کانگریس کی قیادت میں وزیراعظم من موہن سنگھ کی حکومت سے تامل پارٹی ،ڈی ایم کے کی علیحدگی کے بعد سیاسی پارٹیوں نے عام انتخابات کیلئے تیاریاں شروع کردی ہیں ۔کانگریس ایک بار پھر حکومت کی کارکردگی اور عوامی فلاح کے منصوبوں کی آڑ میں لوگوں کی توجہ کرپشن اور دوسرے متنازعہ موضوعات سے ہٹانے کی کوشش کررہی ہے۔ سب سے بڑی اپوزیشن جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی )دوراہے پر کھڑی ہے۔وہ اس بات کا فیصلہ نہیں کر پا رہی کہ وہ اپنے پرانے ہندوتا یعنی ہندو قوم پرستی کا راگ الاپ کر عوام کو لبھائے یا اپنے آپ کو سیکولر کے طور پر پیش کرکے اقلیتی فرقوں اور دوسری ذاتوں میں اپنا سیاسی اثرو رسوخ قائم کرکے سیاسی دائرہ وسیع کرے۔پارٹی کا ایک بااثر طبقہ صوبہ مغربی گجرات کی ترقی کی کہانی سنا کر ہندو قوم پرست وزیراعلیٰ نریندر مودی کو میدان میں لا کر ہندوئوںکے ووٹ بٹورنا چاہتا ہے۔پارٹی کے دوسرے لیڈروں کا خیال ہے کہ ملک میں رام مندر یا بابری مسجد جیسی دوسری لہر پیدا کرنا اور ہندو ووٹوں کو یکجا کرنا اب ممکن نہیں ۔اس طبقے کا خیال ہے کہ بی جے پی کانگریس کے متبادل کے طور پر دبائیں بازو کے سیکولر خلا کو پُر کرسکتی ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں میںبی جے پی نے کئی اتار چڑھائو دیکھے ‘ کئی رنگ بدلے ۔ اس نے اقتدار کے مزے بھی لئے ،انتخابات میں شکست کا منہ بھی اسے دیکھنا پڑا اور بیرونی حملوں کے علاوہ داخلی بغاوت کا بھی سامنا کرنا پڑا۔اس دوران یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ پارٹی بھی دوسری پارٹیوں سے مختلف نہیں۔ نظریاتی جماعت ہونے کا دعوی کرنے کے باوجود یہ اقتدار کے لئے تمام حربے اختیار کرنے میں کسی سے پیچھے نہیں رہی اور اس میں عہدوں کے لئے سر پھٹول بھی ہوتا رہا۔ سیاسی ماہرین کہتے ہیں کہ سیاسی پارٹیوں کا عروج و زوال ایک فطری عمل ہے لیکن صرف تین دہائیوں کے دوران بی جے پی جس حالت کو پہنچ گئی ہے ،وہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس کی بنیاد یں کمزور تھیں۔ ہندوئوں کے مذہبی جذبات بھڑکا کر بابری مسجد کو شہید کرکے رام مندر کی تعمیر کے نام پراقتدار میں آنے والی بی جے پی شاید اب بھی یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ اس سے غلطی کہاں ہوئی ۔ ممتاز تجزیہ کار اے جی نورانی کہتے ہیں کہ بی جے پی کا حال اس بچے جیسا ہے جو جوان ہونے کے باوجود ہر کام کے لئے اپنے سرپرست پر انحصار کرتا ہے۔ ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ یعنی آرایس ایس کے ساتھ بی جے پی کا تعلق کچھ اسی طرح کا ہے اور اس کے رہنما اپنے اس تعلق پر فخرکرتے ہیں۔ پارٹی کے سینئر لیڈر وینکیہ نائیڈو کا کہنا ہے کہ بی جے پی کا آر ایس ایس سے جنم جنم کا رشتہ ہے اور ہم یہ رشتہ کبھی نہیں توڑیں گے۔نورانی کے بقول بی جے پی ایک فرماں بردار بچے کی طرح جب تک آر ایس ایس کے احکامات کی پابندی کرتی رہی تعلقات خوشگوار رہے لیکن جب جب اس نے آزاد روی اور خودمختاری دکھانے کی کوشش کی ،اس کے تعلقات کشیدہ ہوگئے اور اسے اپنے سرپرست کی ناراضگی کی قیمت بھی چکانی پڑی۔1984ء میں جب پارٹی کے صدر اٹل بہاری واجپائی کی قیادت میں پارٹی نے گاندھی طرز کے سوشلزم کا نـظریہ پیش کیا تو آر ایس ایس نے بی جے پی کو سخت ڈانٹ پلائی اور جب پارٹی نے اسے نظر انداز کرنے کی کوشش کی تو آر ایس ایس نے اُسی سال کے انتخابات میں درپردہ کانگریس پارٹی کی حمایت کی جس کے نتیجے میں543 نشستوں والی پارلیمنٹ کے لئے بی جے پی کے صرف دو امیدوار منتخب ہوسکے۔ اس شکست کے بعد بی جے پی کا دماغ ٹھکانے پر آگیا اور اس نے اپنا سر اپنی ’’ماں‘‘ کے قدموں میں رکھ دیا۔1986ء میں جب لال کرشن اڈوانی نے پارٹی کے صدر کا عہدہ سنبھالا تو انہوں نے آر ایس ایس کے ساتھ اپنے رشتوں کا برملا اظہار کیا اور شدت پسندہندوازم کی وکالت شروع کردی ۔مذہب کے نام پر ہندوئوں کو بھڑکایا، رام مندر کی تعمیر کے نام پر رتھ یاترائیں کیں اور 6دسمبر1992ء کو بابری مسجد کی شہادت کا واقعہ پیش آگیا۔ ہندوئوں کے جذبات کا فائدہ اٹھا کر بی جے پی 1998ء میں اقتدار کی مسند تک پہنچ گئی۔اس نے ایک بار پھر اپنی آزادی کے لیے ہاتھ پیر مارنا شروع کردیے۔اس نے اس بار آر ایس ایس کی گرفت سے آزاد ہونے کے لیے مخلوط سیاست کی مجبوریوں کو بہانہ بنایا۔بی جے پی لیڈر آر ایس ایس کے رہنمائوں سے مہینوں ملاقات نہیں کرتے تھے ۔وہ اس خام خیالی میں مبتلا ہوگئی کہ اسے ملک کی مڈل کلاس کے ہندوئوں کی حمایت حاصل ہوگئی ہے۔وہ اس بات کو بھول گئی کہ ملکی سیاست کی باگ ڈور آج بھی اعلیٰ ذات کے ہندوئوں کے ہاتھو ں میں ہے۔انجام کار پچھلے دو انتخابات میں اسے اتنی سیٹیں نہ مل سکیں کہ وہ حکومت بناسکے۔ بی جے پی اپنے چھ سالہ دور اقتدار کو بھارت کی تاریخ کا سب سے شاندار دور قرار دیتی ہے ۔شاید اب پارٹی کے سینئر لیڈروں کو اپنی غلطیوں کا احساس ہونے لگا ہے۔ راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر ارون جیٹلے نے اعتراف کیا ہے کہ ’’ بی جے پی کے چھ برس کے کام کاج کا پھل نہ ملتے دیکھ کر دل میں کھٹک پیدا ہوتی ہے‘ ایک ٹیس اٹھتی ہے‘ کچھ ایسے واقعات ہوئے جن پر قابو نہیں پایا جاسکا‘ گجرات میں کچھ غلطیوں اور فسادات کا افسوس ہے‘ اس سے بی جے پی کایہ خواب چکنا چور ہوگیا ہے کہ ملک کو فسادات سے پاک بنایا جائے ۔ یہ فسادات کسی بھی مہذب سماج پر سیاہ داغ کی طرح ہیں۔ دہلی اور احمدآباد ـ)گجرات( میں ہماری حکومت رہتے ہوئے ایسے واقعات ہوئے۔‘‘ برسوں اپوزیشن کا کردار ادا کرنے والی بی جے پی اقتدار کی مسند پر پہنچی تو اس کے اندر بھی وہ تمام برائیا ں پیدا ہوگئیں جن کے لئے وہ کانگریس پرنکتہ چینی کرتی تھی۔ اس کے افراد بھی ’’ فائیو اسٹار لائف اسٹائل‘‘ کے عادی ہوگئے اور اقتدار کی چاٹ لگنے کے بعد اس سے محرومی ان کے لئے ناقابل برداشت ثابت ہونے لگی ۔کل تک ڈسپلن کی دہائی دینے والی پارٹی میں آج ہر جگہ سر پھٹول نظر آرہا ہے، مرکزی قیادت کا کسی پر بس نہیں چلتا۔ گجرات کے وزیر اعلی نریندر مود ی کے خلاف کارروائی کرنے کی کسی میں ہمت نہیں ۔اور تو اور وہ اب اپنے مربی ایڈوانی کو ہی اپنی وزارت عظمیٰ کی راہ کا روڑا سمجھتے ہیں اور وقتاً فوقتاًانہیں بے عزت کرنے کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ایڈوانی بھی اب آئندہ الیکشن گجرات کے بجائے وسطی ریاست مدھیہ پردیش سے لڑنے کی تیاریوں میں ہیں۔ سیاسی مبصرین کے بقول بی جے پی کے ساتھ المیہ یہ ہے کہ وہ کیڈرپر مبنی پارٹی ہونے کا دعوی تو کرتی ہے لیکن وہ اب تک اپنا کیڈر تیار کرنے میں ناکام رہی ہے۔اس لئے اسے پوری طرح آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں وشواہندو پریشد اور بجرنگ دل جیسی شدت پسند تنظیموں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔تین دہائیوں کے بعد بھی بی جے پی کا سب سے طاقتور لیڈر آر ایس ایس سے ہی آتا ہے جس کی وجہ سے وہ پارلیمنٹ میں سب سے بڑی پارٹی ہونے کے باوجود اتحادی بنانے میں ناکام رہتی ہے۔ رائے عامہ کے تازہ جائزوں کے مطابق بی جے پی اگرچہ سیٹوں کے معاملے میں کانگریس سے آگے نظر آتی ہے مگر حکومت کی مسند سے پھر بھی دُور ہے۔ مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ بی جے پی سیاسی اثر رکھتی ہے لیکن اسے وہ مقبولیت نہیں مل سکی جو کانگریس کو حاصل ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بی جے پی بڑی حد تک مالدار طبقوں اور شہروں کی مڈل کلاس پر انحصار کرتی ہے ۔اس لیے اگر بی جے پی ملک میں بااثر رول ادا کرنا چاہتی ہے تو اسے کام کرنے کے انداز میں مثبت تبدیلی لانی ہوگی ،غلطیوں سے سبق سیکھنا ہوگا،عوام کے ہر طبقے خصوصاً اقلیتوں کے حقوق اور پڑوسی ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات کے لیے پیشرفت کرنا ہوگی۔ اس کے بعد ہی وہ صحیح معنوں میں خود کو عوام کے سامنے ایک متبادل کے طور پرپیش کرسکے گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved