تحریر : بیرسٹر حمید باشانی تاریخ اشاعت     07-03-2019

جنگ کے متبادلات کیا ہیں؟

''لڑے بغیر دشمن کو شکست دینا جنگ کا اعلیٰ ترین آرٹ ہے‘‘ یہ بات چینی دانشور سن زو نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ''آرٹ آف وار‘‘ میں پانچ صدیاں قبل مسیح میں لکھی تھی۔ اس قدیم دانشور کی بات آج بھی سو فیصد درست ہے۔
پاک بھارت تنائو سے امن کی طرف لوٹنے کے کئی راستے ہیں۔ ان میں پہلا اور واضح راستہ باہمی گفت و شنید ہے۔ مگر گفت و شنید کے بجائے کچھ لوگ اقوام متحدہ کی طرف رجوع پر زور دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں عام طور پر اقوام متحدہ کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں پنچایتی نظام دم توڑ رہا ہے‘ مگر تاریخ کے ایک طویل دور میں یہ ہمارے سماجی اور سیاسی کلچر کا غالب حصہ رہا ہے۔ ایک روایتی گائوں میں فرد یا افراد کے گروہوں کے باہمی تنازعات کا واحد حل پنچایت کی طرف رجوع کرنا رہا ہے۔ اور کئی جگہوں پر اب بھی ہے۔
دنیا ایک برادری کی طرح ہی ہے، جسے ہم عالمی برادری کہتے ہیں۔ اقوام متحدہ بھی عالمی برادری میں ایک طرح کی پنچایتی نظام کا ہی پرتو ہے‘ اور حیرت انگیز طور پر ہماری روایتی پنچایتوں اور یو این کے میکانزم اور طریقہ کار میں بڑی حد تک مماثلت ہے۔ 
یہ پنچایتی نظام کا ہی ہماری نفسیات پر اثر کا نتیجہ ہے کہ ہم اقوام متحدہ پر بہت زیادہ بھروسہ کرتے ہیں۔ ہمارے اس رویے کی ایک اہم ترین مثال مسئلہ کشمیر ہے، جس کے حل کے لیے ہم ستر سال سے اقوام متحدہ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔
مسئلہ کشمیر بھارت اقوام متحدہ میں لے کر گیا تھا۔ یہ پنڈت جواہر لال نہرو کا بھارتی وزیر اعظم کی حیثیت سے عالمی نوعیت کا پہلا بڑا فیصلہ تھا۔ نہرو نے یہ فیصلہ کیا تھا، جس میں اسے بظاہر لارڈ مائونٹ بیٹن کی حمایت بھی حاصل تھی۔ اپنی کچھ جمع تفریق کے بعد پنڈت نہرو نے یہ نتیجہ اخذ کر لیا تھا کہ وہ اقوام متحدہ میں یہ مقدمہ جیت سکتے ہیں۔ 
اقوام متحدہ میں طویل بحث مباحثے اور قراردادوں کا لب لباب یہ تھا کہ کشمیر میں حالات معمول پر آنے کے بعد کشمیری عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار دیا جائے‘ اور کشمیری عوام یہ اختیار آزادانہ رائے شماری کے ذریعے استعمال کریں۔ اگرچہ یہ مسئلہ بھارت اقوام متحدہ میں لے کر گیا تھا، مگر تب سے یہ بھارت نہیں، بلکہ پاکستان ہے، جو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں اس مسئلے کے حل پر زور دے رہا ہے اور کشمیر کے حوالے سے شاید ہی کوئی ایسا فورم ہو گا، جس پر پاکستان کی طرف سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں مسئلہ کشمیر کا حل نکالنے کا مؤقف نہ دہرایا جاتا ہو۔ کشمیریوں کی ایک بڑی تعداد کی طرف سے بھی اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ہی مسٔلہ کشمیر کا حل سمجھا جاتا ہے۔ 
اس طرح اقوام متحدہ اور اس کی قراردادوں کو مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ایک مقدس دستاویز سمجھا جاتا ہے۔ اس تقدس کی وجہ سے عموماً لوگوں کو تصویر کا دوسرا رخ نظر نہیں آتا۔ حالانکہ یہ رخ دیکھنا ضروری ہے تاکہ ہم اس مسئلے کے حل کا کوئی نیا اور جدید زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ راستہ تلاش کر سکیں۔ 
اقوم متحدہ ایک بڑی تنظیم ہے۔ اس کے کئی ادارے ہیں۔ سکیورٹی کونسل، جنرل کونسل اور ہیومن رائٹس کونسل ہے۔ پھر کئی کمیشن ہیں ۔ یہ کمیشن وقتاً فوقتاً مختلف ممالک کے درمیان تنازعات پر تشکیل دئیے جاتے ہیں۔ مسئلہ کشمیر پر ہم جن قراردادوں کا اکثر ذکر سنتے ہیں، وہ زیادہ تر اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انڈیا پاکستان کی قراردادیں ہیں۔ یہ قراردادیں باب سات کے ذیل میں نہیں آتیں، اس لیے ان قراردادوں کی حیثیت سفارشی ہے، لازم نہیں۔ ان قراردادوں پر عمل درآمد کے لیے دونوں ممالک کی رضا مندی ضروری ہے۔ ان قراردادوں پر بہت زیادہ تکیہ کرنے سے پہلے کچھ حقائق کو دوبارہ دیکھ لینا دانش مندی ہو گی۔ 
صوابدیدی نوعیت کی قراردادوں پر زیادہ امید لگانے سے پہلے میرے خیال میں یہ سود مند ہو گا کہ یہ دیکھ لیا جائے کہ اقوام متحدہ کی ان سینکڑوں قراردادوں کا کیا ہوا، جن پر متعلقہ ممالک کے لیے عمل کرنا لازم ٹھہرتا ہے، یعنی جن قراردادوں کی حیثیت سفارشی نہیں بلکہ حکمی اور لازمی ہے، کیونکہ یہ قراردادیں اقوام متحدہ کے چارٹر کے باب سات کے تحت پاس کی گئی ہیں۔ ان قراردادوں کی خلاف ورزی پر اقوام متحدہ کو چارٹر کے آرٹیکل چالیس اور اکتالیس کے تحت ممبر ممالک کی جانب سے خلاف ورزی کرنے والے ملک پر فوج کشی یا مکمل معاشی پابندیاں عائد کرنے کا اختیار حاصل ہے۔
کئی سال پہلے یونیورسٹی آف سان فرانسسکو کے ایک پروفیسر سٹیفن زونیس نے اس موضوع پر ایک گرائونڈ بریکنگ تحقیق پیش کی تھی۔ اس تحقیق کے مطابق اس وقت تک اقوام متحدہ کی سو سے زائد ایسی لازمی یا حکمی قراردادیں ہیں، جن پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ دنیا بھر میں جن قراردادوں کی صریحاً خلاف ورزی کی گئی ان کی تعداد بھی سینکڑوں میں ہے۔ یہ سکیورٹی کونسل کی حکمی قراردادیں ہیں‘ جن پر عمل درآمد فریقین یا کسی ایک ملک کی صوابدید نہیں بلکہ ان پر لازم ہے‘ جس کی خلاف ورزی کی صورت میں ایک متبادل میکانزم موجود ہے۔ اس میکانزم میں کسی ملک پر پابندیاں لگانے سے لے کر فوج کشی تک شامل ہے۔ مگر ستم ظریفی کی بات یہ ہے امریکہ سمیت کئی جمہوری اور با اثر ممالک نے ان قراردادوں کی خلاف ورزی کے باوجود کچھ ممالک کو اس کی سزا یا اس پر عملدرآمد سے بچ کر نکلنے کا راستہ فراہم کیا۔ اور کچھ صورتوں میں ان قراردادوں پر عمل درآمد خود امریکہ یا اس کے اتحادیوں کی مدد سے روکا گیا۔ اسرائیل پر سال انیس سو سڑسٹھ سے لے کر اب تک تیس سے زائد اہم قراردادوں کی خلاف ورزی کا الزام ہے۔ جبکہ امریکہ نے ان قراردادوں کے نفاذ کے خلاف اسرائیل کے حق میں چالیس بار سے زائد ویٹو کا استعمال کیا ہے۔ اسرائیل کے خلاف قراردادیں اور ویٹو رکھنے والی قوتوں کے رویے ایک کیس سٹڈی ہے۔ یہ کیس سٹڈی اقوام متحدہ پر غیر ضروری تکیہ کرنے والوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ سال انیس سو چوہتر میں ایک قرارداد کے ذریعے ترکی کو سائپرس سے اپنی فوجیں نکالنے کا حکم دیا گیا تھا‘ مگر ترکی ایک نیٹو اتحادی کے طور پر ان قراردادوں پر عمل کرنے سے مسلسل انکاری رہا۔ ترکی کو تیس بار سے زائد ان قراردادوں کی خلاف ورزی کا ذمہ دار ٹھہرایا جا چکا ہے۔ 
مراکش کو ایک لازمی قرارداد کے ذریعے سال انیس سو پچھتر میں مغربی صحرا سے فوجیں نکالنے کا حکم دے دیا گیا تھا۔ تب سے اس پر اٹھارہ بار ان قراردادوں کی خلاف ورزی کے الزامات ہیں۔ یہ چند نمایاں مثالیں ہیں۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں نہ ماننے، ان کو التوا میں ڈالنے یا ان کی خلاف ورزی پر صاف بچ نکلنے کے سینکڑوں دوسرے واقعات بھی موجود ہیں۔ 
تاریخی اعتبار سے امریکہ کی یہ پالیسی رہی ہے کہ اقوام متحدہ ایک حد سے زیادہ موثر نہ ہو۔ سرد جنگ کے دوران سوویت یونین اقوام متحدہ کے فورم پر ایک اہم عالمی کھلاڑی تھا۔ سوویت لیڈر اقوام متحدہ میں بہت ہی سخت اور دلیرانہ کردار ادا کرتے تھے۔ خصوصاً نوآبادیاتی نظام کے خلاف ان کی قراردادیں اور کردار تاریخی تھا۔ یہ وہ دور تھا جب سوویت لیڈر خروشیف نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں اپنا جوتا اتار کر ڈیسک پر رکھ دیا تھا؛ چنانچہ امریکہ اقوام متحدہ کے آزادانہ کردار سے خائف رہا۔ ڈینیال پیٹرک سال انیس سو ستر میں اقوام متحدہ میں امریکی سفیر رہا۔ اس نے اپنی یادداشتوں میں کھول کر لکھا ہے کہ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی خواہش تھی کہ اقوام متحدہ ہر معاملے میں غیر مؤثر رہے۔ ان کے کہنے پر میں نے یہ فریضہ بڑی کامیابی سے سر انجام دیا۔ امریکہ کی یہ پالیسی آج بھی برقرار ہے۔ اس پالیسی میں لچک اس وقت نظر آتی ہے، جب کسی عالمی معاملے میں امریکہ کو اقوام متحدہ کے کسی خاص کردار کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان حالات میں اگر کوئی ملک کسی معاملے میں اقوام متحدہ سے کوئی قرارداد منظور کروا بھی لے تو اس پر عمل درآمد کے لیے بڑی طاقتوں کی حمایت ضروری ہے؛ چنانچہ اس سوچ کو تقویت مل رہی ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے پیچھے بھاگنے کے بجائے تیسری دنیا کے ممالک کے لیے یہی بہتر ہے کہ وہ تنازعات کے حل کے متبادل ذرائع اختیار کریں۔ ان میں باہمی گفت و شنید پہلا ذریعہ ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved