اس میں کوئی شک نہیں کہ پلوامہ حملے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے جو اقدامات بھی کئے، ان سے نہ صرف جنگ کا خطرہ ٹلا بلکہ دُنیا بھر میں ایک ریاست کے طور پر پاکستان کا اور ایک سربراہِ حکومت کے طور پر عمران خان کا امیج بلند ہوا۔ پاکستانی افواج نے جن دفاعی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا، اور ہماری فضائیہ نے جس طرح ایک بار پھر اپنی برتری ثابت کی، اس کا اعتراف دُنیا بھر میں کیا گیا۔ غیر جانبدار مبصرین اور تجزیہ کار بھارتی حکومت اور اس کے فوجی ترجمانوں کے دعووں کو مضحکہ خیز قرار دیتے رہے، اور ایک بار پھر بھارت کے بلند بانگ دعووں کا پول کھل گیا۔ وزیراعظم عمران خان کی خوش نصیبی سمجھئے یا پاکستانی قوم کی کہ بھارت کا ہر وار اوچھاپڑا، اور پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں کا دوست، دشمن سب کو اعتراف کرنا پڑا... وزیراعظم نے جس طرح بھارت کے گرفتار ہَوا باز ابھی نندن کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا، اس نے بھی ان کی امن پسندی کو اُجاگر کیا۔ پارلیمنٹ میں جب یہ اعلان کیا گیا کہ ابھی نندن کو رہا کر دیا جائے گا، تو کسی سیاسی جماعت نے اس کی مخالفت نہیں کی، تالیاں بجا کر اس کا خیر مقدم کیا گیا، بعد میں البتہ بعض حلقوں کی طرف سے اسے جلد بازی قرار دیا جانے لگا، اور بعض انتہا پسند مبصر گلا پھاڑ پھاڑ کر اس فیصلے میں کیڑے ڈالنے لگے۔
ابھی نندن کو روکا جاتا یا کسی سودے بازی کا ذریعہ بنایا جاتا، تو پاکستان عالمی رائے عامہ کے سامنے اس طرح پورے قد سے نہ کھڑا ہو پاتا، جس طرح آج کھڑا ہے، یقینا اس اقدام سے وزیراعظم عمران خان کا قد بھی بڑھا، اور یہ تاثر گہرا ہوا کہ وہ کرکٹ ہی کے فاتح نہیں ہیں، سیاست اور تدبر کے میدان میں بھی چھکے لگا سکتے اور مخالفوں کے چھکے چھڑا سکتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے ایک اور بڑی کامیابی اُس وقت حاصل کی، جب انہوں نے ہندو برادری پر اوچھی تنقید کرنے کی پاداش میں اپنی پنجاب حکومت کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان کو وزارت سے نکال باہر کیا۔ فیاض الحسن چوہان کی سیاست کا آغاز قاضی حسین احمد مرحوم کے سائے میں قائم کی جانے والی مجلس شباب ملی سے ہوا تھا۔ یہ تنظیم نوجوانوں کو جارحانہ سیاست کے مواقع فراہم کرنے کے لئے قائم کی گئی تھی، جس سے راولپنڈی کے اس نوجوان نے بھی بھرپور فائدہ اٹھایا۔ متحدہ مجلس عمل کا ٹکٹ لے کر 2002ء کے انتخابات میں پنجاب اسمبلی کی رکنیت تک حاصل کر لی۔ کچھ عرصے بعد چودھری پرویز الٰہی کی مسلم لیگ(ق) نے ان صاحب کو اچک لیا۔ مسلم لیگ(ق) کا سورج ڈھلا تو صاحب تحریک انصاف میں شامل ہو گئے، اور وہاں ان کے جوہر مزید کھلے۔ شدید ترین الفاظ کے استعمال میں وہ مہارت حاصل کرتے چلے گئے، اور عمران خان کے ''چیتے‘‘ کے طور پر اپنا اعتراف کرا لیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نئی جماعت میں کئی سال انہوں نے پسینہ بہایا، 2018ء کے انتخابات میں پھر پنجاب اسمبلی پہنچ کر وزارت کے مستحق قرار پائے، لیکن وزیر بن کر اپوزیشن کا لہجہ برقرار رکھا، لفظوں کے تیر چلائے، اور بزعم خود چھید پر چھید کرتے رہے۔ سیاسی کے ساتھ ساتھ صحافتی حلقوںکو بھی ان کی تیر اندازی چرکے لگاتی رہی۔ ثقافتی دائرے میں بھی ان کی بے احتیاطی فراٹے بھرتی رہی۔ یہاں تک کہ وہ ہندو کمیونٹی پر حملہ آور ہو گئے۔ اس پر قومی اسمبلی میں بھی احتجاج ہوا، اور میڈیا میں بھی۔ الفاظ اتنے غیر محتاط تھے کہ کسی ٹی وی چینل کو انہیں دہرانے یا دکھانے کا حوصلہ نہ تھا، تحریک انصاف بھی ان کی تاب نہ لا سکی، اور وزیراعظم عمران خان کو براہِ راست اقدام کرکے استعفیٰ طلب کرنا پڑا۔ وزیر موصوف اس حقیقت کو بھلا بیٹھے، اور ان کی طرح کے کئی اور جنگجو بھی اسے نظر انداز کر دیتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان معاملہ دو ملکوں کے درمیان ہے، دو مذہبوں کے درمیان نہیں۔ بھارت میں جو مسلمان بستے ہیں، وہ اس کے شہری ہیں، اور پاکستان میں جو ہندو، سکھ اور مسیحی بستے ہیں، وہ اس ریاست کے شہری کے طور پر انہی حقوق کے حقدار ہیں، جو مسلمانوں کو حاصل ہیں۔ ریاست اپنے شہریوں کے معاملے میں جانبدار نہیں ہو سکتی، پاکستانی پرچم کا سفید حصہ اس حقیقت کا اعتراف کرتا، اور اسے اعزاز سمجھتا ہے۔ برصغیر کی تقسیم ایسے نہیں ہوئی تھی کہ تمام مسلمان ایک جغرافیائی حدود میں جمع ہو جائیں، اور تمام ہندو (اور دوسرے غیر مسلم) دوسری جغرافیائی حدود میں اکٹھے کر دیئے جائیں۔ دونوں ممالک میں کروڑوں مسلمانوں اور غیر مسلموں کو آباد رہنا تھا، اور وہ آباد ہیں۔ اس لیے پاکستانی ریاست کے کسی وزیر کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ اپنے ہندو ہم وطنوں کے لیے غلیظ الفاظ استعمال کرے۔ کوئی غیر سرکاری شخصیت غیر محتاط الفاظ ادا کر دے تو اس کا معاملہ مختلف ہو گا، اگرچہ کہ پسندیدہ نہیں، لیکن اگر کسی حکومتی ذمہ دار کی زبان غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرے تو اس کا پیغام اور نتیجہ یکسر مختلف ہے۔ بہرحال اس شر میں سے خیر یہ برآمد ہوا کہ وزیراعظم عمران خان نے میدانِ تدبر میں ایک اور جھنڈا گاڑ دیا۔ بھارت میں کشمیری اور بھارتی رہنمائوں نے اس اقدام کا موازنہ مودی سرکار کی مسلم اور دلت دشمنی سے کرکے اسے مزید شرمندہ اور رسوا کیا۔ دُنیا بھر میں پاکستان اور اس کے وزیراعظم کی روشن خیالی کا چرچا ہوا۔
بات ذرا طویل ہو گئی، عرض یہ کرنا مقصود تھا کہ وزیر اعظم عمران خان نے بحرانی دور میں ایک ذمہ دار اور باوقار رہنما کے طور پر اپنے آپ کو منوایا۔ اپوزیشن کے ساتھ بھی معاملات بہتر کیے، اور اس کو ساتھ ملا کر ایک آواز بلند کیے رکھی۔ بھارت کے مقابلے میں یہ ایک مختلف منظر تھا، لیکن جونہی جارحانہ فضا ٹھنڈی پڑی ہے، حکومت اور اپوزیشن کے درمیان پھر تلواریں نکل رہی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے بارے میں یہ کہنے والے کم نہیں ہیں کہ وہ اپنے داخلی حریفوں کے ساتھ وسعت قلبی کا مظاہرہ نہیں کر پا رہے، اینکروں میں ممتاز منصور علی خان نے تو برملا کہا ہے کہ ہمیں دو نہیں ایک عمران خان چاہیے۔ جس طرح خان صاحب کہا کرتے تھے، اور شاید اب بھی کہتے ہیں کہ دو نہیں، ایک پاکستان ان کو مطلوب ہے۔ ایسا پاکستان جس میں غریبوں اور امیروں کے ساتھ ایک سا سلوک ہو، اسی طرح عمران خان صاحب بھی ایک ہی مطلوب ہیں۔ ان سے یہ تقاضہ کیا جا رہا ہے کہ اپنی شخصیت کو دو حصوں میں نہ بٹنے دیں۔ بھارتی وزیر اعظم مودی کو یکطرفہ ٹیلیفون کرکے داد وصول کرنے پر اکتفا نہ کریں، اپنے داخلی حریفوں کو بھی ''پیس آفینسو‘‘ کا ہدف بنائیں۔ ان کی طرف بھی خیر سگالی کا ہاتھ بڑھائیں، ان کی عزت کریں اور ان سے عزت کرائیں۔ اس کے لیے ایک فوری اقدام تو یہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ سابق وزیراعظم نواز شریف کی بیماریٔ دِل کا ''سوو موٹو‘‘ لیں، اور انہیں علاج کے لئے لندن بھجوانے کا انتظام کریں۔ اس کے لیے انہیں کسی اور کا دروازہ کھٹکھٹانے کی ضرورت نہیں۔ دستور کی دفعہ 45 کے تحت صدرِ مملکت کو (وزیر اعظم کے مشورے پر) کسی بھی سزا کو ختم، معطل یا کم کرنے کا اختیار ہے، اس دفعہ کو بروئے کار لاتے ہوئے نواز شریف صاحب کی سزا معطل کی جا سکتی ہے، اور انہیں علاج کے لیے باہر جانے کا موقع دیا جا سکتا ہے... یقین کریں اگر اس وسعت قلبی کا مظاہرہ کر دیا جائے تو پاکستانی سیاست کا منظر یک لخت بدل جائے گا، تنائو اور الجھائو کی کیفیت ختم ہو گی، اور پُرسکون ماحول میں ایسے تمام فیصلے کیے جا سکیں گے، نفسانفسی اور افراتفری کے ماحول میں جن کی شاید جرأت نہ کی جا سکے۔ انتخابی مہم کا لہجہ اپنانے کیلئے 2023ء تک انتظار کیا جا سکتا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری کا شکریہ
بلاول بھٹو زرداری کا شکریہ ہم پر یوں واجب ہے کہ انہوں نے پاکستان کے ممتاز دانشور اور کالم نگار جناب سعید اظہر کی علالت کے دوران، خصوصی توجہ کی۔ ان کی مزاج پرسی کے لیے بیرسٹر عامر حسن کو خصوصی طور پر ان کے پاس بھیجا، اور اس کے ساتھ ہی ساتھ ان کے علاج پر اُٹھنے والے اخراجات میں بھی ہاتھ بٹایا،... یہ رویہ یہ اچھی خبر دے رہا ہے کہ بلاول ایک حسّاس دِل رکھتے ہیں، اخوت اور محبت کی روایات کی حفاظت کا جذبہ اور حوصلہ ان کے اندر وافر مقدار میں موجود ہے۔ ایک بار پھر ان کا شکریہ کہ سعید اظہر کسی ایک ادارے یا شعبے کی نہیں قومی صحافت کی عزت ہیں۔ ان کا اعتراف ہم سب اہلِ صحافت کے لیے باعث اعزاز ہے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)