26 فروری اور اُس کے بعد سے اب تک جو کچھ ہوا ہے‘ اُس نے بھارت کا سَر اس حد تک جھکادیا ہے کہ اب تادیر وہ بات پیدا نہ ہوسکے گی‘ جو پلوامہ حملے سے پہلے تک تھی۔ عالمی برادری بہت کچھ دیکھ رہی ہے اور سمجھتی بھی ہے‘ مگر بعض معاملات قدرتی طور پر بھارت کے حق میں جاتے ہیں‘ جن کے باعث اُس کی مذمت کرنے میں خصوصی جوش و جذبے کا مظاہرہ نہیں کیا جاسکتا‘ مثلاً: یہ کہ بھارت ایک بڑی مارکیٹ ہے۔ تجارتی نقطۂ نظر سے بھارت کی اہمیت اس قدر ہے کہ اُسے زیادہ لتاڑا نہیں جاسکتا اور ہر بین الاقوامی فورم میں اُس کے خلاف جانے والی باتیں بھی دبی رہ جاتی ہیں۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کے حوالے سے عالمی برادری نے مفادات کے باعث ہی تو چُپ سادھ رکھی ہے۔
دو بھارتی طیاروں کے مار گرائے جانے کے بعد سے پاک فضائیہ کی گڈی چڑھی ہوئی ہے اور بھارتی فضائیہ کے لیے دنیا کو منہ دکھانا بھی دشوار ہوگیا ہے اور سوال صرف طیاروں کے گرنے کا ہوتا تو کچھ نہ تھا۔ ونگ کمانڈر ابھینندن کی گرفتاری نے بھارتی قیادت پر انتہائی بدحواس کرنے والے تازیانے کا کام کیا۔
اب تک دنیا یہ سمجھ رہی تھی کہ بھارت کے پاس ایک بڑی فوج ہے‘ جس کی مدد سے وہ پورے خطے کو باپ کے زر خرید غلام کی حیثیت سے ‘یعنی دبوچ کر رکھ سکتی ہے۔ دعوے کرنے اور بڑھکیں مارنے کا مرحلہ گزرا تو دنیا کو معلوم ہوگیا کہ زمینی حقیقت کچھ اور ہی ہے۔ پاکستان نے جھڑپوں کے میدان میں جو کچھ کیا اُس سے مترشّح ہوگیا کہ اُس کی فوج پیشہ ورانہ صلاحیت کے اعتبار سے غیر معمولی مقام رکھتی ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ تمام ریاستی قوتیں ایک پیج پر دکھائی دیں‘ قومی بیانیے میں کہیں کوئی جھول نظر نہیں آیا۔
بھارتی فضائیہ کی نا اہلی کا منظر عام پر آنا کیا کم تھا کہ تمام ریاستیں قوتوں کا ایک پیج پر نہ ہونا اضافہ تازیانہ ثابت ہوا۔ اس وقت تک صورتِ حال یہ ہے کہ فوج کچھ کہہ رہی ہے اور سیاسی قیادت کا بیانیہ کچھ اور ہے۔ مودی سرکار اپنی نا اہلی پر پردہ ڈالنا چاہتی تھی۔ تجربہ ناکام رہا۔ اب معاملہ یہ ہے کہ وہ بالا کوٹ پر فضائیہ کے ناکام حملے کو پُرانے طیاروں کی ناکامی قرار دے کر فرانس سے جدید طرز کے رافیل طیارے خریدنے پر زور دے رہی ہے۔ دوسری طرف بھارتی فضائیہ کا بیانیہ یہ ہے کہ جو ہونا تھا وہ ہوا‘ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ تمام ہی طیارے ناکارہ ہیں۔ فضائیہ کو افسوس ہے کہ مودی سرکار طیاروں کو کلیدی عامل قرار دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ انسانی وسائل مطلوب معیار کے نہیں۔ یہ بات پوری فوج کا مورال مزید گرانے کا باعث بنی ہے۔
امریکا خطے میں اپنی بات رکھنے کے لیے اب تک بھارت پر انحصار کرتا رہا ہے۔ چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنے کے لیے اس طرف سے بھارت اور افغانستان ‘جبکہ اُس طرف سے بنگلہ دیش اور میانمار (برما) کو استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ نیپال خشکی سے گِھری ہوئی دنیا کی واحد ہندو ریاست ہے جو بیشتر معاملات میں بھارت کی دست نگر رہی ہے۔ نیپال کا جھکاؤ کبھی کبھی پاکستان کی طرف بھی رہا ہے۔ مغربی سمت افغانستان اور ایران بھی بھارت کے کیمپ میں رہے ہیں۔ بھارت نے علاقے میں سٹریٹیجک ڈیپتھ کے حصول کیلئے جو کچھ اب تک کیا ہے‘ وہ سب کچھ داؤ پر لگ گیا ہے۔ امریکا نے علاقائی سطح پر اپنے مفادات کو مستحکم و محفوظ رکھنے کیلئے بھارت پر تکیہ کر رکھا تھا‘ مگر اب الجھن یہ ہے کہ ع
وہ شاخ ہی نہ رہی جو تھی آشیاں کے لیے
ڈیڑھ دو عشروں کے دوران امریکا اور یورپ کی سرپرستی میں بھارتی قیادت افغانستان میں اپنا کھونٹا گاڑنے میں کامیاب رہی ہے اور اس کھونٹے کی مضبوطی نے اُسے ایران سے میل جول بڑھانے کی بھی تحریک دی ہے۔ مودی سرکار کے دور میں معاملات زیادہ آگے بڑھے ہیں۔ چابہار کی ایرانی بندر گاہ کو بنیاد بناکر بھارت نے پاکستان کے خلاف اسٹریٹیجک ڈیپتھ حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے ‘مگر ایرانی قیادت کے لیے بھی اب second thoughts کا مرحلہ آگیا ہے! دو جہاز کیا گرے‘ بھارت کا بھرم ہی گر گیا ہے اور پائلٹ کیا گرفتار ہوا‘ بھارتی قیادت مخمصوں کے پنجرے میں بند ہوکر رہ گئی ہے۔ چین‘ روس اور ترکی کا راستہ روکتے ہوئے پاکستان کو پریشان کرنے کی بھارتی حکمتِ عملی دُھول چاٹتی ہوگئی ہے۔ امریکا اور یورپ نے چین کی راہ روکنے کے لیے بھارت پر جُوا کھیلا تھا۔ یہ سمجھ لیا گیا تھا کہ بڑی مارکیٹ ہے تو بہت کچھ بِک جائے گا‘ مگر اب زمینی حقیقت کچھ کی کچھ ہوگئی ہے۔
عالمی برادری کے سامنے بھارت کی جو سُبکی ہوئی ہے‘ اُس کے تناظر میں ایران اور افغانستان بھی پریشانی کا شکار ہیں۔ وہ جس کھونٹے کی بنیاد پر کچھ کر گزرنے کا سوچ رہے تھے ‘وہ جڑ سے اکھڑا پڑا ہے۔ عالمی برادری کے لیے لازم ہوگیا ہے کہ بھارت پر دباؤ ڈال کر اُسے جنگی جنون کے گھوڑے سے اُتارے اور انسان کا بچہ بنائے۔ ایسے میں افغانستان اور ایران کہاں کھڑے ہیں ‘اس کا اندازہ لگانے لیے آپ کا آئن سٹائن ہونا لازم نہیں۔ دوسری طرف بنگلہ دیش کے لیے بھی یہ مخمصے کی گھڑی ہے۔ نیپال تو خیر کسی نہ کسی حوالے سے اپنی بات منوانے کی پوزیشن میں آ بھی جاتا تھا‘ بنگلہ دیش؛ البتہ شدید الجھن میں مبتلا ہے۔ وہ بھارت کا انتہائی حاشیہ بردار رہا ہے اور نئی دہلی نے تقریباً تمام ہی پالیسیوں کے حوالے سے ڈھاکہ کو نشانے پر رکھنے میں کبھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ پاکستان سے حالیہ مناقشے میں بھارت کی جو بھد اڑی ہے‘ وہ بنگلہ دیشی قیادت کو بھی کچھ اور سوچنے پر مجبور کر رہی ہے۔ ڈھاکہ کے بزرجمہر بھی سوچ رہے ہوں گے کہ بھارت پر کس حد تک بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔
نیو یارک ٹائمز نے 5 مارچ کو بھارت کے بارے میں ماریہ ابی حبیب کا جو کلیدی مضمون شائع کیا ہے ‘وہ تجزیہ کم اور بھارت کو شدید خوف میں مبتلا کرنے کی کوشش ضرور ہے۔ پورے مضمون میں صرف اس بات کا رونا رویا گیا ہے کہ بھارتی فوج انتہائی فرسودہ اسلحہ استعمال کرنے پر مجبور ہے اور جنگ کی صورت میں اُس کے پاس دس دن سے زیادہ کا ایمونیشن موجود نہیں۔ نیو یارک ٹائمز کے مطابق ‘بھارتی حکومت اور فوج کے ذرائع بتاتے ہیں کہ 68 فیصد اسلحہ اور آلات پرانے اور بہت حد تک از کار رفتہ ہیں۔ بھارتی پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے رکن گورو گوگی کہتے ہیں کہ بھارتی فوج کو فرسودہ و ناکارہ اسلحے کے ساتھ جدید دور کی جنگ لڑنی پڑ رہی ہے۔ جن امریکی فوجی حکام کو بھارتی فوج کے استحکام میں اضافے کا ٹاسک سونپا گیا تھا وہ اعتراف کرچکے ہیں کہ بھارتی مسلح افواج میں نظم و ضبط‘ ہم آہنگی اور اشتراکِ عمل کا شدید فقدان ہے۔
ماریہ ابی حبیب کے مضمون میں صرف اس نکتے پر زور دیا گیا ہے کہ امریکی قیادت بھارت کو خطے میں سب سے اہم حلیف کے درجے پر فائز رکھے گا‘ تاہم لازم ہے کہ وہ عسکری طور پر اپنے آپ کو مزید مستحکم کرے۔ اور اس کے لیے لازم ہے کہ جدید ترین اسلحہ خریدا جائے‘ یعنی پاکستان کے ہاتھوں حالیہ ہزیمت کی آڑ میں بھارتی قیادت کو گھیر گھار کر مزید اسلحہ خریدنے کی راہ پر گامزن کرنے کی تیاریاں ہیں۔ مغربی اخبارات اور چینل نیا اسلحہ خریدنے پر اس قدر زور دے رہے ہیں کہ نئی دہلی کے لیے اُن کی بات نظر انداز کرنا فی الحال ممکن نہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مہا راج ‘اس جال سے کیسے نکلتے ہیں۔