آئین ہند کاحصہ سوئم اقلیتوں کے بنیادی حقوق سمیت تمام بھارتیوں کو شہری حقوق کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ اسی طرح ریاست کو فرد کی ذاتی آزادی میں مخل ہونے سے باز رکھنے کے ساتھ ساتھ‘ شہریوں کے حقوق کے تحفظ کی ذمہ داری بھی عائد کرتا ہے۔ بھارتی آئین میںسات بنیادی حقوق فراہم کیے گئے ہیں۔ جن میںمساوات ‘ آزادی‘ غصب کے خلاف‘ مذہب‘ ثقافت ‘ تعلیمی آزادی‘ جائیداد اور آئینی چارہ جوئی کے حقوق شامل ہیں‘ تاہم جائیداد کے حق کو 1978ء میں 44 ویں ترمیم کے ذریعہ آئین کے تیسرے حصہ سے ہٹا دیا گیا۔ بنیادی حقوق کا مقصد انفرادی آزادی اور اُن جمہوری اصولوں کا تحفظ ہے‘ جو معاشرے کے تمام افراد کی مساوات پر مبنی ہیں۔ دفعہ 13 کے تحت یہ حقوق مقننہ اور عاملہ کے اختیارات کو محدود کرتے ہیں۔ ان حقوق کی خلاف ورزی پر بھارت کی عدالت ِعظمیٰ اور ریاستی عدالتوں کو یہ اختیار حاصل ہے کہ ایسی کسی قانون سازی یا عاملہ کی کارروائی کو غیر آئینی قرار دے سکیں۔
بنیادی حقوق مطلق نہیں ہیں؛چنانچہ عوامی مفادات کے تحفظ کی خاطر ان پر مناسب پابندیاں بھی عائد کی جا سکتی ہیں۔ 1973ء میںیشوانند بھارتی بمقابلہ کیرالا حکومت کے معاملے میں‘ بھارتی عدالت ِعظمیٰ نے 1967ء کے اپنے سابقہ فیصلے کو منسوخ کرتے ہوئے فیصلہ کیا کہ بنیادی حقوق میں ترمیم کی جا سکتی ہیں؛ اگر اس طرح کی کسی ترمیم سے آئین کے بنیادی ڈھانچے کی خلاف ورزی ہوتی ہو تو عدالتی نظرثانی کے تحت پارلیمنٹ کے ہر ایوان میں دو تہائی اکثریت سے منظور آئینی ترمیم کے ذریعے‘ بنیادی حقوق میں اضافہ یا حذف کیا جا سکتا ہے ۔ ہنگامی صورت حال نافذ ہونے کی صورت میں دفعہ 20 اور 21 کو چھوڑ کردیگر بنیادی حقوق میں سے کسی کو بھی صدر جمہوریہ کے حکم سے عارضی طور پر معطل کیا جا سکتا ہے‘ نیز ایمرجنسی کے دوران صدر جمہوریہ کے حکم سے آئینی چارہ جوئی کے حقوق کو بھی معطل کیا جا سکتا ہے۔
بھارت میں مذہبی اقلیتوں کا ذکر کیا جائے‘ تو برصغیر کی تقسیم کے بعد ان کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔بھارت کی تقسیم ہی مذہبی بنیاد پر ہوئی تھی۔ بھارتی آئین اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی بات تو کرتا ہے‘ لیکن جو حقوق آئین اقلیتوں کو دیتا ہے‘ ریاست اُن حقوق کے تحفظ کے لئے یا تو بے بس نظر آتی ہے یا وہ خود ان حقوق کے تحفظ کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ بھارت کی موجودہ آبادی سوا ایک ارب کے قریب ہے ‘جن میں11.67 فیصد مسلمان‘ 2.32فیصدعیسائی‘ 1.79فیصد سکھــ‘0.77فیصد بُدھ مت اور 4 فیصد پارسی شامل ہیں۔ بھارتی آئین میں پانچ اقلیتوں کو قومی طور پر اقلیت تسلیم کیا گیا ہے۔ مسلمان‘ سکھ‘ بدھ مت اور پارسی سر فہرست ہیں۔ آئین ترتیب دینے والوں نے بھارت میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا مکمل احاطہ کیا ‘لیکن آئینی تحفظ کے باوجود بھارتی حکومت اقلیتوں کو درپیش مسائل کا حل نہیں نکال سکی‘ جس کی وجہ سے اقلیتوں کو آج بھی امتیازی اور عدالتی مسائل کا سامنا ہے۔
مسلمانوں کو بھارتی حکومت کی عدم تعاون کی وجہ سے بے شمار مسائل کا سامنا ہے۔ تعلیم ودیگر شعبوں میں معاشی طور پر حکومت کی طرف سے سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے‘ مسلمان معاشرے کا کمزور ترین نا خواندہ طبقہ بن کر رہ گئے ہیں۔ سِکھ کمیونٹی کاحال بھی کچھ ایسا ہی ہے‘ ان کے بھی سیاسی اور معاشی بہت سے تحفظات ہیں۔بھارتی حکومتوں کی سرپرستی میں ریاستی ایجنسیوں کی کارروائیوں سے اقلیتیں بہت پریشان ہیں۔ بھارتی آئین ‘غیر امتیازی سلوک اور عام شہری ہونے کے تصور کو اقلیتوں کے لئے کوئی خاص مقام نہیں دیتا ۔بھارتی آئین کے آرٹیکل 14 کے تحت ریاست کسی بھی شخص کو مساوی حقوق دینے سے انکار نہیں کرسکتی۔ اس آرٹیکل کے تحت اقلیتی اور اکثر یتی عوام کو ایک جیسے حقوق حاصل ہیں۔بدقسمتی سے حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اقلیتوں کو آئین کے تحت جو بنیادی حقوق حاصل ہیں ‘ان کا ایک فیصد بھی نہیں مل رہا‘ عیسائی کمیونٹی کا ذکر کیا جائے تو انہیں بھی بے شمار مسائل کا سامنا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 15کے تحت کسی شخص کے ساتھ مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک بالکل ممنوع ہے اور نہ ہی ذات‘ جنس‘ مقام اور پیدائش کی وجہ سے کسی کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جا سکتا ہے ۔ عیسائیوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے بھارتی قانون کو آئین کا حصہ بنایا گیا‘ لیکن اس پر عملدرآمدآج تک نہ ہو سکا۔ صدارتی حکم نامہ کے تحت سکھوں‘ بدھ متوں اور ہندوؤں کو آئینی فوائد دیے گئے‘ لیکن دلت عیسائیوں کو اس حق سے محروم رکھا گیا۔ آئین کی رو سے مساوی حقوق کی بات کی جائے تو دلت عیسائیوں کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا۔ شیڈولڈ کاسٹس کے بارے میں بھارت کے آئین کا آرٹیکل 14‘15 اور25 اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا ذکر کرتا ہے ‘جبکہ قانون اس کے متصادم ہے۔
ریاست روزگار فراہم کرنے کا واحد ادارہ ہوتی ہے ‘لیکن بھارتی اقلیتوں کے ساتھ یہاں بھی امتیاز ی سلوک روا رکھاگیا۔ ہندوازم‘ سکھ ازم اور بدھ متوں کو تو آئین کے تحت سرکاری عہدوں کے لئے اہل قرار دیاگیا ‘لیکن عیسائیوں کودور رکھا گیا ۔ایسا صرف مذہب کی بنیاد پرہوا‘۔شیڈولڈ کاسٹ کے نام پرپریتم سنگھ کو تو ملازمت کے سلسلہ میں آئینی تحفظ حاصل ہے ‘لیکن پریتم مسیح کونہیں۔ مسلمانوں کو آئینی طور پر حاصل حقوق بھی اس کے مترادف ہیں‘ مسلمان آج بھی بھارت میں کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ انہیں آئین کے تحت حاصل بنیادی حقوق سے بھی دور رکھا گیا ہے۔
بھارت میں اقلیتوں کے مذہبی مقدس مقامات مساجد‘ گرجا گھر اور گوردوارے محفوظ نہیں۔انتہا پسند ہند و تنظیموں کے کارندے آئے روز انہیں نشانہ بنائے رہتے ہیں۔ بابر ی مسجد اور گولڈن ٹیمپل کے واقعات سے کون واقف نہیں؟اب تو سکھ کمیونٹی بھی مکمل طور پر باغی نظر آتی ہے۔ خالصتان تحریک کے بانی اور ورلڈ مسلم سکھ فیڈریشن کے چیئرمین سردار منموہن سنگھ خالصہ نے اپنے بیان میں کہا ''دعا کریں کہ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی اگلی دفعہ بھی بھارت کے وزیراعظم بن جائیں۔ ان کی مزیدبیوقفانہ حرکتوںسے بھارت میں ہی نیا پاکستان اور خالصتان بن جائے گا‘‘۔ عالمی برادری نے بھارت کی پرتشدد کارروائیوں پر خاموشی اختیار کررکھی ہے۔کرنسی بحران بھی وہاں کا ایک بہت بڑا ڈرامہ ہے۔ سکھوں اور کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے مطالبے کو دہراتے ہوئے۔ منموہن سنگھ کا کہنا تھا کہ بھارت میں صرف یہی دو قومیں شناخت کے بحران سے دوچار نہیں ‘ بلکہ کئی مذہبی‘ علاقائی قومیت اور دلت اپنے بنیادی حقوق کے حصول کیلئے جدوجہد میں مصروف ہیں۔ سکھ اور کشمیری بھارت سے مکمل آزادی چاہتے ہیں۔سکھ پرامن انداز میں خالصتان ریفرنڈم 2020 ء کی تحریک چلارہے ہیں ‘لیکن بھارتی ایجنسیاں اپنے تربیت یافتہ دہشت گردوں کی مدد سے سکھوں کا عالمی تشخص خراب کررہی ہیں۔ خالصتان ہر سکھ کے دل میں بستا ہے۔بھارت میں سکھوں کو آرٹیکل 25۔B۔2 کے تحت ہندو دھرم کا حصہ بتایا گیا‘جو سکھوں کی منفرد شناخت کو رد کرنے کی سازش قرار دیا جاتا ہے۔ 1984ء میں بھارت میں آپریشن بلیو سٹارکے تحت سکھوں کے قتل عام کے بعدخالصتان کی تحریک کو کچل دیا گیا‘جس کے بعد بہت سے سکھوں نے دوسرے ملکوں میں اپنی زندگیوں کا آغاز کیا۔ ایک عشرے تک خاموشی اختیار کرنے کے بعد اپنی تنظیموں کو دوبارہ منظم کرنا شروع کردیا ہے۔ آج خالصتان کی تحریک کو امریکہ اور کینیڈا کے علاوہ دوسرے یورپی ممالک میں آزادی اور انسانی حقوق کے حوالے سے مقبولیت مل رہی ہے۔کئی سکھ تنظیموں کی کوششوں سے بھارتی سرکار کے خلاف امریکی عدالتوں میں مقدمات دائرہوچکے ہیں‘ جس سے سکھوں اور دوسری اقلیتوں کے ساتھ امتیازی رویوں اور انسانی حقوق کی حق تلفیاں کرنے پر بھارت کا تشخص بُری طرح مجروح ہوا ہے۔