واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میںسزائے قید کاٹنے والے میاں نواز شریف لندن جانا چاہتے ہیں‘ جہاں وہ اپنا علاج کرا سکیں۔ اس سلسلے میں ان کی خواہش پر دو تین مرتبہ انہیں لاہور کے بہترین ہسپتالوں میں لے جایا گیا‘ ان کیلئے بہترین کمروں کا انتخاب کیا گیا لیکن وہ چونکہ تین مرتبہ اس ملک کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں اس لئے انہیں خدشات ہوتے ہیں کہ ہسپتال کے جن کمروں میں انہیں رکھا جا ئے گا انہیں حکومت کی چند ایک ایجنسیوں نے ان کے وہاں آنے سے پہلے مکمل طور پر انتہائی محفوظ طریقوں سے آڈیو اور ویڈیو ریکارڈنگ کیلئے ''بگ‘‘ کر لیا ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ جناح ہسپتال میں جب انہیں تین کمروں پر مشتمل حصے میں لایا گیا تو انہوں نے وہاں رہنے سے انکار کر تے ہوئے '' گائنی وارڈ‘‘ میں رہنے کو ترجیح دی۔ شاید انہیں ریکارڈنگ کا وہی شک تھا۔ میاں صاحب کو یہ شکوک بھی لاحق رہتے ہیں کہ ڈاکٹروں کا جو بورڈ ان کا چیک اپ کر رہا ہے اس کی مکمل ریکارڈنگ ایجنسیاں محفوظ کر رہی ہیں؟ میاں نواز شریف جانتے ہیں کہ ان کے پاس جرمنی کی تیار کردہ ایک انتہائی بیش قیمت ایسی گھڑی ہے جسے ہر وقت وہ اپنے ہاتھ پر باندھے رکھتے تھے اس گھڑی کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ کمرے میں بیٹھے ہوئے جو چاہے گفتگو کریں اس گھڑی کے اندر ایسے چھوٹے چھوٹے آلات ہیں جو ریکارڈنگ یا ویڈیو بنانے والے کسی بھی جگہ نصب تمام مواصلاتی ذرائع کوناکارہ کر دیتے ہیں۔ اگر تو ان کے پاس ا س وقت وہ گھڑی نہیں ہے تو ان کے خدشات بجا ہیں لیکن اگر یہ گھڑی ان کے پاس موجو دہے یا جب بھی ان سے ملنے کیلئے مریم صفدر آتی ہیں تو ان کے پاس بھی اس قسم کی گھڑی کا ہونا ناممکن نہیں کیونکہ اپنی گفتگو کی ایجنسیوں سے ممکنہ ریکارڈنگ جیسے معاملات میں میاں صاحب ہمیشہ سے ہی بہت محتاط رہتے چلے آ رہے ہیں۔
ریکارڈنگ کے علا وہ بھی کچھ خدشات یا وجوہات ہو سکتی ہیں جومیاں نواز شریف کو اپنا علاج پاکستان کے کسی اچھے اور مستند ڈاکٹروں سے کرانے سے روک رہی ہوں۔ شاید وہ نہیں چاہتے کہ ان کی جسمانی تکلیف یا بیماری کے حقائق پاکستان میں کسی بھی جگہ دیکھے جا سکیں یا پاکستان میں ان کے کسی بھی میدان کے حریف ان کی جسمانی کمزوری اور بیماری سے واقف ہوجائیں۔ لیکن دوسری جانب یہ پہلو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتاکہ ممکن ہے پاکستان کا بڑے سے بڑا ڈاکٹر کسی خوف کی وجہ سے ان کی سرجری یا انجیو گرافی جیسے عمل سے بچنا چاہتا ہو۔ کچھ ایسے لوگ جو ان کے علاج اور چیک اپ سے متعلق ہیں‘ ان میں سے چند ایک کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی یہ رسک لینے کو تیار نہیں کہ اس کے ہاتھ سے میاں نواز شریف کی انجیو گرافی ہو۔ سب اپنی اپنی جگہ پر کسی انجانے اور ممکنہ خوف سے گھبرائے رہتے ہیں ‘اس لئے جب کوئی بھی ڈاکٹر ان کے کسی بھی آپریشن یا انجیو گرافی کیلئے تیار نہیں ہو رہا تو پھر اس کا ایک ہی علاج ہے کہ میاں نواز شریف کو پاکستان سے باہر علاج کیلئے جانے کی اجازت دے دی جائے اور اس کیلئے اسی طرح حسین اور حسن نواز شریف میں سے کسی ایک کو بطور ضمانت پاکستان بھیج دیا جائے جیسے جدہ جانے کے معاہدے کے بعد شریف خاندان کے سب لوگ سوائے حمزہ شہباز شریف کے پاکستان سے دس سال کیلئے اپنے کئے گئے معاہدے کی رو سے جلا وطن ہو گئے۔اگر میاں نواز شریف کی صحت واقعی اس قابل نہیں کہ انہیں جیل میں رکھا جائے‘ اگر ان کا خاندان چاہتا ہے کہ میاں نواز شریف کاغیر ملکی ڈاکٹروں سے علاج کرایا جائے‘ اگر ان کی خواہش ہے کہ میاں نواز شریف کا علاج لندن کے ہارلے سٹریٹ کے اسی ہسپتال سے کرایا جائے جہاں سے وہ پہلے دل کے بائی پاس آپریشن جیسے مرحلے سے گزر چکے ہیں تو میرے خیال میں انہیں کچھ شرائط تسلیم کرنا ہوں گی۔
اگر وہ جرمانہ ادا کر دیا جائے جو عدالت نے ان پر عائد کیا ہے‘ ان کی وہ جائیداد بحق سرکار ضبط کر لی جائے جس کا حکم احتساب عدالت نے اپنے فیصلے میں دیا ہے تو اس کیلئے ممکنہ طور پر ان کی ضمانت کہہ لیں یا پیرول پر کہہ لیں کچھ عرصے کیلئے رہائی کا حکم دیا جا سکتا ہے‘ تاکہ وہ اپنا بہتر علاج کرا سکیں۔ میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کیلئے یقینادولت سے بڑھ کر ان کی زندگی ہو گی‘ ان کی بہتر صحت ہو گی اس لئے شریف فیملی کو حکومت کے سامنے یہ پیشکش رکھنے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہئے کیونکہ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے خلاف قائم کئے گئے پانامہ سمیت تمام مقدمات جھوٹ کا پلندہ ہیں تو یقیناسپریم کورٹ میں ان کی زیر سماعت اپیلوں کا فیصلہ قانون کے مطا بق ہو گا اور قانون میں تو لکھا ہی یہ ہے کہ کسی بے گناہ کو کسی بھی جرم میں ایک لمحے کی سزا بھی نہیں دی جا سکتی۔ اس سے پہلے میاں نواز شریف کو تجربہ ہو چکا ہے جب چیف جسٹس افتخار چوہدری کے دور میں انہیں ہیلی کاپٹر کیس اور جنرل مشرف کے ہوائی جہاز والے مقدمات میں سنائی گئی سزائوں کو ختم کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ ہے۔ تیسری بار بھی وزیر اعظم منتخب ہو گئے‘ جس کیلئے پی پی پی کے آصف علی زرداری نے اپنی حکومت بننے کی شرط پر پارلیمنٹ سے اس شق کو ختم کرایا جس کے تحت ان کے تیسری مرتبہ وزیر اعظم کا انتخاب لڑنے پر آئین کے تحت پابندی عائد تھی؟۔یہ کوئی کم سہولت تو نہیں تھی کہ ان کی خوشی کیلئے آئین میں ترمیم کر الی گئی ۔
اب سب دیکھ رہے ہیں کہ میاں نواز شریف جیل میں رہنے پر اصرار کئے جا رہے ہیں جبکہ حکومت انہیں لاہور کے کسی بھی اچھے ہسپتال میں بھیجنے کیلئے تیار ہے۔ اس کا ایک حل تو اوپر دیا جا چکا ہے لیکن کسی کیلئے اس پر عمل کرنا ممکن نہیںتو پھر ایک اور راستہ دکھایا جا سکتا ہے کیونکہ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ دنیا میں کسی بھی قسم کے مشکل یا پیچیدہ مسئلے کا کوئی حل نہ ہو... وزیر اعظم عمران خان کو چاہئے کہ میاں صاحب کو ان کے ذاتی شریف کمپلیکس یا اتفاق ہسپتال میں داخل کر دیا جائے جہاں تمام ڈاکٹر ان کی مرضی کے ہیں ‘جہاں کے ڈاکٹر کی رپورٹس کے مطا بق ان کی صحت بہتر نہیں اور انہیں فوری طور پر انجیو گرافی یا کسی بہتر قسم کے علاج کی فوری ضرورت ہے۔
میری تجویز یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کو چاہئے کہ وہ فوری طور پر میاں نواز شریف کو شریف کمپلیکس منتقل کرنے کی پنجاب حکومت کودرخواست کریں اور میاں نواز شریف اپنے ہی ہسپتال میں اپنے ہی ڈاکٹروں سے پوری راز داری کے ساتھ اپنا بہتر اور محفوظ علاج کر اسکیں ‘کیونکہ ان ڈاکٹروں کو تو ان کی بیماری اور جسمانی صورتحال کے بارے مکمل آگہی ہے۔ یہ دو منا سب طریقے ہیں ایک میاں نواز شریف کو لندن بھیجتے ہوئے ان سے جرمانے کی ادائیگی یا حسن یا حسین نواز شریف کی صورت میںضمانت لی جا ئے یا پھر انہیں ان کی مرضی سے اتفاق ہسپتال یا شریف میڈیکل سٹی میں منتقل کر دیا جائے تاکہ وہ اپنی خواہش کے مطا بق اپنے ہی ڈاکٹروں سے اپنے ہی ہسپتالوں میں علاج کرا سکیں۔