عامرؔ سہیل کا تعلق‘ میری جائے پیدائش بہاول نگر سے ہے‘ جہاں وہ ایک کالج میں تدریسی فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔وہ اپنے مخصوص لب لہجے کی بناء پر‘ جو اُن کی شناخت بن چکا ہے‘ جانے جاتے ہیں۔ان کی تازہ شاعری پیش ِخدمت ہے:
پریوں کی جگہ رات کی رانی میں تہجد
سی سکتے تھے کل عُمر پرانی میں تہجد
انکار میں وہ حُسن کہ دیوان نچھاور
انگ انگ میں اور جان فشانی میں تہجد
اک اُڑتا ہوا جائے نماز اور نوافل
اک ساحرہ اور زائچہ دانی میں تہجد
تم دُور بہت دُور اذانوں کی گلی میں
تُم پاس بہت پاس، نشانی میں تہجد
بالوں سے بچھے فرش پہ دجلہ ہے نہ بدلہ
ہم دشت میں اور مرثیہ خوانی میں تہجد
باتوں سے تہ سنگ محبت کا جزیرہ
غصّے سے لہو رنگ کہانی میں تہجد
یُوں جیسے غزل دُھل کے سماوات سے اُترے
لفظوں میں عشا اور معانی میں تہجد
رُخسار پتا کر کے کسی روز بتائیں
آتش ہے کہ جاڑے کی جوانی میں تہجد
مُلّا کو پتا ہے نہ کسی نظم کو عامرؔ
کچھ اور ہے آشفتہ بیانی میں تہجد
............
کب تک ہو وفادار، یہ وعدہ نہیں لینا
اک سانس مجھے تُم سے زیادہ نہیں لینا
یہ جسم مکمل ہو تری عشرہ گری سے
اوروں کی طرح میں نے یہ آدھا نہیں لینا
یلغار سے بڑھ کر ہے یہ زلفوں کی حراست
اس بات کو اب اتنا بھی سادہ نہیں لینا
میں چُور ہُوں پہلے ہی محبت کے نشے میں
سینے پہ جُدائی کا بُرادہ نہیں لینا
آنکھوں میں تمہیں رکھنا ہے سانسوں میں مری جان
زخموں کو بیابان کُشادہ نہیں لینا
اب قیس کے پیروں میں بھی تنہائی نہیں ہے
لیلیٰ نے بھی غُصے کا لبادہ نہیں لینا
غُم اُس کا غلط کرنے کو مجھ عشق نے عامرؔ
غالبؔ کی طرح ساغر و بادہ نہیں لینا
............
عجیب فیصلہ سازی ہوئی محبت میں
وہ آنکھ آنکھ نمازی ہوئی محبت میں
ہوا کے کیمرے کُھلنے لگے غروب کے بعد
یہ شام اور پیازی ہوئی محبت میں
خُدا کا شُکر ہے میں اُس گلی کو بھول گیا
وہ سانس لینے پہ راضی ہوئی محبت میں
کوئی گلاب جسے بازیاب کر نہ سکے
کوئی کلی تھی جو ماضی ہوئی محبت میں
بڑے حساب سے اُس نے ہمیں رکھا مصروف
یہ زندگی بھی ریاضی ہوئی محبت میں
جسے جہانوں سے، خود سے بچا کے رکھنا تھا
اُسی سے دست درازی ہوئی محبت میں
تمہارے نام لکھی اور شام شام لکھی
الاٹ جو بھی اراضی ہوئی محبت میں
خُدا نے روک لیا، اشتہا نے روک لیا
یہ چوٹ باسی نہ تازی ہوئی محبت میں
وہ خرقہ پوش غلط، جس کو اپنا ہوش نہ تھا
ہمیں سے تھی جو ایازی ہوئی محبت میں
وہ خود کو ہار گئی بے کہے سُنے کچھ بھی
کنیز تاش کی بازی ہوئی محبت میں
اک محافظ
جس کا عشق دلوں پہ نافذ
اک محافظ
سینے پر میقات
دو آنکھیں ہیں پاس ہمارے
دونوں تیری نعت
گُونج رہی ہو
میرے اندر گونج رہی ہو
پچھلے جنم میں
شاید کوئی کُونج رہی ہو
دن چڑھتا ہے
جب جوبن میں رس پڑتا ہے
دن چڑھتا ہے
کسی کے کاغذی پیکر پر عامرؔ
خدا کے بعد میرے دستخط ہیں
ہانپ رہی ہو
دل اندر دل کانپ رہی ہو
ہانپ رہی ہو!
آج کا مطلع
یہ ترے راستوں سے گزرنا تو ہے
شعر کہنا تجھے یاد کرنا تو ہے