کچھ باتیں اتنے تواتر سے کی جاتی ہیں کہ رفتہ رفتہ چِڑ کا درجہ حاصل کرلیتی ہیں۔ بھارتی میڈیا نے جنگی جنون کی لہر پر سوار ہوکر جو کچھ کہا تھا اُس میں سے بہت کچھ ایسا ہے جو اب حکومت اور ریاستی مشینری کے لیے چِڑ کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ جب سے پاک بھارت کشیدگی بڑھی ہے‘ مرزا تنقید بیگ کی مصروفیات بھی بڑھ گئی ہیں۔ دیگر تمام معمولات ترک کرکے آج کل وہ دن بھر ٹی وی چینلز دیکھتے ہیں۔ جو اُلٹا سیدھا دماغ میں جمع ہوتا ہے‘ اُس کی مدد سے دماغ کی لَسّی بناتے ہیں اور پھر یہ لَسّی اہلِ علاقہ کو پلانے کے لیے شام ہوتے ہی گھر سے نکل پڑتے ہیں۔ اُن کے جوش و خروش کا عالم کیا کہیے۔ بس یہ سمجھ لیجیے کہ ایک ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہے‘ ایک دریا ہے کہ اُمڈا چلا آتا ہے۔ سکیورٹی فورسز کی طرح آج کل مرزا کے علاقے کے لوگ بھی ہر وقت ہائی الرٹ رہتے ہیں۔ جیسے ہی مرزا گھر سے نکلتے ہیں گلی سنسان ہو جاتی ہے۔ گلی سے باہر قدم رکھتے ہیں تو پاس کی گلیوں کے نکڑ پر کھڑے ہوئے لوگ پتلی گلی سے نکل لیتے ہیں۔ مرزا کے دماغ میں تیار ہونے والی لَسّی پینے پر کوئی بھی آمادہ دکھائی نہیں دیتا‘ جس سے پوچھیے وہ یہی کہتا ہے ع
یہ تاب‘ یہ مجال‘ یہ جرأت نہیں مجھے!
قصہ یہ ہے کہ مرزا نے از خود نوٹس کے تحت خود کو دفاعی تجزیہ کار کے منصب پر فائز کرلیا ہے۔ اب‘ اگر کوئی اُن کا کچھ بگاڑ سکتا ہے تو ذرا بگاڑ کر دکھائے! ویسے یہاں اب کون ہے جو کسی نہ کسی اعتبار سے تجزیہ کار نہیں؟ بیشتر کا یہ حال ہے کہ ؎
پُر ہوں میں درد سے یُوں راگ سے جیسے باجا
اک ذرا چھیڑیے‘ پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے
انسان جب دن بھر ٹی وی اسکرین کے سامنے بیٹھا رہے گا اور ذہن کے پتیلے میں جہان بھر کے تجزیے انڈیلتا رہے گا تو شام ہوتے ہوتے اِس پتیلے میں گرما تجزیاتی حلیم کا تیار ہو جانا انتہائی لازم ہے۔ مرزا روزانہ ایسی ہی صورتِ حال سے دوچار ہوتے ہیں اور پھر دوسروں کو بھی دوچار کرنے کے مشن پر روانہ ہوتے ہیں! ایک آدھ ہفتے کے دوران بھارتی میڈیا نے جو کچھ کہا اور کیا ہے وہ مرزا کے دل و دماغ میں بھی ہلچل‘ بلکہ قیامت سی برپا کرنے سے باز نہیں رہا۔ وہ ٹی وی سکرین کی طرف دیکھتے رہتے ہیں اور ''شرم تم کو مگر نہیں آتی‘‘ کا ورد کرتے رہتے ہیں! مرزا کے ورد سے کیا ہوگا؟ ایک دنیا ہے جو بھارتی میڈیا کو شرمندہ کرنے کی کوششیں کر کرکے ہار گئی ہے! وہی مرغی کی ایک ٹانگ کے مصداق بھارتی میڈیا پرسنز جو کچھ روزِ اوّل سے کہہ رہے ہیں اُس پر ایسے ڈٹے ہوئے ہیں کہ اُن کی ثابت قدمی اور اولوالعزمی (یعنی ڈِھٹائی) دیکھ کر اپنے آپ سے شرمندگی سی ہونے لگتی ہے! (کیونکہ تجربہ شاہد ہے کہ سورج مغرب سے طلوع ہوسکتا ہے‘ بھارتی میڈیا پرسنز شرمندہ نہیں ہوسکتے!)
مرزا جب چند دوستوں کو جمع کرکے اپنے دماغ کی پٹاری کھولتے ہیں تو اُن کا پیش کیا ہوا مال دیکھ کر لوگ حیران رہ جاتے ہیں۔ مرزا جب صورتِ حال پر ماہرانہ رائے دینے کا سلسلہ شروع کرتے ہیں تو کیفیت یہ ہوتی ہے کہ ع
وہ کہیں اور سُنا کرے کوئی!
ہمیں اس بات پر حیرت ہے کہ جنگی جنون میں مبتلا بھارتی حکومت اور میڈیا نے مرزا کو بھی حیرت زدہ کردیا ہے۔ بالا کوٹ حملے کے حوالے سے بھارتی میڈیا میں جو لپک جھپک دکھائی دی تھی وہ تو ونگ کمانڈر ابھینندن کی گرفتاری کی بھینٹ چڑھ گئی۔ بالا کوٹ حملہ ایک سانپ کے مانند تھا جو نکل گیا۔ اور بھارت میں لکیر البتہ اب تک پیٹی جارہی ہے۔ مرزا کہتے ہیں ''عجیب بات ہے کہ پہلے تو ایک ناکام حملے کا 'کریڈٹ‘ لینے کی کوشش کی گئی اور جب دال نہ گل سکی تو اُس سے متعلق پوچھے جانے پر چڑچڑے پن کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔‘‘
ہم نے عرض کیا کہ اِس پورے معاملے کو دل پر لینے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ سب کچھ تو روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ پھر بھلا مودی سرکار ہوش کے ناخن لیتے ہوئے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کیوں نہیں کر رہی؟ اس پر مرزا نے کہا مودی سرکار کو انتہائی ناگفتہ بہ الفاظ میں ''خراجِ عقیدت‘‘ پیش کرتے ہوئے کہا ''جے کی عادت جائے نہ جی سے۔ نیم نہ میٹھا ہوئے چاہے کھاؤ گُڑ گھی سے! یعنی یہ کہ کھاری پانی کے کنویں میں ڈول ڈالیے تو اُس کے ذریعے کھاری پانی ہی باہر آئے گا۔ کم از کم بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ ٹھاکرے نے تو یہی ثابت کیا ہے۔ پہلے تو وہ بالا کوٹ حملے پر مبارک باد کا بھونپو بجاتے رہے مگر جب اندازہ ہوا کہ ہاتھ کچھ اوچھا اور اُلٹا پڑگیا ہے تو سوالوں کے جواب دینے سے کترانے لگے۔ آسام میں اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ جو لوگ بالا کوٹ حملے میں زمین پر ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد پوچھ رہے ہیں وہ گنتی کا شوق پورا کرنے کے لیے پاکستان چلے جائیں۔ پاکستان کا راستہ اُس طرف ہے۔‘‘
ہم نے راج ناتھ سنگھ سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے عرض کیا کہ جو ہونا تھا وہ ہوا۔ اب مودی سرکار کے زخموں پر نمک چھڑکنے لوگ بار بار ہلاکتوں کی تعداد کیوں پوچھ رہے ہیں۔ یہ سُن کر مرزا نے ہمیں یوں گھور کر دیکھا گویا ''دیش دروہ‘‘ کا آروپ لگا رہے ہوں! پھر حواس اور قوٰی مجتمع کرتے ہوئے بولے ''کوئی راج ناتھ سنگھ جی کو سمجھائے کہ جس چیز کے بارے میں پتا نہ ہوا کرے اُس چیز کے بارے میں بولے متی! جب بے ڈھنگے اقدامات کروگے تو لوگ سوالوں کی بوچھار سے مار ڈالیں گے۔ لوگ ہلاکتوں کی تعداد اِس لیے پوچھ رہے ہیں کہ یہ پینڈورا بکس حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر امیت شاہ نے کھولا تھا۔ بالا کوٹ حملے کی اطلاع آتے ہی موصوف نے سوچے سمجھے بغیر دعوٰی جڑ دیا تھا کہ (کالعدم) جیش محمد کے ٹھکانے پر حملے میں 250 سے زیادہ کاریہ کرتا (کارکن) مارے گئے ہیں! تب سے اب تک اپوزیشن یہ بھی پوچھ رہی ہے کہ امیت شاہ کو یہ خفیہ بات کیسے معلوم ہوئی! لطیفہ یہ ہوا ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد کے حوالے سے مودی سرکار اور فضائیہ دونوں نے چُپ کا روزہ رکھا ہوا ہے اور فی الحال چُپ کا یہ روزہ توڑنے کا موڈ ہے نہ پوزیشن! رہی سہی کسر بھارت کے سابق آرمی چیف اور وزیر مملکت برائے امور خارجہ جنرل (ر) وی کے سنگھ نے رانچی (جھاڑ کھنڈ) میں ایک تقریب سے خطاب کے دوران یہ کہتے ہوئے پوری کردی کہ حملے کے ثبوت اور ہلاکتوں سے متعلق اعداد و شمار اعداد و شمار مانگنا وقت کا (مزید) ضیاع ہے!‘‘ ۔
ہم تو مرزا کے حوالے سے پریشان ہیں۔ جنگی جنون کو سگریٹ کے دھویں کی طرح اُڑ جانا تھا سو اُڑتا جارہا ہے۔ کشیدگی بھی خیر دھیرے دھیرے ختم ہو ہی جائے گی۔ اس وقت بھارتی میڈیا چائے کی پیالی میں جو طوفان اٹھا رہا ہے وہ البتہ ہمیں خوفزدہ کیے ہوئے ہے۔ ہم یہ سوچ کر پریشان ہیں کہ کہیں مرزا بھارتی میڈیا کی اُڑائی ہوئی دُھول میں گم ہوکر نہ رہ جائیں! راج ناتھ سنگھ جی ناقدین سے کہہ رہے ہیں کہ پاکستان اُس طرف ہے‘ مگر ہمیں پتا نہیں چل پائے گا کہ مرزا کس طرف ہیں!
ویسے تو خیر مرزا کی ذہنی حالت پہلے ہی کچھ خاص اچھی نہیں مگر پھر بھی ہم نے اُن سے گزارش کی ہے بھارتی میڈیا کا زہریلا چُورن زیادہ نہ چاٹیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمیں بھی مہدی حسن کا یہ گیت گنگنانا پڑے ؎
نشاں بھی کوئی نہ چھوڑا کہ دل کو سمجھائیں
تِری تلاش میں جائیں تو ہم کہاں جائیں