تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     08-03-2019

نواز شریف کہاں غلطی کرگئے؟

وزیر اعظم ہائوس میں دو درجن کے قریب اینکرز اور صحافیوں کے ساتھ وزیر اعظم کی جب گفتگو ختم ہو گئی تو مجھے محسوس ہوا‘ جب یہ سب باتیں باہر نکلیں گی تو سب کہیں گے کہ یہ باتیں تو سابق وزیر اعظم نواز شریف بھی کرتے تھے۔ اس بار نیا کیا ہے؟ 
پاک بھارت معاملات پر عمران خان صاحب تقریباً وہی گفتگو کر رہے تھے جو سابق وزیر اعظم نواز شریف کرتے تھے۔ وہ بھی ہمیں یہی سمجھاتے تھے: دنیا بدل رہی ہے‘ اب ہمیں دنیا کے ساتھ کھڑا ہونا ہے اور نان سٹیٹ ایکٹرز کو ختم کرنا ہے‘ ہم دنیا سے کٹ کر نہیں رہ سکتے۔ 
وہی ہوا‘ جب وہ باتیں باہر نکلیں تو نواز شریف کے حامیوں نے وہی سوال دہرانے شروع کر دیئے۔ سوشل میڈیا پر یہ سوال شد و مد سے پوچھا گیا: اگر عمران خان نے بھی یہی باتیں کرنی تھیں تو پھر نواز شریف میں کیا برائی تھی؟ اسے مودی کا یار کہہ کر غدار کیوں کہا گیا؟ 
اب بھی نواز شریف کے حامیوںکا ایک بڑا طبقہ سمجھتا ہے کہ ان کو سزا پانامہ سکینڈل یا دنیا بھر میں پھیلی ہوئی جائیدادوں کی وجہ سے نہیں ہوئی تھی‘ بلکہ ڈان لیکس اور بھارت سے دوستانہ تعلقات کی خواہش لے ڈوبی ۔ 
مجھے نواز شریف سے گلہ رہا ہے کہ جب وہ اپوزیشن میں ہوتے تو جن باتوں پر کھل کر تنقید کرتے‘ حکومت میں جا کر ان کا دفاع شروع کر دیتے تھے۔ وہ لندن میں کہتے تھے کہ ان کی پارٹی سرونگ جرنیلوں سے ملاقاتیں نہیں کرے گی‘ نہ ہی سیاسی حکومت کے خلاف سازشیں کریں گے۔ پاکستان لوٹتے ہی چوہدری نثار علی خان اور شہباز شریف کی جنرل کیانی سے خفیہ ملاقاتیں شروع ہو گئیں‘ اور پھر نواز شریف تیسری دفعہ وزیر اعظم بن گئے۔ وہ کسی کو خوش کرنے کے لیے کالے کوٹ پہن کر سپریم کورٹ بھی پہنچ گئے تاکہ زرداری اور گیلانی کو میمو گیٹ پر غدار ڈیکلیئر کرا سکیں۔ وہ اپوزیشن میں کہتے تھے کہ وہ کارگل جنگ پر عدالتی کمیشن بنائیں گے۔ چار سال وزیر اعظم رہے اور بھول کر بھی کارگل کا نام نہ لیا۔
تاہم سب سے بڑا افسوس اس وقت ہوا‘ جب ڈان لیکس کا معاملہ سامنے آیا اور نواز شریف سے جو توقعات تھیں وہ پوری نہ ہو سکیں ۔ مجھے یاد ہے کہ جب سب میڈیا میں حکومت پر تنقید کر رہے تھے، تو میں اور عامر متین ان دو تین صحافیوں میں سے تھے جو اس معاملے پر نواز شریف کی حکومت کو سپورٹ کر رہے تھے۔ ہمارا خیال تھا کہ جو باتیں نان سٹیٹ ایکٹرز کے معاملے پر کی گئی ہیں وہ درست ہیں‘ حکومت کو اس وقت سٹینڈ لینے کی ضرورت ہے؛ تاہم ہوا اس کے برعکس۔ نواز شریف نے فوری طور پر ایک جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بنا دی جس میں دو سرونگ آرمی افسر بھی شامل تھے۔ اس انکوائری کا مقصد یہ پتہ چلانا تھا کہ خبر کس نے لیک کی تھی۔ ساتھ میں حکومت نے پوری شدت سے انکار کیا کہ ایسی کوئی بات اجلاس میں نہیں کی گئی تھی۔ یوں پوری حکومت ایک state of denial میں چلی گئی۔ سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ اس رپورٹر کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا جس نے وہ خبر دی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ خبریں آنے لگیں کہ اس رپورٹر کو خبر خود ان وزیروں نے دی تھی‘ جو اب اس کا نام ای سی ایل میں ڈال رہے تھے۔ یوں ایک تیر سے کئی شکار ہو رہے تھے۔ پہلے رپورٹر اور اخبار کو استعمال کیا گیا۔ مرضی کی خبر لگوائی گئی تاکہ آرمی پر دبائو بڑھایا جائے اور جب آرمی نے جواباً دبائو بڑھایا تو نہ صرف انکوائری آرڈر کر دی بلکہ رپورٹر کو بھی ملک سے باہر جانے سے روک دیا گیا۔ 
مزے کی بات یہ ہے کہ یہ انکوائری خود نواز شریف کے حکم پر ہو رہی تھی اور اس انکوائری میں درجنوں صحافیوں، سرکاری افسران اور کابینہ کے وزیروں کو بلا کر گھنٹوں ان سے تفتیش کی گئی۔ اس تفتیش کے جو نتائج نکلے انہیں پہلے تو فوج کے ترجمان نے ایک ٹویٹ کے ذریعے مسترد کر دیا جس پر ایک اور شور مچ گیا۔ بعد میں نواز شریف نے اپنے وزیر پرویز رشید اور طارق فاطمی کو قربانی کا بکرا بنا کر ان کی چھٹی کرا دی تاکہ فوجی قیادت مطمئن رہے۔ یہ پہلی دفعہ نہیں ہو رہا تھا کہ کسی وزیر کو پہلے آگے کیا گیا اور پھر اس سے کام لے کر اسے بر طرف کر دیا گیا۔ وفاقی وزیر مشاہداللہ خان کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا تھا۔ ان سے بی بی سی کو انٹرویو دلوایا گیا‘ جس میں انہوں نے بتایا کہ نواز شریف کے پاس ان جرنیلوں کی ریکارڈڈ گفتگو تھی جو عمران خان کے دھرنے کو سپورٹ کر رہے تھے۔ اس پر مشاہداللہ کو نیپال میں فون کرکے کہا گیا کہ وہ فوراً استعفیٰ دے دیں کیونکہ آرمی ناراض ہو گئی ہے۔ کچھ عرصہ بعد انہیں دوبارہ وزیر بنا دیا گیا۔ ان سے جو کام لینا تھا‘ وہ لے لیا تھا۔ 
بات یہاں پر ختم نہیں ہو جاتی۔ جب نواز شریف برطرف ہو کر گلی گلی محلہ محلہ پھر کر پوچھ رہے تھے کہ مجھے کیوں نکالا تو انہوں نے اسی رپورٹر کو ملتان بلایا جس کا نام انہوں نے خود ای سی ایل میں ڈالا تھا۔ جس رپورٹر کی خبر کو جھوٹا کہہ رہے تھے‘ اسے ہی بلا کر انٹرویو دیا اور ان تمام باتوں کو دہرایا جو ڈان لیکس میں کہی گئی تھیں۔ 
اب اس میں دو تین سوالات ابھرتے ہیں۔ اگر آپ کو علم تھا کہ آپ درست باتیں کر رہے ہیں لیکن آپ نے جان بوجھ کر ان پر سٹینڈ نہیں لیا تاکہ آرمی ناراض نہ ہو تو پھر اقتدار سے باہر نکلنے کے بعد وہ باتیں کرنے کا کیا فائدہ؟ آپ وزیر اعظم ہوتے ہوئے اگر سٹینڈ نہیں لے سکے تو اقتدار سے باہر نکل کر سٹینڈ لینے سے کیا حاصل ہو سکتا تھا؟ 
ہمارے جیسے لوگ شروع دن سے اس بات کے حق میں تھے کہ نواز شریف کو بھارتی وزیر اعظم مودی سے اپنے اچھے تعلقات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دونوں ملکوں کے تعلقات درست کرنے چاہئیں۔ نواز شریف خود اس معاملے میں وہ جرأت نہ کر سکے جو انہیں دکھانی چاہیے تھے۔ جس دن ڈان لیکس پر ان پر دبائو ڈالا گیا تھا‘ وہ ہائوس میں کھڑے ہو کر ایک تقریر کرتے کہ ملکی سلامتی کا تقاضا ہے کہ ہم یہ سب کام دل و جان سے کریں‘ ماضی کے ان اثاثوں سے جان چھڑائیں اور اب دنیا کے ساتھ مل کر چلیں۔ میں وزیر اعظم کے طور پر یہ ذمہ داری محسوس کرتا ہوں کہ اب یہ کام نہیں چلے گا‘ اگر کسی کو‘ کسی کو میری پالیسی پر اعتراض ہے تو وہ یا استعفیٰ دے کر گھر چلا جائے یا پھر وہ میری جگہ آ کر خود سنبھال لے اور دنیا کو خود بھگت لے۔ نواز شریف اگر اس وقت سٹینڈ لیتے تو انہیں جہاں دنیا بھر سے سپورٹ ملنا تھی‘ وہیں انہیں پاکستان کے اندر بھی حمایت ملتی‘ لیکن وہ اس تمام عرصہ میں کسی کو خوش کرنے کے لیے اپنے ہی وزیروں کے خلاف انکوائریاں کرا کے انہیں مجرم بنا کر برطرف کرتے رہے‘ اور جب انہوں نے برطرف ہونے کے بعد ملتان میں انٹرویو دے کر بلیک میل کرنا چاہا تو اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ بعض لوگ کہیں گے‘ وزیر اعظم ہوتے ہوئے وہ ایسا نہیں کر سکتے تھے کیونکہ سیاست اور اقتدار کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں۔ تو پھر جناب راج نیتی تو اسی کا نام ہے۔ اگر آپ پہلا وار نہیں کریں گے تو آپ پر وار کر دیا جائے گا۔
دوسرے نواز شریف جنرل باجوہ کو اس طرح اپنی پالیسیوں کے لیے استعمال نہیں کر سکے‘ جیسے انہیں کرنا چاہیے تھا۔ جنرل باجوہ سیاسی حکومت کے ساتھ کام کرنے کے خواہاں تھے۔ انہوں نے ڈان لیکس کے معاملے کو حل کیا اور تنقید بھی ہوئی۔ متنازعہ ٹویٹ واپس کرایا گیا۔ ڈان لیکس کے ایشو کو ختم کیا گیا؛ تاہم اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ ایک علیحدہ کہانی ہے کہ کس طرح کچھ ایشوز پر لڑائی شروع ہوئی، جس کے نتائج نواز شریف کے لیے اچھے نہیں نکلے۔
کبھی کبھار میری خواہش رہتی ہے کہ کچھ لوگ اقتدار میں نہ آئیں تاکہ ہمارے جیسوں کا ان سے رومانس قائم رہے۔ نواز شریف بھی ان سیاستدانوں میں سے ایک تھے۔ لندن میں ان کی باتیں سن کر لگتا تھا وہ بہت بدل چکے ہیں۔ پاکستان کو چی گویرا مل گیا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ نواز شریف نے پاکستان لوٹتے ہی ہمارے جیسے idealists کو مایوس کرنے میں دیر نہیں لگائی تھی۔ وہ جو پاکستان بدلنے نکلنے تھے وہ خود کو نہ بدل سکے اور وقت کا بے رحم صحرا انہیں روند کر نکل گیا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved