تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     08-03-2019

تمغۂ حسنِ بدتمیزی

تحریکِ انصاف کی حکومت میں بہت سے معاملات اس نہج پہ ہیں کہ اقتدار کھلنڈروں کے ہاتھوں لگ جانے کا تاثر پیدا ہواہے ۔نندی پور سکینڈل میں نیب کی طرف سے ریفرنس دائر ہونے کے بعد بابر اعوان صاحب کو استعفیٰ دینا پڑا ۔ آمدن سے زیادہ اثاثوں کے کیس میں نیب کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد عبد العلیم خان کو مستعفی ہونا پڑا ۔ 2017ء میں جہانگیر ترین کو سپریم کورٹ نے نا اہل کر دیا تھا‘ عبد العلیم خان اور جہانگیر ترین‘ عمران خان کے قریب ترین لوگ سمجھے جاتے ہیں ۔ ناقدین کا کہنا یہ ہے کہ یہ دو چلتی پھرتی اے ٹی ایمز ہیں ‘ جن کے بل پر عمران خان نے 2018ء کا الیکشن لڑا ‘ جن کے جہاز پر وہ ملک گیر دورے کرتے رہے ۔ 
بیچ میں آجاتے ہیں ‘ فیاض الحسن چوہان ‘ جنہیں ہندو ئوں کے خلاف نفرت آمیز تقریر پر استعفیٰ دینا پڑا۔ ایک لمحے کے لیے ذرا سوچیے کہ جو شخص صوبائی وزیر کے عہدے پر متمکن تھا ‘ اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ پاکستان میں بھی ہندو رہتے ہیں ۔ اہم اداروں؛ حتیٰ کہ پاک فوج میں بھی ہندو اور سکھ موجود ہیں ۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ اسے اپنے بیان کی implicationsپر سوچنے کی ضرورت کبھی ہی محسوس نہیں ہوئی۔انہیں عمران خان اور تحریکِ انصاف کے مخالفین کی گوشمالی کرتے ہوئے ہر قسم کی بدزبانی کا لائسنس مل گیا تھا۔ فیاض الحسن چوہان نے نواز شریف کو ببلو پہلوا ن کہا۔ ایک لیگی عہدیدار کو یہودی ماں کا بیٹا کہا ‘ '' خلائی کھوتا ‘‘،'' مونچھوں والا باندر‘‘ ہر طرح کے القابات وہ اپنی پریس کانفرنسز میں استعمال کیا کرتے ۔ایک روز پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما کوہیجڑا کہہ دیا کہ اس میں نسوانیت جھلکتی ہے ۔ شیخ رشید نے بھی ایک روز اسی کے بارے میں فرمایا کہ اس میں فنی خرابی ہے ۔ 
فیاض الحسن چوہان صاحب نے چند ماہ پہلے میرے موبائل فون پر رابطہ کیا۔ انہیں میرے والد کا نمبر درکار تھا۔ والد صاحب نے ان پر تنقید کی تھی ؛لہٰذا وہ بات کرنا چاہتے تھے ۔ دو تین سال پیچھے چلے جائیں تو فیاض الحسن چوہان اور شیخ رشید کی آپس میں بھی ایک جھڑپ ہوچکی ہے۔شیخ رشید ‘فیاض الحسن چوہان کی طرف سے بدزبانی کے ریکارڈ توڑنے پر احساسِ عدم تحفظ کا شکار تھے ۔فیاض الحسن چوہان کو وہ غالباً اپنی جگہ لیتا دیکھ رہے تھے۔ اس پر خوفزدہ نفس نے ظاہر ہے کہ ردّعمل میں حملہ کرنا ہی تھا ۔ 
شیخ رشید‘ کپتان کے کان بھرتے رہے ۔ فیاض الحسن چوہان سے غالباً پارٹی کا عہدہ واپس لے لیا گیا تھا۔ان کی کوئی شنوائی نہیں ہو رہی تھی ۔اس پر انہوں نے یہ ویڈیو پیغام انٹر نیٹ پر اپلوڈ کیا کہ اگر میں نے فلاں کام کیا ہو‘ تو میری دونوں بیویوں کو طلاق ہو جائے ۔ اس پر شیخ صاحب نے کہا کہ فیاض صاحب توطلاقیں دیتے رہتے ہیں ۔ جواباً: فیاض الحسن نے کہا کہ طلاق وہی دیتا ہے ‘ جو شادی کرتاہے ۔'' پولیے مجّے تو کی جانیں ‘ انار کلی دیاں شاناں ‘‘آخر شیخ صاحب کو اپنا منہ بند کرنا پڑا ۔ 
فیصل واوڈا صاحب نے چند روز قبل فرمایا: اللہ کے بعد وزیر اعظم عمران خان ہی ایک ایسا لیڈر ہے ۔کئی بار انہوں نے یہ جملہ دہرایا۔ پروگرام کے شرکا استغفار کرنے لگے ۔ 
چند ہفتے قبل علی امین گنڈا پور صاحب ٹی وی پروگرام میں گفتگو فرمارہے تھے۔اس دوران انکشاف ہوا کہ انہیں اس بات کا علم ہی نہیں ہے کہ کلبھوشن یادیو آج بھی پاکستان کی تحویل میں ہے ۔ اس کے علاوہ بھی انہوں نے کئی بے سروپا باتیں کیں۔ اس سے قبل وہ کئی دفعہ تنازعات کا مرکزی کردار بن چکے ہیں ۔ 
فواد چوہدری اور نعیم الحق کی حالیہ جھڑپ ہمارے سامنے ہے ۔ 2006ء میں شیخ صاحب کے بارے میں عمران خاں نے جلسہ ء عام میں کہا تھا کہ میں انہیں اپنا چپڑاسی نہ بنائوں۔ اسی برس ‘ ایک ٹی وی پروگرام میں شیخ صاحب جب عمران خان کو تانگہ پارٹی کا سربراہ ہونے کا طعنہ دے رہے تھے ‘ خان صاحب نے کہا کہ شیخ صاحب‘ آپ کامیاب سیاستدان ہیں نا؟ شیخ صاحب نے کہا: بالکل! خان صاحب نے کہا :میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ مجھے ایسی کامیابی نہ دے ‘ جیسی کامیابی آپ کو عطا ہوئی ہے ۔آج شیخ صاحب وزیر ریلوے ہیں ۔ 
یہاں میں شیخ صاحب کو خراجِ تحسین پیش کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ 1999ء میں اقتدار کے آخری دن تک دل و جان سے وہ نواز شریف کے ساتھ تھے۔ اس کے بعد مشرف کے قدموں میں جا بیٹھے۔ اللہ کی شان کہ مشرف کے خلاف تحریک چلی اور دفاعِ پاکستان کونسل والے مینارِ پاکستان میں ملٹری ڈکٹیٹر کے خلاف اجتماع کیا کرتے تو شیخ صاحب ان کے سٹیج پہ بھی چڑھ گئے ‘ پھرجب نواز شریف نے انہیں واپس پارٹی میں شامل کرنے سے انکار کر دیا تو آج وہ عمران خان کے کندھے پر سوار ہیں ۔ایک دفعہ مری روڈ پر بینر بھی لگے دیکھے‘ جس میں انہیں مردِ حق قرا ر دیا گیا تھا۔ 
تو پھروزیر اعظم عمران خان یہ کیسی حکومت چلا رہے ہیں ؟ایک یورپی ملک میں تحریکِ انصاف کے سابق صدر سے بات ہوئی ۔ وہ کہتے ہیں کہ عمران خان کو اچھی طرح اندازہ تھا کہ احتساب ہوا تو جہانگیر ترین اور علیم خان اس کی تاب نہ لا سکیں گے‘ انہوں نے جان بوجھ کر ان لوگوں کا انتخاب کیا تھا ۔ ان کا کہنا تھا کہ خان صاحب ہی کی شہ پر فواد چودھری نعیم الحق کے پیچھے پڑے ہیں ۔ اس گفتگو کا لبّ لباب یہ ہے کہ کپتان جان بوجھ کر ایسے لوگوں کا انتخاب کرتاہے ۔ انہیں استعمال کرتاہے اور پھر ایک دوسرے کے ہاتھوں انہیں مروا دیتاہے یا پھر وہ قانون کی گرفت میں آجاتے ہیں ۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ سب سے آخر میں نعیم الحق کو لات پڑے گی ۔کہتے ہیں کہ کہ آپ دیکھتے جائیں‘ جہانگیر ترین‘ علیم خان‘ نعیم الحق‘ فواد چودھری اور شیخ رشید سمیت ‘جس جس پہ برا وقت آئے گا‘ کپتان اسے پہچاننے سے انکار کر دے گا ۔ 
کیا خان اتنا بڑا ماسٹر مائنڈ ہے کہ اتنی دوراندیشی پہ مبنی منصوبہ بندی کر سکے ؟ میں اس بارے میں کنفیوژ ہوں‘ لیکن یہ بات درست ہے کہ کپتان لوگوں کو استعمال کرنے کا ماہر ہے ۔
ایک وقت تھا کہ فواد چودھری‘ پرویز مشرف کا پرچم اٹھائے پھرتے تھے‘پھر وہ زرداری کے نام لیوا ہو گئے۔ آج وہ کپتان کی ترجمانی کر رہے ہیں ۔ کبھی میں سوچتا تھا کہ شوکت خانم ہسپتال‘ ورلڈ کپ اور نمل یونیورسٹی سمیت کئی عشروں میںجو ساکھ عمران خان نے کمائی‘ کرپٹ سیاستدان اسے نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں ۔ آج مجھے شک یہ ہو رہا ہے کہ مذکورہ بالا ٹائپ سیاستدان‘ عمران خان کو استعمال نہیں کر رہے‘ بلکہ خان انہیں استعمال کر رہے ہیں ۔اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ 
یہ بات بھی صاف ظاہر ہے کہ حالات کا دھاراوزیر اعظم عمران خان کے حق میں بہہ رہا ہے ۔پانامہ لیکس کو دیکھ لیجیے ۔ بھارتی طیارے‘ اگر نواز شریف کے عہد میں بھی پاکستان میں آگھستے توافواج نے بہر حال انہیں گرا دینا تھا ۔ حالات کا رخ دیکھیے کہ یہ تمغہ بھی عمران خان ہی کو ملا ۔ 
اپنے تمام تر کارناموں کے باوجود شیخ رشید میں اتنی سمجھ بوجھ بہرحال ہے کہ وہ اپنے کہے پر پکڑے نہیں جاتے ۔ فیاض الحسن چوہان کے اندر تو خودکش بمبار کی روح ہے۔ کوئی ہدف نہیں ملے گا تو وہ اپنا جہاز کسی چوٹی میں دے ماریں گے ۔
اب اس بات کا جواب قارئین ہی دے سکتے ہیں کہ شیخ رشیداور فیاض الحسن چوہان میں سے تمغہ ٔ حسنِ بدتمیزی کسے دیا جائے ؟ایک آپشن یہ بھی ہے کہ مشترکہ طور پر ‘جیسا کہ دو بڑے سائنسدانوں کو بیک وقت نوبیل انعام سے نوازا جاتاہے ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved