تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     03-03-2019

بھارت کا جنگی جنون اور اس کا جواب

ہندوستان پاکستان سے نفرت اور کشمیریوں کو بزور طاقت دبانے کے جنون میں مبتلا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)، اس کی اتحادی تنظیموں اور رہنمائوں کا خمیر اور نظریۂ حیات امن اور علاقائی ہم آہنگی سے میل نہیں رکھتا؛ تاہم یہ نفرت صرف پاکستان تک محدود نہیں، اس کا اصل نشانہ ہندوستان کے پسے ہوئے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ مذہبی اقلیتیں بھی رہی ہیں۔ 
بھارتیہ جنتا پارٹی ہندوستان کے اُن بانیوں کو محبِ وطن نہیں سمجھتی جو سیکولرازم کو اتحاد اور یکجہتی کے لیے ضروری سمجھتے تھے۔ دراصل ہندوستانی معاشرے کی ساخت میں آنے والی تبدیلیوں کی وجہ سے یہ پارٹی ابھری تھی۔ نہ صرف نہرو خاندان کے زوال کے ساتھ کانگرس پارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی، بلکہ اس کے جانشین اُس دانش مندی، اجتماعی سوچ اور دھڑے بندی کی سیاست کے دائو پیچوں سے بھی نا بلد تھے جو جواہر لال نہرو اور پھر اندرا گاندھی کا خاصہ تھے۔ 
وزیرِ اعظم نریندر مودی کو اور اُن کی پارٹی کو اقتدار میں لانے میں کلیدی کردار ہندوستان کے متوسط طبقے کا ہے۔ یہ طبقہ اپنے مزاج کے اعتبار سے انتہا پسند اور قوم پرست ہے۔ ویسے تو قوم پرستی کے جذبات ہر جگہ موجود ہیں۔ یہ جذبات معیشت، سماجی کردار اور معاشرے کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، لیکن اگر ان کا ہدف اقلیتیں اور پڑوسی ممالک ہوں تو یہ نہ صرف داخلی ہم آہنگی کے لیے زہرِ قاتل ثابت ہوتے ہیں بلکہ ان کی وجہ سے پورا خطہ جنگ کے شعلوں کی نذر بھی ہو جاتا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی قوم پرستی منفی‘ جارحانہ اور انتہا پسندی کی سیاسی آب و ہوا میں پروان چڑھی۔ انتخابات کے دوران پاکستان اور مسلم مخالف بیانیہ اُن کا سیاسی سہارا تھا۔ نریندر مودی نے گجرات میں کئی ہزار مسلمانوں کا قتلِ عام کرایا۔ اس کے علاوہ اُن کے دور میں گجرات میں ہونے والی اقتصادی ترقی اور اُن کی انتظامی صلاحیت کا چرچا ہوا۔ اس کے سامنے مسلمانوں کا خون پانی ہو گیا۔ 
گزشتہ ایک ہفتے کے دوران پیش آنے والے واقعات کے پیچھے ایک سوچا سمجھا منصوبہ کارفرما ہے۔ حتمی مقصد پارٹی (بی جے پی) کو دوبارہ اقتدار میں لانا ہے۔ منصوبہ یہ ہے کہ پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے الزام کو تواتر سے دہراتے ہوئے سیاسی مکالمے میں اجاگر کیا جائے۔ کشمیر میں آزادی کی جنگ لڑنے والے کشمیریوں کی جدوجہد کو دہشت گردی سے تعبیر کیا جائے۔ سچی بات یہ ہے کہ ہندوستان کے اندر سے بھی یہ آوازیں آنا شروع ہو گئی ہیں کہ کشمیر ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے۔ بعض مبصرین اور سابق ارکانِ پارلیمنٹ اور وزرا کہہ رہے کہ مودی سرکاری کی پالیسیوںکی وجہ سے کشمیری عوام اور سیاسی قیادت کا اعتماد ہندوستان سے اٹھ چکا ہے۔ بندوق کی گولی سے اُنہیں دبایا نہیں جا سکتا؛ چنانچہ پاکستان اور کشمیریوں سے بات کی جائے۔ 
مسئلے کا سیاسی حل تلاش کرنے کی بجائے بھارتی حکومت وحشیانہ ہتھکنڈوں پر اتر آئی۔ اس نے وادی میں ظلم اور بربریت کا بازار گرم کیا ہوا ہے۔ پلوامہ واقعہ ریاستی فورسز کے ہاتھوں کشمیری نوجوانوںکے قتلِ عام کا ردِ عمل تھا۔ یقینا کشمیر کے حالات کبھی بھی معمول کے مطابق نہیں رہے، لیکن گزشتہ دو دہائیوں میں کشمیر کی نئی نسل جس جنگی ماحول میں پروان چڑھی ہے، اس نے ان کے دل سے فورسز کا خوف نکال دیا ہے۔ وہ کشمیری سیاست دان، جو ہندوستان کے ساتھ وفادار تھے، اب اُن کا کشمیر میں سیاست کرنا مشکل ہو چکا ہے۔ اب وہ یا تو چپ ہیں، یا اُن کے بیانات ہندوستانی فوج کی مذمت، اور مزاحمتی تحریک کی حمایت میں آتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت کشمیر میں سیاسی طور پر تنہا ہو چکا ہے۔ اُس کی فورسز وہاں وہی کچھ کر رہی ہیں جو نوآبادیاتی ممالک کی فوج مقبوضہ علاقوں میںکرتی تھی۔ 
اس تناظر میں پاکستان کے خلاف جارحیت کے پیچھے مودی سرکار کے دو مقاصد تھے۔ پہلا یہ کہ کشمیری مزاحمت کو ہندوستانی عوام کے سامنے ایک دہشت گرد تحریک کے طور پرپیش کیا جائے۔ دوسرا یہ کہ پاکستان کو کشمیریوں کی تحریک کا محرک اور مددگار ثابت کیا جائے۔ نائن الیون کے بعد مسلمانوں، خاص طور پر پاکستان اور افغانستان کے بارے میں مغربی بیانیہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے ترتیب پاتا ہے۔ 
بھارتی حکومت نے اس بیانیے کا خوب فائدہ اٹھایا۔ اس دوران ہندوستان اور امریکہ کے درمیان تزویراتی تعلقات وسیع ہوئے۔ ہندوستان کا ایک بہت بڑی منڈی ہونا، اور اس کی معاشی ترقی اس کے حق میں جاتی ہے۔ دنیا اپنے مفاد کے لیے اس کی طرف دیکھتی ہے؛ چنانچہ یہ بلا روک ٹوک اپنی پالیسیوں، جیسا کہ پاکستان کو کمزور، تنہا اور غیر مستحکم کرنا، پر گامزن رہا ہے۔ ہندوستان دنیا سے بے پناہ اسلحہ خریدتا ہے؛ تاہم پاکستان نے جوہری ہتھیاروں کی بدولت ہندوستان کی عسکری، عددی اور اقتصادی برتری کا توڑ تلاش کر لیا۔ ہمارا مقصد صرف یہ رہا ہے کہ ہندوستان جنگ کرنے پہلے ہزار بار سوچے۔ میزائل ٹیکنالوجی اور اس سے پیوستہ دیگر مہارتوں کے مسلسل حصول نے ہمیں قابلِ اعتماد اور توانا جوہری استعداد قائم رکھنے میں مدد دی۔
ہندوستان کے جنگی جنون نے پاکستان کے خلاف جہاں اندرونی دہشت گردی اور لسانی گروہوں کی پشت پناہی کی، وہیں اس نے کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن کو اپنی حربی حکمتِ عملی کا حصہ بنایا۔ اس کے پیچھے یہ مفروضہ کارفرما ہے کہ ہندوستان کئی محدود حملے کر کے پاکستانی فوج اور معیشت کو کمزور کر سکتا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے وہ خطے میں اپنا غلبہ قائم کر کے افغانستان اور وسطی ایشیا تک رسائی حاصل کرنے کے خواب دیکھتا رہا ہے۔ اب صرف کمزور پاکستان ہی اُسے یک طرفہ طور پر ایسی سہولت دے سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان عسکری طور پر طاقتور پاکستان کو اپنے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتا ہے۔ 
گزشتہ برس ہندوستان نے پاکستان کے اندر سرجیکل سٹرائیک کا ایک بے بنیاد دعویٰ کیا تھا۔ اسی طرح پلوامہ واقعے کے بعد پاکستان کے اندر بالا کوٹ کے قریب ایک ویرانے میں بم گرا کر ایک تنظیم کے کارکنوں کو ہلاک کرنے کا لغو دعویٰ بھی اسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ ہندوستان کو زعم تھا کہ وہ پاکستان کے اندر ایسی کارروائیاں کر کے اس کے جوہری طاقت ہونے کے تاثر کو زائل کر سکتا ہے۔ اس کے برعکس ہمارا موقف یہ تھا کہ جنگ محدود نہیں رکھی جا سکتی، خاص طور پر جب یہ دو جوہری طاقتوں کے درمیان ہو۔
پاکستان کی طرف سے ہندوستان کو موزوں وقت پر موزوں اہداف کے خلاف کارروائی کر کے جواب دینا ناگزیر ہو چکا تھا۔ بھارت غالباً یہ سمجھ رہا تھا پاکستان اس کا جواب دینے کا خطرہ مول نہیں لے گا۔ اگر پاکستان ایسا کرتا تو ہندوستان کو شہ ملتی ، اور وہ ایسی جارحیت کا ارتکاب کرتا رہتا۔ لیکن پاکستان نے بھارت کے دو جنگی طیارے گرا کر اور ایک پائلٹ کو گرفتار کر کے جنگی توازن قائم کر دیا۔ کولڈ سٹارٹ کو پاکستان کے میدان جنگ میں استعمال ہونے والے جوہری ہتھیاروں اور نصر میزائل نے ٹھنڈا ہی نہیں، ہمیشہ کے لیے منجمد بھی کر دیا ہے۔ باقی کسر ہماری عسکری اور سیاسی قیادت کے عزم نے پوری کر دی۔ 
وزیرِ اعظم نریندر مودی کے مقابلے میں وزیر اعظم عمران خان نے ایک سیاسی مدبر کا کردار ادا کیا۔ پلوامہ واقعے کے تناظر میں اُن کی مختصر مگر مدلل تقریر، پھر پاکستان کا عسکری ردِ عمل، اور پھر اس کے بعد کی تقریر اُن کی مدبرانہ سوچ اور قائدانہ صلاحیت کا بہترین اظہار ہے۔ اس کا اعتراف اُن کے حامیوں کے ساتھ ساتھ اُن کے مخالفین نے بھی کیا۔ متعصب لوگوں کی بات اور ہے۔ 
کاش مودی صاحب بھی عمران خان کی بات پر کان دھرتے اور جہاز گرائے جانے، اور پائلٹ کی گرفتاری کی ہزیمت سے بچ جاتے۔ دشمنی کے جذبات بھڑکا کر انتخابات جیتنے کا حربہ اُن کی گردن کا بھاری پتھر بن چکا ہے۔ ہندوستان کے پائلٹ کو رہا کرنا ایک مستحسن فیصلہ ہے۔ اس سے موجودہ کشیدگی کم کرنے میں مدد ملے گی۔ پوری دنیا نے اس فیصلے کو سراہا ہے۔ پاکستان نے اس بحران کے دوران سیاسی بلوغت، بصیرت اور ہوش مندی کا ثبوت دیا ہے۔ ممکن ہے کہ طاقت کا نشہ اترنے کے بعد بھارتی قیادت بھی ہوش مندی کا راستہ اپنانے کا سوچے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved