تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     06-03-2019

آسمان ‘زمین اور سمندر

گوادر پورٹ کے ارد گرد پاکستانی بحریہ کی نقل و حرکت کو مانیٹر کرنے کے مشن پر سرگرم جرمنی کی تیار کردہ نیو کلیئر پاور زیر سمندر بھارتی آبدوز 14 نومبر2016 کو جیسے ہی پاکستانی سمندری حدود کی جانب بڑھی تو پاک بحریہ نے اس کے حکام کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ تم اس وقت پاکستانی سمندری حدود سے 40 ناٹیکل میل کے فاصلے پر اور ہمارے نشانے پر ہو اس لئے فوری طور پر یہاں سے واپس جائو‘ ورنہ کسی بھی لمحے تمہیں تباہ کیا جا سکتا ہے۔ امن پسندی کہہ لیں یا بہت ہی شرافت سمجھ لیں کہ پاک بحریہ نے کچھ کہے بغیر بھارت کی اس آبدوز کوواپسی کا رستہ دیتے ہوئے 65 ناٹیکل میل پیچھے کی جانب بھاگنے پر مجبور کر دیا تھا۔ بھارت کی جانب سے یہ اشتعال انگیزی پاکستان اور چینی بحریہ کی 19 سے21 نومبر تک کی جانے والی مشترکہ جنگی مشقوں سے چند دن پہلے کی گئی۔ ان مشقوں میں پاکستان کی جانب سے کموڈور مرزا فواد بیگ کی زیر کمان18th تباہ کن سکواڈرن اور چینی بحریہ کی جانب سے کیپٹن چی کنتائو کی زیر کمانڈ بحریہ نے حصہ لینا تھا۔ جنگی زبان میں کہہ لیں کہ اپنی عددی طاقت اور بے تحاشا اسلحے کے نشے میں بد مست بھارت نے اپنے بد معاش ہونے کا ثبوت فراہم کرنے کیلئے یہ اوچھی حرکت جان بوجھ کر کی تھی تاکہ چین کو واضح پیغام دیا جا سکے کہ وہ ایسی مشقوں سے باز آ جائے۔ تین چار مرتبہ بحیرہ عرب اور بحر ہند کے گہرے پانیوں تک پاکستانی بحریہ کے افسروں اور جوانوں کے ساتھ سفر کرتے ہوئے میرا یہ یقین پختہ ہو چکا تھا کہ بری اور فضائی افواج کے علا وہ مختصر ہی سہی لیکن جذبہ ایمانی اور خدا داد صلاحیتوں سے لبریز پاک بحریہ بھی اپنی کم تعداد اور کم اسلحہ کے با وجود بھارت کو منہ توڑ جواب دینے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے اور جب بھی دشمن کی جانب سے کسی جارحیت کا سامنا ہوا تو اسے اس کی عددی برتری کے باوجود منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ اس کا ثبوت پاکستانی بحریہ نے دو سال بعد ایک مرتبہ پھر چار مارچ کی رات کو اس وقت دیا جب بھارت کی آبدوز کا گہرے پانیوں میں سراغ لگا کر اسے لاک کرتے ہوئے بھاگنے پر مجبور کر دیا تھا۔اس سے بھی پہلے جیسا شروع میں کہا ہے کہ نومبر 2016 میں بھی بھارتی بحریہ نے اپنی عددی برتری کے نشے میں پاکستان کی سمندری حدود میں داخل ہونے کی کوشش کی جسے پاکستان کی چاک و چوبند بحریہ نے نا کام بنا دیا اور یہ ثابت کر دیا تھا کہ وہ پاکستانی پانیوں کے ایک ایک انچ کی حفاظت کرنا جانتی ہے اور اس سلسلے میں کوئی کوتاہی نہیں کی جائے گی۔
بھارت کے فنڈڈ اور تیار کردہ دہشت گردوں نے جب مہران بیس کراچی پر حملہ کیا تو ان کا مقصد ان اورین طیاروں کو تباہ کرنا تھا‘ جو پاکستان کے سمندروں کی آنکھ اور کان بن کر اس کی حفاظت کر رہے تھے۔ دشمن اپنی اس مذموم سازش میں کسی حد تک کامیاب بھی ہوا‘ لیکن مکمل طور پر نہیں۔ اسی قسم کا پاک بحریہ کا ایک طیارہ اپنے سمندروں اور اس کی فضائی حدود کی نگہبانی کر رہا تھا کہ اس نے دشمن کی ایک INS KALVARI آبدوز کا سراغ لگاتے ہوئے اپنے آپریشن کنٹرولر کو اس سے آگاہ کیا۔ اس وقت اگر پاک بحریہ اگر چاہتی تو اس آبدوز کو اس کے عملے سمیت ایک لمحے میں ہمیشہ کیلئے ختم کر سکتی تھی لیکن اس نے ایک بار پھر دنیا بھر کو امن پسندی کا ثبوت دیتے ہوئے اسے تباہ کرنے کے بٹن سے ہاتھ دور رکھا۔ شاید پاک بحریہ کے دل و دماغ سے تین ہفتے قبل ختم ہونے والی اپنی امن مشقوں کا مقصد اور پیغام محو نہیں ہو سکا تھا یا شاید اسے سیا سی قیا دت کی جانب سے صبر و تحمل کا دامن ہاتھ میں رکھنے کا پیغام مل چکا تھا۔
اگر کوئی مجھ سے پوچھے تو بھارت جیسے گھٹیا دشمن کیلئے اتنا رحم اور ہمدردی کسی طور مناسب نہیں۔ ایسی امن پسندی کو دنیا آج کل بزدلی کا نام دیتی ہے۔ یقین کیجئے کہ اگر پاکستان کی جگہ یہ موقع بھارت کو ملا ہوتا تو اس نے ایک لمحے میں ہمیں نقصان پہنچانے کی بھر پور کوشش کرنا تھی۔ پوائنٹ کی گئی یہ بھارتی آبدوز پاکستان کی سمندری حدود میں داخل ہو چکی تھی اور جنگ کے موقع پر کسی بھی قسم کی نرمی مناسب تصور نہیں کی جاتی۔
یہ سطریں لکھتے ہوئے میرے جذبات کھولنے کی وجہ 10 اگست 1999 کا وہ دن ہے‘ جب ہماری بحریہ کے 29th سکواڈرن کے پٹرول ایئر کرافٹ اٹلانٹک 91N کو بھارت کے جدید ترین مگ21FL نے رن کچھ کے قریب تباہ کیا تھا۔ یہ سب اس وقت ہوا جب کارگل جنگ کو ختم ہوئے ایک ماہ کا عرصہ گزر چکا تھا۔ اٹلانٹک جہاز میں عملہ سمیت سوار گیارہ سیلر اور پانچ افسروں کی شہادت کا غم اور دکھ آج بھی تازہ ہے۔ نیوی کا یہ جہاز کسی جنگی مشن پر نہیں بلکہ اپنی معمول کی پرواز پر تھا‘ جسے بھارت نے اپنی جارحیت اور مسلم دشمنی کا نشانہ بنایا۔ پاکستان بعد میں اس معاملے کو انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں لے کر گیا لیکن اس نے یہ کہتے ہوئے پاکستانی درخواست مسترد کر دی کہ یہ اس کے دائرہ اختیار میں نہیں‘ لیکن آج کلبھوشن جیسے دہشت گرد‘ جس نے پاکستان کی سکیورٹی فورسز کے خلاف سازشیں کیں اور کراچی اور بلوچستان میں پاکستان سے محبت کرنے کا عزم لئے شہریوں کو شہید کرایا، اس قدر بم دھماکے اور خود کش حملے کروائے کہ ہماری سر زمین سرخ ہو گئی‘ ہماری ریلوے واپڈا‘ تعلیمی اداروں اور دفاعی تنصیبات کو تباہ کرایا‘ اس کی سزائے موت کے خلاف بھارت کی درخواست کو سماعت کیلئے اس کورٹ نے فوراً منظور کر لیا ۔ 
اس لئے میرے خیال میں سنپولیے کو جہاں بھی ملے رحم کھانے کی بجائے کچل دینا چاہئے۔ اگر پاکستان کی جگہ بھارت کو ایسا کوئی موقع ملتا تو اس نے ایک لمحے کی بھی تاخیر کئے بغیر ہمیں نشانہ بنا دینا تھا لیکن ہم شاید مصلحت سے کام لیتے ہیں۔ 
سات سے گیارہ فروری تک دنیا کے پینتالیس ممالک، جن میں امریکہ، برطانیہ، فرانس، اٹلی، ترکی کی بحریہ بھی شامل تھی، جب''امن مشق19‘‘ میں شرکت کیلئے پاکستان پہنچیں تو مجھے ان کے حکام کے ساتھ تفصیل سے بات کرنے کا موقع ملا۔ جس چیز نے میرے اعتماد اور یقین کو مضبوط کیا‘ وہ ان کا یہ تسلیم کرنا تھا کہ پاکستانی بحریہ کے افسروں اور جوانوں میں جس قسم کی مستعدی‘ ڈسپلن اور اپنے پیشے میں مہارت کا مظاہرہ وہ دیکھ رہے ہیں اس سے انہیں اندازہ لگانے میں کوئی تامل نہیں کہ پاکستان کی بحریہ اپنے کم وسائل کے ساتھ بھی انڈیا جیسے جدید اسلحے سے لیس ملک سے کمزور نہیں۔ 
بھارت کے ساتھ کئی دہائیوں سے ہم حالت جنگ میں ہیں۔ بلوچستان‘ افغانستان اور فاٹا سمیت کے پی کے میں بھارت نے پاکستان کے خلاف غیر اعلانیہ جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ آج سے دو برس قبل جب بھارتی آبدوز گوادر کے قریب دیکھی گئی تو ممکن ہے کہ اسے محض ایک جاسوسی یا ریکی آبدوز سمجھا گیا ہو‘ اور کل بھی جس بھارتی آبدوز کی نشاندہی ہوئی اسے سرسری نہیں بلکہ دہشت گردی کے تناظر میں ایک دوسرے زاویئے سے بھی دیکھنا ہو گا ''ممکن ہے کہ کل اور آج بھی بھارت اپنی آبدوزوں کے ذریعے بلوچستان کے سمندری علا قوں میں دہشت گردوں میں گولہ بارود اور اسلحہ تقسیم کرتا ہو؟اس لئے کسی بھی دہشت گرد کو آرام سے بغیر تلاشی کے نکل دینے جانا شاید منا سب نہیں۔ جب ہم سب مانتے ہیں کہ ہمارا یہ رذیل دشمن بہت ہی مکار اور دھوکہ باز ہے‘ بہت ہی ظالم اور مسلمانوں کیلئے ایک قصاب کی مانند ہے تو ہاتھ آئے ایسے شکار کو یوں ہی جانے دینا سمجھ سے با لاتر ہے۔
تین چار مرتبہ بحیرہ عرب اور بحر ہند کے گہرے پانیوں تک پاکستانی بحریہ کے افسروں اور جوانوں کے ساتھ سفر کرتے ہوئے میرا یہ یقین پختہ ہو چکا تھا کہ بری اور فضائی افواج کے علا وہ مختصر ہی سہی لیکن جذبہ ایمانی اور خدا داد صلاحیتوں سے لبریز پاک بحریہ بھی اپنی کم تعداد اور کم اسلحہ کے با وجود بھارت کو منہ توڑ جواب دینے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved