تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     10-03-2019

سُرخیاں‘ متن اور ’’تشویش‘‘

حکومت نواز شریف کی جان سے کھیل رہی ہے: خورشید شاہ
پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے کہا ہے کہ ''حکومت نواز شریف کی جان سے کھیل رہی ہے‘‘ حالانکہ نواز شریف اپنے علاج سے انکار کر کے جو خود اپنی جان سے کھیل رہے ہیں‘ وہی کافی ہے اور حکومت کو یہ تکلف روا رکھنے کی ضرورت ہی نہیں تھی اور ہمارے سیاسی کیریئر کے ساتھ جو کھلواڑ کر رہی ہے‘ وہ بھی سرا سر زیادتی ہے‘ کیونکہ کسی کی جمع پونجی پر نظر رکھنا بجائے خود انتہائی نامناسب ہے اور عمر بھر کی محنت پر پانی پھیرنے کے مطابق ہے اور جب سے ملک میں بارشوں کا زور بندھا ہے اور پانی کثرت سے دستیاب ہے‘ تب سے ہی حکومت یہ پانی ہماری محنت پر زیادہ پھیر رہی ہے‘ جبکہ خاکسار کی فائلیں کبھی کھولی اور کبھی بند کر دی جاتی ہیں اور کھول کھول کر بند کرنے اور پھر کھولنے سے اس کا مقصد صرف میرا خون خشک کرنا ہے جو کہ اس عمر میں پہلے ہی خاصا مخدوش حالت میں ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
بلاول کی انگریزی کسی کو سمجھ نہیں آتی: عمران خاں
وزیراعظم عمران خاں نے کہا ہے کہ ''بلاول کی انگریزی کسی کو سمجھ نہیں آتی‘‘ اگرچہ انگریزی تو میری بھی کسی کی سمجھ میں نہیں آتی‘ لیکن میں چونکہ ملک کا وزیراعظم ہوں ‘اس لیے میری بات کا سمجھ میں آنا کوئی خاص ضروری بھی نہیں‘ بلکہ میری اپنی کوشش بھی یہی ہوتی ہے کہ میری بات لوگوں کے سر سے ہی گزر جائے ؛چنانچہ اپنی بات کے ساتھ میرا دھیان اس بات پر بھی رہتا ہے کہ میری بات کہیں سر سے گزرتے وقت لوگوں کے دماغ میں نہ گھس جائے‘ جبکہ میرے وزراء کی باتیں سُن کر لوگ سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں اور سر کو پکڑنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ سر کہیں اِدھر اُدھر نہ ہو جائے‘ اس لیے ضروری ہے کہ سر کو مضبوطی سے پکڑے رکھا جائے کہ اس سے دردِ سر میں بھی اضافہ ہوتا ہے‘ اس لیے ضروری ہے کہ طرح طرح کی سردردیوں سے بھی بچ کر رہا جائے اور اقتدار کا سارا مزہ سردردیوں ہی کی نذر نہ کر دیا جائے۔ آپ اگلے روز تھرپار میں جلسۂ عام سے خطاب کر رہے تھے۔
قوم معیشت تباہ کرنے والوں کو معاف نہیں کرے گی: رانا تنویر حسین
مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما رانا تنویر حسین نے کہا ہے کہ ''قوم معیشت تباہ کرنے والوں کو معاف نہیں کرے گی‘‘ تاہم قوم کو انہیں معاف کرنا ہی پڑے گا ‘کیونکہ مقدمات کی بھرمار کی وجہ سے یہ حضرات پہلے ہی بہت پریشان اور قابلِ معافی ہیں‘ نیز انہوں نے معیشت کو جان بوجھ کر تباہ نہیں کیا اور تباہ ہونے میں معیشت کا اپنا قصور بھی ہے اور اگرچہ یہ لوگ معیشت سے خود بھی استفادہ کر رہے تھے اور اسی سلسلے میں کافی ساری معیشت ملک سے باہر بھی چلی گئی تھی‘ لیکن زندہ قومیں روپے پیسے کی محتاج نہیں ہوتیں اور انہیں پاؤں کی نوک پر رکھتی ہیں‘ جس کی وجہ سے ان معززین کے پاؤں کی نوک معیشت کے اس بوجھ سے تقریباً دُہری ہو چکی ہے‘ جسے سیدھا کرنے کی کسی کو فکر نہیں ہے؛حالانکہ اُلو سیدھا کرنے والے ہر جگہ موجود ہیں اور اس تردد کی بجائے کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ وہ اپنے اُلو کو ٹیڑھا ہونے ہی نہ دیں۔ آپ اگلے روز میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
''تشویش‘‘
خاکسار کا تازہ مجموعۂ غزل رنگِ ادب پبلی کیشنز کراچی نے چھاپا ہے۔ اس میں حسبِ معمول 121غزلیں شامل ہیں۔ پسِ سرورق مبین مرزا کے قلم سے ہے‘ جس میں وہ لکھتے ہیں(دروغ بر گردن راوی) :'' بیسویں صدی کے دوسرے نصف سے لے کر اکیسویں صدی کی ان دو دہائیوں تک اُردو شعری منظر نامے پر نگاہ کیجئے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ظفر اقبال نے حیرت زا تخلیقی فعالیت کا اظہار کیا ہے۔ ایک مسلسل اور ہمہ وقت سرگرمی‘ جسے بیک وقت دو سطحوں پر محسوس کیا جا سکتا ہے؛ ایک فنکار کی انفرادی تخلیقی جُستجو کی سطح پر اور دوسرے اس کے عصری ادبی رویوں کے بدلتے بگڑتے اور بنتے تناظر میں۔ انفرادی سطح پر ظفر اقبال کے کام کی اہمیت کا ایک رُخ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے شعری عمل میں تجربے کی اس جرأت کا اظہار کیا‘ جو عوام تو کیا خواص کے باب میں بھی باید و شاید کا حکم رکھتی ہے۔ ان کے یہاں یہ جرأت کسی اضمحلال کے بغیر پوری قوت کے ساتھ نصف صدی میں روبہ کار نظر آتی ہے۔ اس کی ادبی وقعت اور شعری معنویت پر ضرور بحث ہو سکتی ہے‘ بلکہ ہونی چاہیے کہ فکری متانت اور فنکارانہ اخلاص کے ساتھ بحث یا اختلاف تو ادب و شعر کیلئے نیک شگون ہوتا ہے‘ تاہم یہ کام جس ہمت اور تسلسل سے ظفر اقبال نے کیا ہے ‘اُس کا اعتراف نہ کرنا زیادتی کے مترادف ہوگا۔ بعد ازاں ادب کے عصری و اجتماعی تناظر میں اس کام کا مطالعہ اس زاویے سے کیا جائے کہ اندازِ نظر اور ذوق کی تبدیلی کے ضمن میں یہ کیا کردار ادا کرتا آیا ہے‘ تو اس کی قدر و قیمت کا دوسرا رُخ سامنے آتا ہے۔ عصری شعری زبان‘ مزاج اور اسلوب (بالخصوص غزل) کو دیکھتے ہوئے یہ تو خیر نہیں کہا جا سکتا کہ پیراڈائم شفٹ ہو چکا ہے‘ لیکن گزشتہ پون صدی میں اپنی غزل کے رنگ و آہنگ میں ؛اگر ہمیں کسی درجے کی قابلِ لحاظ تبدیلی محسوس ہوتی ہے تو اس میں ایک حصہ ظفر اقبال کی کاوشوں کا بھی ہے۔ ظفر اقبال اس وقت بھی تخلیقی سطح پر فعال ہیں اور جواں سال لوگوں سے زیادہ سرگرم۔ ان کے بارے میں سہولت سے نتائج فکر کا اظہار نہیں کیا جا سکتا‘ لیکن اتنی بات تو بلاخوف ِتردید کہی جا سکتی ہے کہ انہوں نے ہماری تنقید کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ اُن کی غزل کے تجربات اور ماحصلات کو اگر مکمل طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا تو پوری طرح رد بھی نہیں کیا جا سکتا۔ جیتے جی نامیوں کو بے نام کرنے والے اس عہد میں کسی تخلیق کار کا ادب و شعر کے برزخ میں یوں ٹھاٹھ سے ڈیرہ جما لینا کوئی معمولی بات تو نہیں ہے‘‘۔یہ 33 واں مجموعہ ہے {جو ابراہیم آفتاب کے نام ہے۔
آج کا مطلع
سکونِ دل بے سبب نہیں ہے
کہ پہلے کیا تھا جو اب نہیں ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved