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کی شرکت نے کئی سوالات کھڑے کر دیئے ہیں۔ پچاس سال میں پہلی بار پاکستانی وزیر خارجہ نے بطور احتجاج اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کیا، لیکن اس کا خاطر خواہ نوٹس نہیں لیا گیا۔ سشما سوراج آئیں اور دھڑلّے سے تقریر کر کے رخصت ہوئیں۔ وہ متحدہ عرب امارات جو ہمارے زر مبادلہ کے ذخائر میں فیاضانہ اضافہ کر گزرا ہے، اور جس کے ولی عہد سے وزیر اعظم عمران خان کی گاڑھی ملاقاتیں ہو چکی ہیں، اس نے اور دوسرے اسلامی بھائیوں نے ہماری بات پر توجہ کیوں نہیں دی؟ یہ وہ سوال ہے جو ''صندوق‘‘ اور ''بندوق‘‘ دونوں کے سامنے ہے، دونوں کو مل کر اس کا جواب ڈھونڈنا ہو گا؟ ہمارے بیانیہ میں کوئی الجھائو ہے یا ہاتھ میں پکڑے کشکول نے ہمیں یہ دن دکھایا ہے؟؟؟
دل کی آزادی شہنشاہی شکم سامانِ موت
تین شاندار پاکستانی
گزشتہ چند روز کے اندر اندر پاکستان اپنے تین ممتاز شہریوں سے محروم ہو گیا۔ مجھے ذاتی طور پر بھی گہرا صدمہ اٹھانا پڑا۔ انتہائی ممتاز اور باوقار قانون دان آفتاب فرخ 90 سال سے زائد اِس جہانِ فانی میں گزار کر رخصت ہوئے۔ مجید نظامی مرحوم کے تو وہ جگری یار تھے ہی، میرے ساتھ بھی قلبی تعلق تھا۔ ان کے والد فرخ حسین تحریک پاکستان کے کارکن تھے۔ آفتاب فرخ لاہور ہائی کوٹ کے جج مقرر ہوئے تھے، لیکن جنرل ضیاء الحق کے جاری کردہ پی سی او کے تحت حلف اُٹھانے سے انکار کر کے ممتاز تر ہو گئے۔
رانا شوکت محمود پیپلز پارٹی کے بانی ارکان میں سے تھے۔ یونیورسٹی ہی میں تھے کہ بھٹو صاحب کو دِل دے بیٹھے۔ پیپلز پارٹی کے لیے دن رات وقف کر دیا۔ پیپلز پارٹی کے اقتدار کے دوران کئی وزارتوں کی سربراہی کی۔ قائد حزبِ اختلاف رہے۔ پیپلز پارٹی پنجاب کی صدارت کے فرائض بھی ادا کیے، لیکن محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کی سیاست اُنہیں راس نہیں آئی۔ غیر فعال ہو گئے، لیکن اپنے اصول نہیں چھوڑے۔ بھائی پھیرو کے قریب دو اڑھائی سو ایکڑ پر رانا ریزارٹ کے نام سے ایک تفریح گاہ بنائی، جس میں فیملیز آتیں اور اپنے آپ کو آسودہ کرتی ہیں۔ پاکستان میں اس کے مقابلے کا کوئی گوشۂ راحت نہیں ہے۔ رانا صاحب 85 برس کی عمر پا کر اِس دُنیا سے رخصت ہو گئے۔ ان کی بیٹی ڈاکٹر عائشہ شوکت اور داماد ڈاکٹر فرید ظفر کے ساتھ ساتھ ہزاروں سوگواروں نے انہیں الوداع کہا۔ چند ہی روز بعد سابق وفاقی سیکرٹری برائے مذہبی امور وکیل احمد خان بھی راہیٔٔ ملکِ عدم ہوئے۔ ان کی عمر فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں گزری، ممبر ٹیکس بھی رہے۔ کردار اور وقار کے ساتھ زندگی گزاری۔ جہاں بیٹھتے محفل کو کشتِ زعفران بنا دیتے۔ اللہ ان تینوں حضرات کی مغفرت فرمائے، اُن کا الگ الگ ذکر پھر کسی وقت ہو گا۔ لاہور شہر کیا پورے پاکستان میں ان کا حلقۂٔ تعارف اُداس ہے، لیکن صبر اور دُعا کے سوا کچھ بھی بس میں نہیں ہے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)