انتخابات جب جب وارد آئے ہیں، قوم کو ایسا لگا ہے جیسے اُس نے اوکھلی میں سَر دیا ہے! پہلے عام انتخابات (1970ء) وہ تھے جو ملک ہی کو لے ڈوبے۔ اُس کے بعد جب قوم نے 1977ء میں پولنگ کی سعادت حاصل کی تو جمہوریت ہی کی بساط لپیٹ دی گئی۔ 1985ء میں انتخابات کو غیر جماعتی بنانے کے نام پر جمہوری عمل کو بانجھ بنانے کی کوشش کی گئی۔ اِس کے بعد بھی جمہوریت کے نام پر تماشوں کا سلسلہ جاری رہا۔ پولنگ تو وقفے وقفے سے ہوتی رہی مگر منتخب حکومت کو چلنے نہیں دیا گیا۔ بہانے تراش کر جمہوریت کی بساط لپیٹنے کی پوری کوشش کی گئی۔ قوم کو باور کرانے کی کوشش کی جاتی رہی کہ سیاست دان ہی تمام خرابیوں کی جڑ ہیں۔ اور یاروں نے بھی خود کو قابل مذمت بنانے میں کم ہی کسر چھوڑی! تقریباً چودہ سال قبل ایک بار پھر جمہوریت کا بوریا بستر گول کردیا گیا۔ خدا جانے قوم حقیقی استحکام اور خوش حالی کی منزل تک کیسے پہنچے گی؟ اب ایک بار پھر قوم انتخابات کی دہلیز تک پہنچی ہے تو عالم یہ ہے کہ ہر دِل میں خدشات اور وسوسے ہیں۔ انتخابی عمل کے بنیادی افعال مکمل ہوچکے ہیں۔ کاغذاتِ نامزدگی منظور ہونے کے مرحلے نے جو گل کِھلائے ہیں اُن کی ’’مہک‘‘ سے سیاست کے مشام ہائے جاں اب تک ’’مُعطّر‘‘ ہیں! کئی بُت گِرے ہیں یا گِرائے گئے ہیں۔ قوم اب تک سمجھ نہیں پا رہی کہ پہلے کِسی کو نا اہل قرار دینا اور سزا سُنانا کِس حساب میں تھا کہ بعد میں کلین چٹ دے دی گئی! کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے زیادہ سے زیادہ انتشار پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، اہل سیاست کے لیے بدحواسی کا اہتمام کیا جارہا ہے۔ یعنی ایسا ماحول پیدا کرنا مقصود ہے جس میں کوئی درست فیصلے کرنے کی پوزیشن میں نہ رہے، سب کچھ اُلجھ کر یا اُلٹ پلٹ کر رہ جائے۔ سیاسی جماعتیں اب تک ذہن نہیں بناسکیں کہ انتخابی مہم کِس طور چلانی ہے۔ پولنگ میں بیس دن رہ گئے ہیں مگر انتخابی مہم کی گاڑی اسٹارٹ نہیں ہوئی ہے۔ اب تک آئل اور پانی ہی چیک کیا جارہا ہے۔ انتخابی سڑک پر جلسوں کی ٹریفک برائے نام ہے۔ رونق دکھائی نہیں دے رہی! پرویز مشرف کے خلاف مقدمات کے آغاز اور اُنہیں حراست میں لیے جانے سے تھوڑی بہت ہلچل مچی ہے۔ یہ بات فہم سے بالا ہے کہ وہ کِس بنیاد پر واپس آئے۔ مقدمات تو موجود تھے اور اُنہیں اندازہ بھی ہوگا کہ واپسی پر عدالت کا سامنا ہوسکتا ہے۔ اور ہو رہا ہے۔ تو کیا وہ ضمانت یافتہ ہیں؟ کسی دوست ملک نے اُنہیں کوئی ضمانت فراہم کی ہے؟ اگر ہاں تو کیوں؟ ایک مدت سے ملک میں بحث ہو رہی ہے کہ پرویز مشرف پاکستانی سیاست میں کوئی کردار ادا کرسکتے ہیں یا نہیں۔ قومی تاریخ شاہد ہے کہ کِسی آمر اور طالع آزما نے کبھی سیاسی میدان میں کامیابی حاصل نہیں کی۔ اور اس کا سبب یہ تھا جس کسی نے جمہوریت کی بساط لپیٹی اُس میں کبھی اِتنی ہمت ہی پیدا نہیں ہوئی کہ سیاسی جماعت بناکر عوام کے سامنے آسکے۔ پرویز مشرف نے کمانڈو ہونے کا بھرپور ثبوت دیا ہے۔ جمہوریت کا چراغ گل کرکے اقتدار کے مزے لوٹنے کے بعد سیاسی جماعت بناکر جمہوریت کا چیمپئن بننے کے لیے کمانڈو ہی کا جگرا چاہیے! انتخابات قریب آ رہے ہیں تو قتل و غارت بھی بڑھتی جارہی ہے۔ امیدواروں کے جلسوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کا دائرہ وُسعت اختیار کر رہا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے تحفظات ہیں کہ اُن کی انتخابی مہم سبوتاژ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ تحفظات کچھ ایسے بے بنیاد بھی نہیں۔ کراچی میں معاملات کو خراب کرنے کی کوشش صاف دِکھائی دے رہی ہے۔ اغوا کے بعد قتل کی وارداتیں بڑھتی جارہی ہیں۔ خیبر پختونخوا میں بھی معاملات حوصلہ افزا دکھائی نہیں دیتے۔ ایسے میں ہر ذہن میں خدشات اور وسوسوں کی فصل کا اُگنا فطری کا امر ہے۔ قوم یہ سوچ کر ہلکان ہوئی جارہی ہے کہ پولنگ میں تو ابھی بیس دن پڑے ہیں۔ گزشتہ پندرہ بیس دنوں کا ریکارڈ بتا رہا ہے کہ کِسی جامع منصوبے کے تحت حالات بگاڑے جارہے ہیں۔ ہر دن خرابی میں اضافہ کر رہا ہے۔ انتخابات تک قوم کو کِن کِن مراحل سے گزرنا ہوگا؟ لوگ یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں کہ جمہوری عمل اِس قدر جاں گُسل کیوں ثابت ہوتا ہے۔ جب حکمران منتخب کرنے کا مرحلہ آتا ہے تو قوم کو سخت نامساعد حالات کی سُرنگ سے کیوں گزرنا پڑتا ہے؟ ایسا کیوں ہے کہ حالات اچانک خرابی اور عدم توازن کی طرف چلے جاتے ہیں؟ کیا یہ سب ناگزیر ہے؟ پاکستان ایک بار پھر فیصلہ کن دو راہے پر آگیا ہے۔ ایک بار پھر انتخابات کے نام پر ’’مارو یا مر جاؤ‘‘ والی کیفیت پیدا ہو رہی ہے۔ ذرا سا غور کرنے پر یہ بات تو سمجھ میں آسکتی ہے کہ جن کے ہاتھ میں سب کی ڈور ہے وہ چاہتے ہیں کہ ایک بار پھر ایسا منقسم مینڈیٹ آئے کہ مخلوط حکومت کے نام پر چُوں چُوں کا مِثالی مُربّہ تیار ہو! کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا، بھان متی نے کنبہ جوڑا کے مصداق جب مختلف الخیال اور مختلف العزائم لوگ حکومت بنائیں گے تو کوئی گاڑی کو آگے لے جانا چاہے گا اور کوئی ریورس گیئر لگانے پر تُلا ہوگا! جب مُعلّق پارلیمنٹ ہوگی تو مفادِ عامّہ کے منصوبے اور قومی مفادات بھی بے یقینی کی سُولی ہی پر لٹکے رہیں گے! قوم جمہوریت چاہتی ہے۔ مگر ایسی جمہوریت کِس کام کی جس کے بطن سے ڈھنگ کی کوئی بات ہویدا ہی نہ ہو؟ ملک کے اہم ترین اُمور پر متصرف پس پردہ قوتیں چاہتی ہیں کہ جمہوریت کے نام پر صرف تماشا ہو۔ اِس کے لیے اُنہوں نے اپنے مُہرے بھی تیار کر رکھے ہیں۔ اِن شہزادگان کی پانچوں انگلیاں گھی میں رہتی ہیں اور سَر کڑھائی میں۔ وہ رند کے رند رہتے ہیں اور جنّت بھی ہاتھ سے نہیں جاتی۔ ملک پر اب تک مسلط رہنے والے یہ اہل ہُنر قوم کی آنکھ سے کاجل چُرانے کا ہُنر جانتے ہیں۔ قول و فعل کا تضاد نمایاں ہے مگر چرب زبانی سے یہ اپنے کرتوتوں پر پردہ ڈالتے آئے ہیں۔ اور عوام؟ اُن کا مقدر آسانی سے کہاں بدلتا ہے؟ آمریت کی شعبدہ بازی ہو یا جمہوریت کا پُتلی تماشا، عوام کو تو گزارے ہی کی سطح پر جینا پڑتا ہے۔ اب پھر حکمرانوں کے انتخاب کے لیے جمہوریت کو زحمت دی جارہی ہے۔ آثار تو اچھے نہیں مگر دِل سے یہی دُعا نکلتی ہے کہ اللہ نصیب اچھا کرے۔ قوم پھر جمہوری، انتخابی عمل کے بحر میں غوطے کھا رہی ہے۔ موتی پانے کی آرزو ہے۔ دِلوں میں اُمنگیں پروان چڑھ رہی ہیں۔ حق تعالیٰ خیر کرے۔ اِس بار اللہ جمہوریت کی تہہ سے چند ایک موتی بخش دے تو قوم نہال ہو۔ ع دیکھیے اِس بحر کی تہہ سے اُچھلتا ہے کیا!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved