تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     07-03-2019

ہردم تیار…!

14فروری کو پلوامہ واقعہ کے بعد بھارت کے غیرذمہ دارانہ روئیے کی پرتیں سرک چکیں۔وقت گزرنے کے ساتھ پوری طرح سے واضح ہوچکا کہ کس مقصد کے لیے یہ ڈرامہ رچایا گیا اور کیوں کر کشیدگی انتہائی تیز رفتاری سے عروج پر پہنچ گئی یا پہنچا دی گئی۔اب واپسی تو ہورہی ہے‘ لیکن اس تمام صورت حال کا ایک بہت بڑا فائدہ ضرور ہوا ہے۔ بھارت تک ایک مرتبہ پھر یہ پیغا م پوری قوت سے پہنچا ہے کہ پاکستان کی سلامتی کے ذمہ دارادارے ہمہ وقت بیدار ہیں۔ حالات و واقعات کے آغاز میں ہی جان لیا گیا تھا کہ بھارت کسی خاص منصوبے پر عمل پیرا ہے۔کہیں نہ کہیں سے تو ڈوریاں ہلائی جارہی ہیں ‘جنہیں ہلانے والے کسی خاص ایجنڈے کو تیز رفتاری سے پورا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔اب واقعات کی کڑیاں مل چکی ہیں تو گویا ہنڈیا بیچ چوراہے پھوٹ چکی ۔اب؛ اگر حالات کا ترتیب سے جائزہ لیا جائے‘ تو انتخابات میں اپنے عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لیے مودی حکومت کے بنائے منصوبے کی پہلی خامی تبھی سامنے آگئی تھی‘ جب پلوامہ حملے کے کچھ ہی دیر بعد الزام پاکستان پر دھر دیا گیا تھا۔شاید بہت کم احباب کو علم ہو کہ پاکستان کے ذمہ دار اداروں نے حملے کے چند ہی گھنٹوںکے اندر اپنی تحقیقات مکمل کرلی تھیں کہ کہیں اس حملے میں غیرریاستی عناصر تو ملوث نہیں ہیں ۔ جواب نفی میں تھا۔یہی وجہ رہی کہ جب بھارتی الزام سامنے آیا تو پاکستان کی طرف سے پورے وزن کے ساتھ اس الزام کو مسترد کردیا گیا۔ ا س کے ساتھ ہی بھارت کو تعاون کی بھی پیش کی گئی ‘ جسے رد کردیا گیا۔اس کے بعد بھارتی میڈیا نے اپنے ملک کے اندر جنگ کی فضا پیدا کرنے کا بیڑہ اُٹھایا‘ جس میں وہ کامیاب بھی رہا۔اس کامیابی کے پیچھے اہم ترین کردار اُس رقم کا رہا‘ جو حکومت کی طرف سے میڈیاہاوسز کو دی گئی تھی۔خود بھارتی میڈیا کے ہی مطابق اس کے لیے مختلف میڈیا ہاوسز کو 20سے 50کروڑ روپے ادا کیے گئے تھے۔عوام کے جذبات بھڑکے تواسی کی آڑ لے کر بھارت نے بالا کوٹ پر حملے کاڈرامہ رچایا‘جس کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی اپنے عروج پر پہنچ گئی۔یہاں تک تو بھارتی منصوبہ ساز کافی حد تک کامیاب دکھائی دئیے‘ لیکن اس کے بعدچیزیں اُن کے ہاتھوں سے نکلنا شروع ہوگئیں۔اس کی ایک اہم ترین وجہ پاکستان کی بہترین حکمت عملی رہی ‘جس کے تحت ہرمرحلے پر صبروتحمل کا مظاہرہ کیا گیا۔بجا طور پر بھارتی حملے کا مناسب اور مؤثر جواب بھی دیا گیا‘ لیکن حالات کو کنٹرول میں رکھنے کی قابل تعریف اور کامیابی سعی بھی کی گئی۔پاک فضائیہ کی جوابی کارروائی پر صورت حال یکسر تبدیل ہونا شروع ہوگئی۔ بھارت میں بجنے والے شادیانوں کی آوازیں بھی دم توڑنے لگیں ‘لیکن ابھی بھارت میں حکومتی سطح پر کچھ اور کھچڑی بھی پک رہی تھی۔بھارتی فضائیہ کے دوطیارے گرنے سے ہو نے والی سبکی کا جواب دینے کے لیے پاکستان پر میزائل حملوں کی منصوبہ بندی کی گئی ۔ قومی سلامتی کے ذمہ دار ادارں نے اس سازش کا پتہ لگانے میں بھی کامیابی حاصل کرلی ۔ دوست ممالک کے ساتھ معلومات شیئر کی گئیں۔ بھارت تک پیغام پہنچا کہ پاکستان کو حملے کے بارے میں نا صرف تمام معلومات مل چکی ہیں‘ بلکہ حملے کی صورت میں بھرپور جواب بھی ملے گا۔یوں یہ بیل بھی منڈھے نہ چڑھ سکی۔بالکل ویسے ہی جیسے اسی کی دہائی میں کہوٹہ ایٹمی پلانٹ پر حملے کی سازش ناکام بنا ئی گئی تھی۔
کبھی موقع ملے تو Deception Pakistan, the US and the Global Weapons Conspiracy کا مطالعہ کیجئے گا۔ بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ جس طرح قومی سلا متی کے ذمہ دارادارے آج ہمہ وقت بیدار ہیں‘ تب بھی وہ اپنی ذمہ داریوں سے غافل نہیں تھے۔ اس واقعہ کا مختصرا ذکر یہاں برمحل ہوگا۔یہ 80کی دہائی کے وسط کی ایک رات تھی جب بھارت نے اسرائیل کے ساتھ مل کر انڈین گجرات کے جام نگر ہوائی اڈے سے پاکستان کے کہوٹہ ایٹمی پلانٹ پر حملے کا منصوبہ بنایا تھا۔مصنفین کے مطابق‘ بعد میں سامنے آنے والی تفصیلات سے معلوم ہوا کہ حملے کا وقت صبح چار بجے مقرر کیا گیا تھا۔ صرف چار گھنٹے پہلے پاکستانی اداروںکو اس منصوبے کی سن گن مل گئی۔اگلے آدھے گھنٹے میں مزید تفصیلات موصول ہوگئیں۔جنرل ضیاالحق کی قیادت میں تمام تر حالات کا انتہائی تیز رفتاری سے جائزہ لیا گیا ۔ دوست ممالک کے ذریعے بھارت اور امریکہ تک پیغام پہنچایا گیا کہ اگر ایٹمی تنصیبات پر حملہ ہوا تو نا صرف بھارت ‘بلکہ اسرائیل کو بھی اس کی قیمت چکانا ہوگی۔اس کے ساتھ ہی بھرپورجوابی حملے کے پلان کو بھی حتمی شکل دے دی گئی۔پاکستان ائیرفورس کے تین دستے تیار کیے گئے ۔ پہلے کو حملہ آور جہازوں کو گرانے کا ٹاسک دیا گیا۔ دوسرے کو بھارت کے بھابھانیوکلیئر پلانٹ کو تباہ کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی اور تیسرے کو اسرائیل کا ڈیمونا نیوکلیئر پلانٹ تباہ کرنے کا ٹاسک ملا۔ بعد میں بااثر ممالک کی ہنگامی مداخلت اور پاکستان کی انتہائی جارحانہ حکمت عملی کے باعث اسرائیل اور بھارت نے پسپائی اختیار کرلی۔بہت بعد میں اُس وقت ایک انتہائی ذمہ دار عہدے پر فائز شخصیت سے ملاقات کا موقع ملا تو اُن کی زبانی بھی اُس رات کا کچھ احوال سننے کو ملا۔ اُن کا کہنا تھا کہ اُنہوں نے اپنی زندگی میں اس سے زیادہ ٹینشن والا وقت اور کوئی نہیں دیکھا۔ہرکسی کے اعصاب تڑخ رہے تھے۔ ذہن میں کلبلانے والی سوچیں کوبرا ناگ کی طرح ڈس رہی تھیں کہ اگر دشمن کامیاب ہوگیا تو کیا ہوگا۔پورے ملک کی سلامتی داؤپر لگی ہوئی تھی۔بھارت‘ اسرائیل ممکنہ حملے کی تفصیلات موصول ہوچکی تھیں‘لیکن عزم پختہ تھا کہ حملے کا جواب فوری اور بھرپورہوگا۔اُنہوں نے ایک اور انکشاف بھی کیا کہ اسرائیل پر جوابی حملے میں رکاوٹ یہ تھی کہ ری فیولنگ کی سہولت میسر نہ ہونے کے باعث وہاں جانے والے طیاروں کی کسی بھی صورت واپسی ممکن نہیں تھی ۔ یہ جانتے ہوئے بھی چار کی جگہ دس پائلٹ ‘ رضاکارانہ طور پر مشن پر جانے کے لیے تیار ہوگئے۔ اندازہ لگائیے کہ اگر یہ حملہ ہوجاتا تو اس کے نتائج کس قدر خوفناک اور بھیانک ہوسکتے تھے‘ لیکن قومی سلامتی کے ذمہ دار اداروں کی ہمہ وقت بیداری نے سب کو اس تباہی سے بچا لیا۔
بھارت نے تب سوچا نہ اب کہ اگربھارتی منصوبے کامیاب ہوجاتے تو خطہ کتنی بڑی تباہی سے دوچارہوسکتا تھا۔80کی دہائی میں بھی پاکستان نے بھرپور جوابی کارروائی کی منصوبہ بندی تو کی‘ لیکن کسی بھی طور پہل سے اجتناب کیا۔حالیہ صورت حال میں بھی پاکستان کا طرز عمل انتہائی ذمہ دارانہ رہا۔پاکستان کی طرف سے قابل تحسین طور پر نا صرف فوجی‘ بلکہ سفارتی محاذ پر بھی بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا گیا۔انتہائی ذمہ دارانہ طرز عمل کے پس پردہ نمایاں طور پر یہ سوچ کارفرما رہی کہ آخری حد تک جنگ سے بچا جائے ۔اس احساس کا بھرپور مظاہرہ کیا گیا کہ جنگ میں کسی فریق نہیں ‘بلکہ صرف تباہی اور بربادی کی جیت ہوتی ہے۔یہ سب اسی نیک نیتی کا نتیجہ قرار دیا جاسکتا ہے کہ آج نا صرف پاکستان اس بحران سے سرخروہوچکا ‘بلکہ بھارت مکمل طور پر بیک فٹ پر دکھائی دے رہا ہے۔خود بھارت کے اندر سے انتخابات جیتنے کے لیے رچی گئی مودی سازش کے خلاف اتنی توانا آوازیں اُٹھ رہی ہیں ‘جو ماضی میں کبھی نہیں سنی گئیں۔عام بھارتی شہریوں سے لے کر اداکار ‘ سیاستدان‘ قانون دان اور سابق اعلیٰ فوجی افسران اپنی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ جواب نہ بھارتی حکومت سے بن پا رہا ہے‘ نہ اُس کی فوجی قیادت سے۔بات صرف یہیں تک محدود نہیں ‘بلکہ بھارتیوںکی بڑی تعداد ہمارے وزیراعظم عمران خان کی تعریف میں رطلب اللسان ہے۔دنیا بھر میں پاکستان کے طرز عمل کو سراہا جارہا ہے۔ بلاشبہ یہ پاکستان کا انتہائی ذمہ دارانہ طرز عمل تھا کہ جس نے ایک مرتبہ پھر خطے میںجنگ کے شعلوںکو بھڑکنے سے بچا لیاجس کے بعد مودی حکومت کے لیے گویا اُلٹی ہوگئیں سب تدبیریں جیسی صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔ اس سے بھی بڑی بات یہ رہی کہ بھارت تک ایک مرتبہ پھر یہ پیغام پوری قوت سے پہنچا کہ پاکستانی افواج اور قوم اپنے ملک کی حفاظت کرنے کے لیے ہر وقت کمربستہ ہیں۔ملکی سلامتی کے ذمہ دار ادارے 80کی دہائی میں سور رہے تھے‘ نہ اُس وقت جب بھارتی تاریخ کی سب سے بڑی براس ٹیک مشقوں کی آڑ میں بھارتی فوج پاکستانی سرحدوں کے قریب آگئی تھی۔قوم اُس وقت بھی جاگ رہی تھی‘ جب 2001ء میں بھارتی فوج نے پاکستان کی سرحدوں پر اپنی تاریخ کا سب سے بڑا ملٹری بلڈ اپ کیا تھا۔11ماہ تک بھارتی فوج سرحدوں پر بیٹھی رہی‘ لیکن سرحد پار کنے کی جرأت نہیں کرسکی۔
آج 2019ء میں بھی پوری قوم اور مسلح افواج ملک کی حفاظت کے لیے سیسہ پلائی دیوار کی مانند ہردم تیار ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔بھارت کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved