2014ء کے بلند بانگ دعووں‘ وعدوں اور ارادوں کے درمیان اقتدار میں آنے کے بعد اب‘ جبکہ مودی سرکار کی رخصت کا وقت آگیا ہے‘ ایسے میں یہ حقیقت جاننا ضروری ہے کہ پانچ سال بھارتی عوام پر کیسے گزرے؟ بارہا لکھا جا چکا کہ جب چراغ بجھتا ہے تو وہ بہت تیزی سے پھڑکتا ہے اور پھر ٹمٹما کر بجھ جاتا ہے۔بالکل یہی صورت حال مودی سرکار کی ہے۔مودی سرکار آنے کے بعد جس طرح سے بھارت کے جمہوری اداروں کو تباہ کرنے کا کام کیا گیا‘ اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی اور یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ مستقبل میں بھی نہیں ملے گی۔ مور خ مودی سرکار کے دور ِحکومت کو بھارت کے تاریک اور تباہ کن ادوار میں سے ایک لکھے گا۔بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے شاہانہ انداز سے پورے ملک کے جمہوری تانے بانے کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔سرکار کے چل چلائو کا دور ہے لیکن مودی سرکار اس کے ایسے نقوش چھوڑجانا چاہتی ہے‘ جس کو یاد کر کے بھارتی عوام کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں۔
بھارتی سپریم کورٹ کے جج صاحبان کہہ رہے ہیں کہ جمہوریت خطرے میں ہے اور جمہوری قدروں کو بچانا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ جمہوریت کے تحفظ کے لئے بھارت کی سب سے بڑی عدالت سے آواز اٹھ رہی ہے۔اگر آپ سے کہا جائے کہ کسی ملک کے چیف جسٹس کو روتے ہوئے دیکھا ہے تو آپ یقین نہیں کریں گے ‘ لیکن سچ یہی ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار بھارت میں چیف جسٹس کو پوری دنیا نے روتے دیکھا۔ ابھی دو سال قبل بھارتی چیف جسٹس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ ان کے دل میں درد تھا۔ احساس تھا۔ ایک ایسا درد جو اپنے لئے نہیں‘بلکہ بھارتی عوام کے لئے تھا۔چیف جسٹس اس لئے نہیں روئے کہ ان کو کسی قسم کی تکلیف یا پریشانی تھی ‘بلکہ وہ روئے اس لئے‘ کیونکہ بھارت کی مودی سرکار کے انصاف کے نظام سے بے توجہی کے باعث‘ کروڑوں بھارتیوں کو جو مشکلات درپیش ہیں‘اس پر ان کی آنکھیں بہہ گئیں۔ بھارتی چیف جسٹس کو امید تھی کہ شاید بھارت کا راجہ اور نام نہاد سیوک‘( خدمت گار)ملک کے عدالتی نظام کو بہتر بنانے میں معاون و مددگار ہو گا۔مودی نے نہ ہی حصول انصاف کی طرف کوئی توجہ دی اور نہ ہی کوئی لب کشائی کی۔ چیف جسٹس چلے گئے۔ دوسرے آئے وہ بھی چلے جائیں گے اور بھارت میں انصاف کا نظام آج بھی اس طرح نہیں ہو سکا‘ جس کی امید تھی‘ لیکن بھارتی عوام کو آج بھی انصاف برسوں بعد ہی ملتا ہے۔
اگر تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو انگریز کے زمانے میں دس سال کے دوران انصاف مل جاتا تھا ‘لیکن اب تو سو سال بھی کم لگتے ہیں۔مودی سرکارجس طرح فرضی گائے کے محافظوں کا ڈوزئیر تیار کر رہی ہے اور اب حکومت کے جانے کا وقت قریب آچکا ہے‘ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟اگر کچھ ماضی کے اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو پتہ چلے گا کہ اندھرا پردیش ہائی کورٹ میں اس کی حقیقی صلاحیت کا‘ صرف چالیس فیصد کام ہو رہا ہے۔ وہاں پر مقدمات کی تعداد بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ الٰہ آباد ہائی کورٹ میں دس لاکھ کیس زیر التوا ہیں۔باقی جگہوں پر بھی یہی صورت حال ہے۔ بھارتی اٹارنی جنرل کہہ چکے ہیں کہ وہ اس معاملے کو اعلیٰ سطح پر اٹھائیں گے۔انہوں نے اپیل کرتے ہوئے کہا تھا کہ مفاد عامہ کی درخواست پر کوئی نوٹس جاری نہ کیا جائے اور جواب دینے کے لئے چار ہفتے کا وقت مانگا تھا۔ حکومتی ترجمان کے مطابق بھارت کی24ہائی کورٹس میں اس وقت پانچ سو کے لگ بھگ اسامیاں خالی پڑی ہیں اور زیر التوا کیسوں کی تعداد39لاکھ بنتی ہے۔ مودی سرکار کے موجودہ رویے سے لگ رہا ہے کہ بی جے پی کے لئے عدالتیں کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتیں‘ جس طرح سے مودی سرکار کے آنے کے بعد بھارت میں جنگل راج قائم ہوا ہے‘ وہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ملک کے بہتر مستقبل کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ بھارتی عدالتی نظام کا جو رونا چیف جسٹس ٹھاکر روئے تھے‘ وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مودی سرکار‘ عدالتی نظام پر حملہ کرنا چاہ رہی تھی۔ بڑے وثوق سے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ مودی سرکار کے پانچ سالوں میں بھارتی عوام کی سبھی امیدیں دم توڑ چکی ہیں۔ اس لئے مودی سرکار جتنی جلدی رخصت ہو جائے‘ اتنا ہی بھارتی عوام کے لئے بہتر ہو گا‘ لیکن جو تباہی مودی سرکار نے بھارت میں مچائی ہے‘ اس سے نکلنے کے لئے ایک طویل عرصہ درکار ہو گا۔( بشکریہ:طارق انور)