تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     11-03-2019

شاہ جی کا لا حاصل ملال

سیاسی نابالغ سلمان نعیم کے جے ایف تھنڈر نے مخدوم شاہ محمود قریشی کی پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کا مگ 21 گرانا تھا سو گرا لیا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ سب کچھ محض اضافی ہے۔ قصہ یوں ہے کہ حلقہ پی پی 217 ملتان VII سے جنرل الیکشن 2018 میں شاہ محمود قریشی بذات خود امیدوار تھے۔ شاہ محمود قریشی صوبائی نشست پر قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 156 ملتان III سے بھی امیدوار تھے۔ ان کے مقابلے پر مسلم لیگ ن کی جانب سے سابقہ صوبائی وزیر جیل خانہ جات چوہدری عبدالوحید ارائیں کی نا اہلی کے باعث الیکشن سے آئوٹ ہو جانے کی وجہ سے ان کی اہلیہ تسنیم کوثر صاحبہ امیدوار تھیں۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے بھی خاتون امیدوار مقابلے میں تھیں، لیکن وہ تین میں تھیں اور نہ ہی تیرہ میں۔ اصل مقابلہ بالٹی کے نشان پر آزاد الیکشن لڑنے والے نو عمر بلکہ تب سرکاری اعتبار سے الیکشن کے لیے نابالغ امیدوار سلمان نعیم اور تحریک انصاف کے بہت بڑے ''تھم‘‘ یعنی ستون مخدوم شاہ محمود قریشی کے درمیان تھا۔
تب سلمان نعیم کی عمر پچیس سال نہیں ہوئی تھی۔ یہ بات میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ بات درست تھی یا غلط۔ کیونکہ میں اس کی تاریخ پیدائش کے بارے میں ذاتی طور پر لا علم ہوں تاہم کہا جاتا ہے کہ یہ وہ بات ہے جس کی بنیاد پر سلمان نعیم بعد ازاں نا اہل ہو گیا۔ پاکستان میں قومی یا صوبائی اسمبلی کا امیدوار ہونے کے لیے کم از کم عمر پچیس سال ہونا ضروری ہے۔ جس دن الیکشن کے کاغذات جمع ہوں اس روز اس عمر تک پہنچنا امیدوار کے لیے لازمی ہے تاہم جس روز کاغذات نامزدگی داخل ہوئے تب سلمان نعیم کی عمر اس درکار عمر سے معمولی سی کم تھی۔ اس بات کا سلمان نعیم کو بھی علم تھا کہ اس کی عمر الیکشن کے لیے درکار عمر سے کم ہے۔ اس نے اس کا حل یہ نکالا کہ عمر میں درستی کے لیے (پچیس سال کرنے کی غرض سے) نادرا میں اپلائی کر دیا اور عمر میں تبدیلی کے لیے جو بھی طریقہ کار ہے اس کے مطابق عمر میں درستی کروا کر نیا شناختی کارڈ بمطابق درست شدہ (اللہ جانے درست والی کونسی ہے مگر سلمان نعیم کے مطابق والی درست شدہ عمر) جاری کروا لیا اور پہلا شناختی کارڈ کینسل کروا دیا۔ قارئین! میرا خیال ہے ابھی فی الحال اس عمر اور دو شناختی کارڈوں والے مسئلے کو ایک طرف رکھتے ہیں اور الیکشن کی کہانی بیان کرتے ہیں۔
سلمان نعیم دراصل پی ٹی آئی کا بڑا متحرک ورکر تھا اور اس حلقے سے الیکشن لڑنے کے لیے پوری تیاریوں میں تھا۔ اس نے اپنے حلقے میں سیاسی اور سماجی کاموں کے لیے قائم دفتر کا نام بھی غالباً ''انصاف ہائوس‘‘ رکھا ہوا تھا۔ نوجوانوں کا ایک متحرک حلقہ اس کے ساتھ تھا لیکن ہوا یہ کہ شاہ محمود قریشی کے دل میں چیف منسٹر پنجاب بننے کا خواب بڑا پرانا تھا اور وہ اپنا یہ خواب پورا کرنا چاہتے تھے۔ لہٰذا وہ قومی اسمبلی کے ساتھ صوبائی اسمبلی کا الیکشن بھی لڑنا چاہتے تھے۔ اپنی الیکشن مہم کی آسانی کی غرض سے شاہ محمود نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 156 ملتان III سے‘ جہاں سے وہ قومی اسمبلی کے امیدوار تھے‘ کے ہی نیچے صوبائی حلقہ پی پی 217 سے الیکشن لڑنے کا ارادہ کر لیا۔ یہ وہ حلقہ تھا جہاں سے سلمان نعیم تحریک انصاف کی جانب سے الیکشن لڑنے کی تیاری کیے بیٹھا تھا لیکن ظاہر ہے سلمان نعیم جیسے نوجوان کی شاہ محمود جیسے بڑے لیڈر کے آگے کیا دال گلنا تھی۔ سو اس صوبائی حلقے سے شاہ محمود نے ٹکٹ اپنی جیب میں ڈال لیا اور سلمان نعیم کی جھنڈی ہو گئی۔
سلمان نعیم نے ہتھیار پھینکنے کے بجائے آزاد الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا اور بالٹی کے انتخابی نشان پر میدان میں اتر آیا۔ عام تاثر یہی تھا کہ سہ طرفہ انتخابی معرکے میں شاہ محمود قریشی جیت جائیں گے لیکن جوں جوں الیکشن کا دن نزدیک آتا گیا صورتحال واضح ہوتی گئی اور پھر وہی ہوا جس کا اندازہ تھا۔ نوجوان سلمان نعیم نے شاہ محمود قریشی کو ساڑھے تین ہزار سے زائد ووٹوں سے شکست دے کر جہاں ایک انتخابی اپ سیٹ کیا وہیں شاہ محمود قریشی کا پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا خواب بھی چکنا چور کر دیا۔ پھر یوں ہوا کہ الیکشن کے بعد شاہ محمود نے ایک تقریب میں کسی بھی ایسے شخص کی تحریک انصاف میں شمولیت کے امکان کو رد کر دیا جس نے الیکشن سے قبل ٹکٹوں کی تقسیم سے پہلے ٹکٹ نہ ملنے کی صورت میں آزاد حیثیت سے الیکشن نہ لڑنے کا حلف نامہ جمع کروایا تھا۔ لیکن اب ہونی کو کون ٹال سکتا ہے؟ الیکشن کے بعد صورتحال یہ ہوئی کہ تحریک انصاف کو ایک ایک ووٹ کی اشد ضرورت آن پڑی اور تب آزاد ارکان اسمبلی کو گھیر گھار کر لانے کا ٹاسک جہانگیر ترین کو ملا اور اپنا جہاز لے کر بندے ''ڈھونے‘‘ میں لگ گئے۔ خیر سے سلمان نعیم کو گھیرنا کیا تھا؟ وہ تو پہلے سے ہی پی ٹی آئی کا ورکر تھا لیکن ٹکٹ نہ ملنے پر آزاد الیکشن کے لیے کھڑا ہو گیا تھا۔ پہلے وہ جہانگیر ترین کے جہاز پر تو نہ گیا لیکن بہر حال بنی گالہ ضرور پہنچ گیا اور شاہ محمود قریشی کی تمام تر مخالفت کے باوجود وزیراعلیٰ پنجاب کا مشیر بھی بنا دیا گیا۔
پھر اس کے خلاف درخواست بازی اور مقدمے بازی شروع ہو گئی۔ شنید ہے کہ اس مقدمے بازی کے پیچھے بھی شاہ محمود قریشی کا دستِ شفقت کار فرما تھا۔ اس پر حیران نہیں ہونا چاہئے۔ سلمان نعیم نے شاہ محمود قریشی کی وزارت اعلیٰ کی خواہش کو جس طرح ناکام بنایا تھا‘ اس کے بعد شاہ محمود قریشی کا سلمان نعیم کی کامیابی کو چیلنج کرنا بنتا تھا۔ پہلے سلمان نعیم الیکشن کمیشن سے کم عمری اور دو شناختی کارڈوں کی بنیاد پر نا اہل ہوا اور بعد ازاں ہائی کورٹ نے اس کی اپیل یہ کہہ کر خارج کر دی کہ یہ اپیل کا درست فورم نہیں ہے۔ سلمان نعیم مناسب فورم پر اپیل دائر کرے۔
اب شنید ہے کہ سلمان نعیم نے مناسب فورم کا انتخاب کیا ہے اور اس کے نزدیک یہ مناسب فورم دوبارہ الیکشن لڑنے کا ہے۔ اس سارے رولے میں سلمان نعیم کی الیکشن کے لیے درکار پچیس سال عمر والی شرط پوری ہو گئی ہے اور اب وہ دوبارہ الیکشن لڑنے کے لیے تیاری پکڑ رہا ہے۔ اب یہ بات معلوم نہیں کہ وہ یہ الیکشن پی ٹی آئی کی طرف سے لڑے گا یا آزاد۔ یہ شک صرف اس بنیاد پر ہے کہ شاہ محمود قریشی کبھی بھی یہ نہیں چاہیں گے کہ اسے پی ٹی آئی کی ٹکٹ ملے۔ قریشی صاحب ایک بار دل میں کد رکھ لیں تو پھر آسانی سے دل صاف نہیں کرتے۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ سلمان نعیم کے مقابلے پر پی ٹی آئی کے پاس شاہ محمود قریشی سے بڑا ہیوی ویٹ تو اس حلقے میں موجود نہیں جسے وہ سلمان نعیم کے مقابلے پر لائے اور جتوا بھی سکے۔
اس سیٹ پر الیکشن والے دن تو جوڑ پڑے گا سو پڑے گا۔ ایک جوڑ اس سے پہلے بھی پڑے گا اور جہانگیر ترین اور جہانگیر ترین کا سارا وزن سلمان نعیم کے پلڑے میں ہوگا‘ حالانکہ شاہ جی الیکشن والی رات شاہ محمود قریشی کے ہارنے پر بڑے خوش تھے لیکن کچھ دن پہلے ملے تو کہنے لگے: ایمان سے اب پنجاب کی وزارت اعلیٰ پر نظر پڑتی ہے تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ اس سے تو ہزار گنا بہتر تھا کہ تب شاہ محمود قریشی ہی جیت جاتا۔ لیکن اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔
اس سیٹ پر الیکشن والے دن تو جوڑ پڑے گا سو پڑے گا۔ ایک جوڑ اس سے پہلے بھی پڑے گا اور جہانگیر ترین اور جہانگیر ترین کا سارا وزن سلمان نعیم کے پلڑے میں ہوگا‘ حالانکہ شاہ جی الیکشن والی رات شاہ محمود قریشی کے ہارنے پر بڑے خوش تھے لیکن کچھ دن پہلے ملے تو کہنے لگے: ایمان سے اب پنجاب کی وزارت اعلیٰ پر نظر پڑتی ہے تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved