سیاست کے قومی منظر نامے پر اس وقت سنسنی اور تجسس سے بھرپور مشرف ’’ایپی سوڈ‘‘ بڑی دلچسپی سے دیکھا جارہا ہے۔کل کی بات ہے کہ جنرل (ریٹائرڈ)پرویز مشرف پاکستان کے سیاہ و سفید کے مالک تھے۔ ان کی ایک جیب میں سیاستدان تھے، دوسری جیب میں کثیر تعداد میںپاکستانی جواُن کے اقدامات کی حمایت کرتے تھے۔ ایک جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر‘ فوجی بوٹوں کے ساتھ اقتدارپر قبضہ کرنے والے آمر نے کم و بیش دس برس تک ملک پر حکمرانی کی۔ اس دوران مارشل لاء کی چھتری کے نیچے ایک جمہوری حکومت کا پودا بھی لگایا جس پر پھل‘ پھول‘ پتے اور کونپلیں آمر کی آشیرباد سے لگتی تھیں۔آمر نے اس کا بھی کریڈیٹ لینے کی کوشش کی کہ ملک میں شفاف الیکشن کروا کر جمہوری حکومت قائم کی۔ فوجی وردی اور فوجی بوٹوں نے پرویز مشرف کو ایسے گھمنڈ میں مبتلا کر دیا کہ گویا صرف وہی پاکستان کے نجات دہندہ ہیں اور انہیں اب اس مرتبے سے کوئی نہیں ہٹا سکے گا۔ اسی زعم میں فوجی آمر نے کئی ایسے اقدامات کیے جنہوں نے آج ان کے گناہوںکی فہرست طویل کردی ہے۔ آئین کی پامالی، میڈیا پر پابندی، ججوں کی نظربندی، اکبر بگٹی کا قتل، جامعہ حفصہ کی بے گناہ بچیوں کا قتل‘ 3نومبر کی ایمرجنسی… آمرانہ اقدامات کی فہرست طویل ہے۔ 2008ء کے انتخابات کے بعد چاروں صوبائی اسمبلیوں نے پرویز مشرف کے مواخذے اور محاسبے کا یک زبان ہو کر مطالبہ کردیا۔بلوچستان اسمبلی میں پیش کی جانے والی چارج شیٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ جنرل مشرف نے اپنے دور اقتدار میں سینکڑوں بلوچوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ اکبر بگٹی کے قتل پر بھی بلوچ‘ مشرف کو ہرگز معاف کرنے پر تیار نہیں۔ مشرف دور میں ایک سانحہ یہ بھی ہوا کہ پاکستانیوں کو امریکی مطالبے پر اس کے حوالے کردیا گیا۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی اب تک امریکہ کی جیل میں بدترین اسیری کا وقت گزار رہی ہیں۔ مشرف دور میں پاکستان کی سلامتی‘ عزت اور غیرت کا سودا کیا گیا۔ موصوف خود تسلیم کرتے ہیں کہ ڈرون حملوں کی اجازت انہوں نے دی۔ پاکستان کی سرزمین کو اپنے ہی لوگوں کے خلاف استعمال کرنے کی شرمناک اجازت مشرف نے دی۔ یوں اپنے اس حلف کی وفاداری سے بھی غداری کی جو وطن کی حفاظت کا مقدس فریضہ سر انجام دینے والا فوجی اپنے آپ سے کرتا ہے۔ وردی کا زعم اوراقتدار کو طول دینے کی ہوس نے مشرف کو اپنے انجام سے بے خبر کردیا تھا۔ وہ خواہش کے راستے پر توازن کے دائرے میںنہ رہ سکا۔ ہر راستہ اپنی منزل کی طرف جاتا ہے۔غلط سمت کی جانب جانے والے راستے کے سامنے بند گلی ضرور جاتی ہے۔ جنرل (ر) پرویز مشرف بھی اب اسی بند گلی میں پہنچ چکے ہیں۔اب انہیں اپنے کیے کے نتائج بھگتنا ہوں گے۔ میں نے پہلے بھی طاقت اور ہوس اقتدار کے نشے میں غرق اسی فوجی آمر کاایک کالم میں انگریزی ادب کے لافانی کردار ڈاکٹر فاسٹس سے موازانہ کیا تھا۔ یہ کردار کرسٹوفرمارلو کے ڈرامے کا ہے۔ اس ڈرامے کی مختصر کہانی یہ ہے کہ ڈاکٹر فاسٹس ایک جرمن سکالر ہے جو مذہب، قانون، میڈیسن، فلسفہ سمیت دنیا کے کئی علوم کا ماہر ہے مگر اس کے باوجود وہ اپنی ذات سے مطمئن نہیں۔ وہ انسانی حدود و قیود سے نالاں‘ خود کو انسان سے کچھ زیادہ سمجھ کر اس خواہش میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ وہ ماورائی طاقت حاصل کرے۔اس مقصد کے لیے اسے ایک شیطان کے ساتھ معاہدہ کرکے اپنی روح اس کے ہاتھ بیچنا پڑتی ہے۔ اس طرح 24 سال کے لیے وہ ماورائی طاقت حاصل کرلیتا ہے۔ اس کے اندر سپر ایگو(Super Ego) جنم لیتی ہے۔ جب کبھی نیکی کا فرشتہ اسے سمجھانے آتا ہے تو وہ اس کی باتوں کو ہوا میں اڑا دیتا ہے۔ ڈاکٹر فاسٹس طاقت کے خمار میں گم ہے۔ سچ جھوٹ‘ صحیح غلط‘ اندھیرے اجالے کی ہر تمیز اس کے اندر سے ختم ہوچکی ہوتی ہے اور اس خمار میں گم وہ جو چاہتا ہے کرتا پھرتا ہے۔ بدی کی طاقتیں اسے یقین دلاتی ہیں کہ تمہاری طاقت لازوال ہے۔ مختصر یہ کہ 24سال کا طویل عرصہ بالآخر گزر جاتا ہے۔ آخری رات باقی ہے۔ اس کے بعد ڈاکٹر فاسٹس کو اپنے المناک انجام سے دوچار ہونا ہوتا ہے۔ اس رات کے آخری گھنٹے میں وہ بے بسی کی تصویر نظر آتا ہے۔ وہ بے چارگی سے دعا کرتا ہے کہ یہ آخری گھنٹہ صدیوں پر محیط ہوجائے، گھڑی کی سوئیاں رک جائیں‘ سورج اور چاند کی گردش ٹھہر جائے۔ لیکن وقت کہاں ٹھہرتا ہے۔ آخری لمحہ بھی گزر جاتا ہے۔ ڈاکٹر فاسٹس جس نے اپنی روح شیطان کو بیچ رکھی تھی وہی شیطانی طاقتیں اسے گھسیٹتے ہوئے جہنم میں ڈال دیتی ہیں۔ مشرف کے انجام کو دیکھیں تو کرسٹو فرمارلو کا یہ شاہکار کردار جیتا جاگتا دکھائی دیتا ہے۔ ہوس اقتدار اور اپنے مفادات کے حصول کی خواہش میں مشرف نے بھی اپنی روح شاطر عالمی طاقتوں کے ہاتھ گروی رکھ دی تھی۔ پھر وہی ہوتا رہا جو عالمی طاقتیں کہتی تھیں۔ بے نظیرکا قتل، عافیہ صدیقی کی بے رحمانہ اسیری، ڈرون حملوں کا عفریت… اس قوم کے جسم پر تو اتنے زخم ہیں جن کا شمار ممکن نہیں۔ مشرف کو اس ملک سے سیف ایگزٹ دیا گیا تھا۔ وہ اپنی لوٹی ہوئی دولت کے ساتھ بیرون ملک عیش کی زندگی گزار سکتے تھے لیکن شاید کچھ آہیں‘ کچھ ان کہی بددعائیں‘ بے گناہوں کا لہو‘ بے بسوں کی فریاد‘ اور پھر اس دھرتی کی آواز فوجی آمر کو واپس لے آئی ہے۔ یوں صیاد خوداپنے دام میں آگیا ہے۔ اب حالات بالکل مختلف ہیں۔ مشرف گرفتار ہوچکے ہیں۔ ملک کی تاریخ میں پہلی بار سابق چیف آف آرمی سٹاف کو گرفتار کیا گیا۔ ابھی تو ابتدا ہے۔ مشرف کو اپنی سب خطائوں کا حساب دینا ہوگا۔ ایک طویل آئینی اور عدالتی عمل سے گزرنا ہوگا۔ جرم ثابت ہونے پر قید بھگتنا ہوگی۔ ایک ملزم کی حیثیت سے پولیس کی تحویل میں افسردہ بیٹھے ہوئے مشرف کو شاید اپنے لہجے کا گھمنڈ یاد آتا ہوگا اور شاید اپنی بے لگام ہوسِ اقتدار پر اب پچھتاوا ہوتا ہوگا۔ اب وہ زیر لب منیر نیازی کا یہ شعر گنگنائیں : میری ہی خواہشیں باعث ہیں میرے غم کی منیرؔ عذاب مجھ پہ نہیں حرفِ مدعا کے سوا! اس لیے کہ ہر عمل کا ایک ردعمل ہوتا ہے اور ہر راستہ انجام کی طرف جاتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved