تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     05-03-2019

سوال اٹھارہ کروڑ کا

فروری کے آخری ایام سے اب تک جو کچھ بھی ہوا ہے ‘وہ پوری دنیا پر بہت کچھ واضح اور ثابت کرنے کے لیے انتہائی کافی ہے۔ پاکستان محض عسکری حکمت عملی کے حوالے ہی سے نہیں ‘بلکہ سفارتی سطح پر اور اخلاقی اعتبار سے بھی بھارت پر سبقت لینے میں نمایاں‘ بلکہ قابلِ رشک حد تک کامیاب رہا ہے۔ بلند بانگ بھارتی دعووں کے مقابل محض ایک فوجی کارروائی نے معاملات کو کہیں سے کہیں پہنچادیا۔ بھارتی پائلٹ کی گرفتاری اور پھر رہائی نے دنیا کو بتادیا کہ پاکستان اپنے معاملات کو درست کرنے کی پوری صلاحیت و سکت رکھتا ہے اور یہ کہ اس حوالے سے کسی کو کسی خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے۔ دنیا نے دیکھ لیا ہے کہ ہم نے کیا کِیا ہے اور بھارت کیا کر رہا ہے۔ ونگ کمانڈر ابھینندن وردھمان کو ہم نے واہگہ بارڈر پر بھارتی حکام کے حوالے کیا اور اگلے ہی دن‘ جے پور جیل میں شہید کیے جانے والے پاکستانی‘ شاکر اللہ کی میت بھارت نے واہگہ بارڈر ہی پر ہمارے حوالے کی۔ ہم نے ہائی پروفائل بندہ زندہ دیا اور ہمارا عام شہری (جس کا بظاہر سیاست یا فوج سے کچھ لینا دینا نہ تھا) مُردہ لَوٹایا گیا۔ بے ضمیری یہیں تک محدود نہیں۔ بھارت نے شاکر اللہ کی میت کو ایمبولینس میں لانے کی زحمت بھی گوارا نہ کی‘ بلکہ سامان لانے والے ٹرک پر لاد کر لائی گئی! یہ ہے تہذیب کا فرق۔ پاکستان سے دشمنی کی راہ پر چلتے ہوئے بھارت کی قیادت اور عوام دونوں ہی نے تمام تسلیم شدہ تہذیبی اقدار کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا ہے۔ 
برطانیہ کے معروف صحافی رابرٹ فسک‘ اسرائیل اور اس کے ہم نوا ممالک پر شدید تنقید کے حوالے سے خصوصی شہرت رکھتے ہیں۔ جو کچھ مشرق وسطٰی میں ہو رہا ہے‘ اُس کے بارے میں رابرٹ فسک کھل کر لکھتے رہے ہیں اور اس حوالے سے وہ ذرا بھی لگی لپٹی رکھنے کے قائل 
نہیں۔ بالا کوٹ پر سرجیکل سٹرائیک کے نام پر بھارتی فضائیہ نے جس حماقت کا مظاہرہ کیا‘ اُس سے متعلق برطانوی اخبار دی انڈیپینڈنٹ میں اپنے مضمون میں رابرٹ فسک نے لکھا ہے کہ اس نام نہاد سرجیکل سٹرائیک نے بہت کچھ بیان کیا ہے۔ بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ بھی کھل کر سامنے آیا ہے‘ کیونکہ بالا کوٹ پر کیے جانے والے بزدلانہ حملے میں بھارتی فضائیہ نے اسرائیلی ساخت کے ''رافیل سپائس 2000‘‘ سمارٹ بم استعمال کیے۔ رابرٹ فسک نے لکھا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کا پایا جانا فطری سا امر ہے۔ دونوں ممالک کی افواج کئی بار آمنے سامنے ہوئی ہیں۔ اسرائیل نے پاک بھارت کشیدگی کو ہوا دینے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اسرائیلی قیادت جلتی پر تیل چھڑک کر تماشا دیکھ رہی ہے۔ بات ایسی مشکل نہیں کہ سمجھ میں نہ آسکے۔ اسرائیل کو اپنا اسلحہ بیچنا ہے اور اُس اسلحے کی عملی آزمائش بھی درکار ہے۔ وہ بھارتی قیادت کو پاکستان کے خلاف مسلسل اکساتا رہا ہے اور اُس کی محنت بالآخر بالا کوٹ میں رنگ لے آئی‘ جہاں اُس کے ہائی پروفائل سمارٹ بم بروئے کار لائے گئے۔ 
بھارت اور اسرائیل دونوں میں انتہا پسند جماعتیں برسر اقتدار ہیں۔ دونوں ہی حکومتیں پاکستان کو نشانے پر لیے ہوئے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے آل آؤٹ جنگ چھیڑنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ بھارتی فوج کسی بھی اعتبار سے مکمل تیاری کی حالت میں نہیں۔ اکیس جماعتوں پر مشتمل اپوزیشن اتحاد نے بھی بے جے پی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور ملک بھر میں جنگ کے خلاف فضاء تیار کرنے کی ٹھانی ہے۔ یہ بات عام بھارتی باشندے کی سمجھ میں بھی آرہی ہے کہ بی جے پی محض الیکشن جیتنے کیلئے ملک کو جنگ کی بھٹی میں جھونکنے پر تُلی ہوئی ہے۔ بھارتی میڈیا تو جذبات کے ریلے میں بہہ گیا ہے ‘مگر جن میں تھوڑی بہت عقل پائی جاتی ہے وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ صورتِ حال کس قدر نازک ہے اور محض ایک غلطی پورے خطے کو کہاں سے کہاں لے جاسکتی ہے۔ مودی سرکار نے اپنی سی تو پوری کوشش کی کہ جنگ چھڑے‘ مگر خود بھارتی فوج بھی اس حوالے سے کچھ اور کہہ رہی ہے۔ بھارتی فضائیہ کو بالا کوٹ حملے کے حوالے سے شدید نکتہ چینی کا سامنا ہے۔ حد یہ ہے کہ بھارتی فضائیہ کے سربراہ بریندر سنگھ دھنووا 6 دن بعد میڈیا کے سامنے آنے کی ہمت کر پائے ہیں! پریس کانفرنس میں جب اُن سے پوچھا گیا کہ بالا کوٹ حملے میں (دشمن کی) کتنی ہلاکتیں ہوئیں تو اُنہوں نے کہا کہ یہ بتانا حکومت کا کام ہے۔ یہ جملہ اس امر کا بیّن ثبوت ہے کہ بھارتی فوج اور حکومت ایک پیج پر نہیں ہیں۔ سیدھی سی بات ہے‘ ہلاکتیں جب ہوئیں ہی نہیں تو بتایا کیا جائے گا! پریس کانفرنس کے دوران ایئر چیف مارشل بریندر سنگھ دھنووا کو متعدد سوالوں پر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک طرف تو فضائیہ کی ناکامی تھی اور دوسری طرف دِلّی سرکار کی طرف سے کی جانے والی گول مول باتیں۔ ونگ کمانڈر ابھینندن وردھمان کی گرفتاری نے فوج سمیت پوری بھارتی قوم کے مورال کو دھول چاٹتا کردیا۔ ایسے میں فضائیہ کے سربراہ میں اِتنی ہمت کہاں کہ سَر اٹھاکر بات کریں۔ 
رابرٹ فسک نے اپنے مضمون میں بھارت‘ اسرائیل گٹھ جوڑ کا تجزیہ کرتے ہوئے ایک تو یہ نکتہ بیان کیا کہ بھارت کو اپنی چکنی چپڑی باتوں میں لے کر اسرائیلی قیادت دراصل زیادہ سے زیادہ اسلحہ بیچنا چاہتی ہے۔ اس وقت بھی اسرائیلی اسلحے کا سب سے بڑا خریدار بھارت ہے اور دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ معاملہ صرف اسلحے کی خریداری تک محدود نہیں۔ اسرائیلی قیادت بھارت کے اندرونی معاملات کو بھی خرابی سے دوچار رکھنا چاہتی ہے۔ بی جے پی اس حوالے سے اس کی پسندیدہ جماعت ہے۔ ہونی بھی چاہیے ‘کیونکہ اسرائیل کی انتہا پسند جماعتوں کی طرح بی جے پی بھی مسلمانوں سے 
شدید نفرت کرتی ہے اور اس نفرت ہی کی بنیاد پر وہ عام ہندوؤں کے جذبات کو بھڑکاکر ووٹ بھی بٹورتی آئی ہے۔ مسلم دشمنی کے حوالے اسرائیل بھارت گٹھ جوڑ کو سمجھنا کچھ بھی دشوار نہیں۔ اسرائیلی قیادت نے بی جے پی کی زیر قیادت عام ہندوؤں کے جذبات کو بھارتی مسلمانوں کے خلاف مزید بھڑکانے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اعداد و شمارکا کیسا ہی اختلاف پایا جائے‘ بھارت میں آباد مسلمانوں کی تعداد اٹھارہ کروڑ سے کم نہیں۔ انڈونیشیا اور پاکستان کے بعد سب سے زیادہ مسلمان بھارت میں آباد ہیں۔ بھارت میں مسلمان کہنے کو تو اقلیت میں ہیں‘ مگر تعداد کے اعتبار سے وہ اِتنے ہیں کہ نظر انداز نہیں کیے جاسکتے۔ بھارت کے انتہا پسند اس حقیقت کو بھی بالائے طاق رکھ دیتے ہیں کہ بھارتی مسلمانوں میں اگر عمومی سطح پر وطن دشمنی پروان چڑھ گئی تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ اس حقیقت کو بھی ذہن نشین رکھنا ہوگا کہ انتہا پسند ہندوؤں کے گندے سلوک سے تنگ آکر سِکھ‘ مسیحی اور نچلی ذات کے ہندو (دَلِت) بھی احساس و جذبات کی سطح پر مسلمانوں کے بہت قریب ہیں!۔
رابرٹ فسک نے لکھا ہے کہ اسرائیل کا ایک ہدف یہ بھی ہے کہ بھارتی قیادت کی مدد سے بھارت کے مسلمانوں کو منتشر‘ بے قیادت اور غیر موثر رکھا جائے۔ پاکستان اب اس قابل ہے کہ بھارتی مسلمانوں کو تھوڑی بہت طاقت بخشے۔ اس کا طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ او آئی سی اور دیگر بڑے پلیٹ فارمز سے بھارتی مسلمانوں کے لیے آواز اٹھائی جائے۔ عالمی برادری کے ذریعے بھارت کے انتہا پسندوں پر دباؤ بڑھایا جائے‘ بھارتی کی تمام سیکیولر سیاسی جماعتوں سے رابطے بڑھائے جائیں‘ تاکہ بھارتی مسلمانوں میں تنہا رہ جانے کے احساس کو ختم کرنے اور حقیقی و ہمہ گیر قیادت پروان چڑھانے میں مدد ملے۔ بھارتی مسلمانوں کا منظم ہوکر ایک واضح قیادت کے تحت جینا بھی پاکستان کے لیے ''سٹریٹجک ڈیپتھ‘‘ سے کم نہ ہوگا! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved