جمہوریت کا یہ فائدہ ہوا ہے کہ پاکستانی تاریخ میں پہلی دفعہ وہ کام ہوا ہے جو دنیا کے بڑے بڑے ملکوں میں نہیں ہوسکا ۔ پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل مشرف اب عدالتی ریمانڈ پر پولیس کی حراست میں ہیں ۔ایک اور سابق آرمی چیف جنرل بیگ اور جنرل اسد درانی کے خلاف آئی ایس آئی اصغر خان کیس میںعدالتی فیصلہ عملدرآمد کا منتظر ہے ۔ جنرل مشرف سمیت اب دس ریٹائرڈ فوجی جرنیلوں کے خلاف مقدمات چل رہے ہیں اور جمہوریت اتنے کم عرصے میں اور کیا کر سکتی تھی ؟ جمہوریت کے زور پر ہی جج بحال ہوئے تھے جنہوں نے اب ان جرنیلوں کو سزائیں دی ہیں۔ یہ وہ کام ہوا ہے جو پاکستان ٹوٹنے کے بعد نہیں ہوا تھا ۔ جمہوریت نے پاکستان میں نئی شروعات کر دی ہیں ۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جمہوریت چلتی رہی تو ان سب سے انتقام لیا جائے گا جنہوں نے ملک لوٹا ہے۔ تاہم یہ کام اتنا آسان بھی نہیں ہے کیونکہ کرپٹ بہت تعداد میں ہیں لہٰذا وہ اتنی آسانی سے شکست نہیں مانیں گے۔ بلاشبہ جمہوری لوگوں اور سرکاری بابوں نے مل کر لوٹ مار کی حد کر دی ہے۔ جو کام سیکرٹری داخلہ خواجہ صدیق اکبر نے نواز لیگ کے ایم این اے انجم عقیل خان کے لیے دن دیہاڑے کر کے دکھایا ہے وہ بہت سارے بیوروکریٹ خواب میں بھی کرتے ہوئے ڈریں گے۔چھ ارب روپے کا سکینڈل سپریم کورٹ میں پڑا ہوا ہے اور صدیق اکبر نے نئے سرے سے ایک نئی ڈیل لکھ کر دے دی ہے جس سے انجم عقیل خان کو الیکشن سے پہلے گھر بیٹھے بٹھائے چھ ارب روپے کا فائدہ اور نیشنل پولیس فائونڈیشن کو اتنا ہی نقصان ہوا ہے۔ اسی طرح وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے 47 ارب روپے ارکان اسمبلی میں ایسے بانٹے ہیں کہ ریوڑیاں بھی ایسے نہیں بانٹی جاتیں۔ یہ سب پیسے سیکرٹری کابینہ نرگس سیٹھی نے بانٹے ہیں اور اب سپریم کورٹ میں اعتراف کیا ہے کہ ان اربوں روپوں کے بانٹنے کا کوئی معیار مقرر نہیں کیا گیا تھا اور سب کچھ وزیراعظم راجہ پرویز کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا تھا کہ وہ جس کو چاہیں اربوں یا کروڑں روپے دیں۔ ایک سو تیس لوگوں کو تین ارب روپے دیے گئے۔ یہ آزادی تو اکبر بادشاہ کو بھی نہیں تھی۔ باقی چھوڑیں، اپنے بھائی راجہ عمران اشرف کو بھی چالیس کروڑ روپے ترقیاتی فنڈ دیا گیا ۔ کابینہ ڈویژن کے پاس یہ اختیار بھی نہیں تھا کہ وہ یہ پوچھ سکے کہ یہ پیسے وہیں خرچ ہوئے جس کے لیے دیے گئے تھے یا جیبوں میں چلے گئے ۔ نرگس سیٹھی نے بھی کھل کر راجہ پرویز اشرف اور ارکان پارلیمنٹ کے ہاتھ مضبوط کیے اور 47 ارب روپے ریلیز کیے۔ کچھ سینٹرز اور ایم این ایز نے بھی لکی مروت میں فنڈز دے کر ایک کروڑ روپے پر بیس لاکھ روپے کمایا۔ اب نرگس سیٹھی ایک ماہ کی چھٹی پر چلی گئی ہیں کیونکہ سپریم کورٹ نے دس دن بعد دوبارہ انہیں بلایا ہوا ہے کہ وہ بتائیں اتنی بڑی رقم کیسے ریلیز کی گئی اور کیا کوئی پوچھ گچھ کا نظام موجود نہیں ہے۔؟حیرت ہوتی ہے کہ اپنی پوسٹنگ لینے کے لیے یہ بابو وزیراعظم اور وزیروں کی کسی حد تک مدد کرنے کو تیار ہوتے ہیں ۔یہ لوگ اپنے پائو گوشت کے لیے دوسرے کا پورا اونٹ ذبح کرنے پر یقین رکھتے ہیں ۔ عدالتوں کا خوف بھی کب کا افسروں کے ذہنوں سے اُتر چکا ہے اور اب ہر کام دھڑلے سے کیا جارہا ہے۔ سپریم کورٹ نے ایل این جی سکینڈل میں سپیشل سیکرٹری پٹرولیم جی اے صابری کو سزا دے کر واپس لے لی تھی اور اس کے بعد کسی بیوروکریٹ نے عدالت کے احکامات کو سنجیدگی سے نہیں لیا ۔ انہیں محسوس ہوا کہ اگروکیل انور منصور جی اپنے کلائنٹ کو سزا کے اعلان کے بعد بھی بچاکر لے جا سکتے ہیں تو کل کلاں کو ضرورت پڑی تو وہ بھی ایک مہنگا وکیل کر کے نکل جائیں گے۔ ایل این جی سکینڈل میں عدالتی حکم ہوا کہ وزیراعظم گیلانی ذمہ داروں کے خلاف انکوائری کرائیں اور ایکشن لیں۔ سیکرٹری تجارت ظفر محمود نے انکوائری کر کے گیلانی کو بھیجی اور انہوں نے اٹھا کر ڈسٹ بن میں پھینک دی کہ کر لو جو کرنا ہے۔ تمام افسران بچ نکلے۔ نیشنل پولیس فائونڈیشن سکینڈل میں نے 2011ء میں بریک کیا تھا کہ نواز لیگ کے ایم این اے انجم عقیل خان نے نیشنل پولیس فائونڈیشن کے ساتھ چھ ارب روپے کا فراڈ کیا تھا۔ موصوف پہلے سکول ٹیچر تھے، پھر پراپرٹی ڈیلر بنے اور اپنی ’’حلال‘‘ کی کمائی میں سے نواز لیگ کے بڑوں کی چونچ گیلی کرائی اور 2008ء میں وہ اسلام آباد سے ایم این اے بن گئے۔ اپنی غیر رجسڑڈ شدہ پراپرٹی فرم کے لیٹر پیڈ پر نیشنل پولیس فائونڈیشن کو تین سو کنال زمین فراہم کرنے کی ڈیل کی۔ کروڑوں روپے وصول کیے۔ اپنے سینکڑوں لوگوں کو نامزد کر کے فائونڈیشن سے پلاٹ الاٹ کرائے اور جواب میں صرف اکہتر کنال ٹرانسفر کرائی اور اس اثناء میں دو ارب روپے کا کرسٹل کورٹ بھی الاٹ کرا لیا ۔ ایک ایک کنال زمین تین دفعہ نیشنل پولیس فائونڈیشن کو بیچی گئی۔ جب سکینڈل سامنے آیا تو سپریم کورٹ نے سوموٹو لے لیا اور ظفر قریشی کو انکوائری افسر بنایا گیا ۔ انجم عقیل گرفتار ہوا اور اس نے تحریری طور پر لکھ کر دیا کہ وہ چھ ارب روپے یا اس کے برابر جائیداد واپس کرے گا ۔ ایف آئی اے نے چالان عدالت میں پیش کردیا اور اس کے بعد اسے بچانے کی کوششیں شروع ہوگئیں۔ رحمن ملک بھلا کیسے یہ روایت پڑنے دیتے کہ کسی کو جیل جانے دیں ۔ سپریم کورٹ میں ظفر قریشی نے لکھ کر دیا کہ انجم عقیل خان چھ ارب روپے واپس کریں گے۔ سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ ان کے خلاف بھی کارروائی کی جائے جنہوں نے نیشنل پولیس فائونڈیشن سے دس دس پلاٹ لیے اور اپنے رشتہ داروں میں بانٹے۔ انجم عقیل خان نے فوری طور پر دو ارب روپے کی کرسٹل کورٹ کی جائیدادنیشنل پولیس فائونڈیشن کو واپس کردی۔ اب دو برس بعد، حکومت ختم ہونے سے دس دن قبل چار مارچ کو سیکرٹری داخلہ خواجہ صدیق اکبر نے ایک نئی خفیہ ڈیل کر کے انجم عقیل خان کو دو ارب روپے کا کرسٹل کورٹ واپس کردیا جو دو سال سے نیشنل پولیس فائونڈیشن کے پاس تھا ۔ عقیل کے ذمے دو سو کنال زمین نکلتی تھی۔ اسے کہا گیا وہ صرف 56 کنال واپس کرے اور اگر زمین نہیں ہے تو وہ 825,000 ٖفی کنال ادا کرے جو چار کروڑ روپے بنتا ہے۔ اس سیکٹر میں ایک پلاٹ چار کروڑ روپے کا ہے۔ انجم عقیل ایک پلاٹ بیچ کر 56 کنال کی قیمت ادا کرے گا۔ ایم ڈی جاوید اقبال نے22 جعلی پلاٹ کینسل کیے تھے ،وہ بھی انجم عقیل کے حق میں بحال ہوگئے ہیں۔ ایف آئی اے نے مقدمات بھی واپس لے لیے ہیں۔ یوں پولیس فائونڈیشن سکینڈل سے سب بچ نکلے ہیں۔ انجم عقیل کو صبر کا پھل ملا،ایف آئی اے مقدمات ختم ،نواز لیگ کا ٹکٹ حاضر اور اب وہ اپنے چھ ارب روپے واپس جیب میں ڈال کر الیکشن مہم پر نکل گئے ہیں۔ ادھر نگران وزیراعظم کھوسو نے سیکرٹری داخلہ صدیق اکبر کو ترقی دے کر بیوروکریٹس کا باس بنا دیا ہے اور وہ اب پرنسپل سیکرٹری ٹو وزیراعظم ہوں گے، عظیم فرانسیسی ادیب بالزاک نے ایسے تو نہیں کہا تھا :Behind Every Great fortune, there is a crime !
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved