وزیر اعظم کا دورہ لاہور روزِ اول سے ہی مختصر اور ہنگامی رہا ہے۔ اہم ترین‘ ناگزیر اور فوری نوعیت کے حامل امور عدم توجہی اور لاعلمی کی وجہ سے تاحال نظرانداز ہو رہے ہیں‘ جو آنے والے وقت میں حکومت کے لیے کڑی آزمائش کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔ گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان خاتون اول کے ہمراہ لاہور آئے تو پنجاب کے بڑے ہسپتالوں میں پناہ گاہیں بنانے کی منظوری دی۔ 1956 میں شہر لاہور کے مضافات میں سکندر مرزا کی بیگم ناہید سکندر مرزا کی خواہش پر پہلی پناہ گاہ قائم کی گئی تھی۔ جو حکومتی کوششوں کے باوجود آباد نہ ہو سکی۔ بعدازاں عین اسی جگہ ایک ہسپتال بنایا گیا جو بتدریج ایک بڑے ہسپتال میں تبدیل ہوتا چلا گیا آج اس ہسپتال کو ہم انسٹیٹیوٹ آف نیورو سائنسز یا جنرل ہسپتال کے نام سے جانتے ہیں۔ آٹھ سو سال قبل خاندانِ غلاماں نے بھی مسافروں‘ بے آسرا‘ بھکاریوں اور بے گھروں کے لیے سرائے تعمیر کرنے کا آغاز کیا تھا۔ اس زمانہ میں یہ اقدام طرز حکمرانی میں ایک جدید اضافہ قرار دیا گیا۔ اس کے بعد سلاطین دہلی اور مغلوں نے بھی اس روایت کو دوام بخشا۔
خاتون اول نے دورہ لاہور کے دوران گلاب دیوی ہسپتال کا دورہ کیا‘ مریضوں سے ان کے مسائل پوچھے اور ہسپتال میں صفائی کے انتظامات بہتر کرنے کی ہدایت کی۔ وہ اس حقیقت سے نا واقف ہیں کہ دیگر اداروں کی طرح ہسپتالوں میں صفائی سے زیادہ ''ہاتھ کی صفائی‘‘ پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ فنڈز فراہم کرنے والے ہوں یا فنڈز استعمال کرنے والے۔ اس کار ِبد میں سبھی کے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں۔ انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ تحریک انصاف کو برسر اقتدار آئے چھ ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن کسی وزیر اعلیٰ یا وزیر صحت نے یہ معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی کہ بیماروں پہ کیا گزرتی ہے؟ ہسپتالوں میں پناہ گاہیں ضرور بنائیے‘ تیمارداروں کے لیے ہسپتال میں سہولتیں ضرور ہونی چاہئیں‘اس کی اہمیت اور ضرورت سے قطعی انکار نہیں‘ لیکن خدارا پہلے ان ہسپتالوں کو حقیقی معنوں میں علاج گاہیں تو بنائیں۔ ان سرکاری ہسپتالوں میں ایسے ایسے مناظر جا بجا نظر آتے ہیں کہ مسیحائی کا تصور ہی دھندلا سا جاتا ہے۔
میرے لیے یہ امر انتہائی حیران کن اور تعجب کا باعث ہے کہ محترمہ ڈاکٹر یاسمین راشد‘ جن کی ساری عمر ہسپتالوں میں مریضوں کے درمیان گزری‘ بھی اپنے تجربے‘ ویژن اور موجودگی کو پوری طرح ظاہرنہیں کر سکیں۔ڈاکٹر یاسمین راشد کی قائدانہ صلاحیتوں کا میں ذاتی طور پر معترف اور مداح ہوں۔ ایک زمانے میں ان کے ساتھ مسلسل رابطہ رہا ہے ۔پی ایم اے کی تحریکوں میں جنرل پرویز مشرف کے دور میں حکومتی پالیسیوں کے خلاف سرکاری مشینری کے سامنے ڈٹ جانے والی ڈاکٹر یاسمین راشد نے دورانِ احتجاج کبھی اس بات کا خیال بھی نہ کیا کہ لاہورکی سڑکوں پر دوران احتجاج جس ریاستی مزاحمت اور لاٹھی چارج کا سامنا ہے اس کی قیادت کرنے والا ڈپٹی کمشنر ان کا اپنا سگا بھائی ہے۔صوبائی دارالحکومت میں چوبیس سال قبل بنائے جانے والے جناح ہسپتال کے بعد کسی نے بھی توجہ نہیں کی کہ بڑھتی ہوئی آبادی اور لاہور کی طرف نقل مکانی کے پیش نظرموجودہ ہسپتال مریضوں کے لیے ناکافی ہوتے چلے جارہے ہیں۔مستقبل قریب میں کسی مزید بڑے ملٹی ڈسپلن ہسپتال کے قیام کا کوئی امکان دور دور تک نظرنہیں آرہا۔ایک زمانے میں میو ہسپتال کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ ''میو سب داپیو‘‘یعنی میو ہسپتال سب مریضوں کے لیے باپ کا درجہ رکھتا ہے۔اب میو ہسپتال جا کر دیکھیں، اس کے صرف آؤٹ ڈور میں ہی کوئی حکمران چند منٹ گزار کردکھا دے۔انسانوں اور انسانیت کی دھتکار اور پھٹکار کا ایسا ایسا دردناک اور ذلت آمیز منظر ہسپتالوں میں نظر آتا ہے کہ الامان و الحفیظ۔ تمام سرکاری ہسپتالوں کا حال کم وبیش ایسا ہی ہے۔صوبائی دارالحکومت کا یہ حال ہے تو باقی صوبے کے بیماروںکا تو اللہ ہی حافظ ہے۔
وزیراعظم کو شاید یہ بھی کسی نے نہیں بتایا ہوگا کہ تحریک انصاف کے برسراقتدار آنے کے بعد صوبہ پنجاب میں کابینہ کمیٹی برائے انسداد ڈینگی کا ایک بھی اجلاس منعقد نہیں ہوا۔اگر خدانخواستہ ڈینگی کے مچھر نے پھرسر اٹھالیا اور بپھر گیا تو پنجاب حکومت کا کیا حال ہوگا؟ اس کا اندازہ اگر وزیراعظم کوہوجائے تو بخدا تمام ذمہ داران نالائقی اور نااہلی کا طوق گلوں میں ڈالے گھروں کو جاسکتے ہیں۔کابینہ کمیٹی برائے انسداد ڈینگی ایک اعلیٰ سطحی اور اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی ہے جس میں وزرا ‘ایڈیشنل چیف سیکرٹری ‘ صوبائی سیکرٹر یز ‘پولیس حکام ‘سپیشل برانچ سمیت دیگر تمام متعلقہ محکمے ڈینگی کی روک تھام کے لیے تواتر سے اجلاس کرتے تھے اوران کا ہر اجلاس ''پراگرس ریویو‘‘ہوا کرتا تھا۔ ڈینگی لاروا کو تلف کرنے کے لیے ٹیمیں قبرستانوں‘ گلی محلوں ‘دکانوں‘ مکانوں اور پارکوں سمیت دوردراز علاقوں میں جایا کرتی تھیں۔اور اگر کہیں ڈینگی لاروا اور اس کا امکان بھی پایا جاتا تو ذمہ دار کے خلاف مقدمہ تک درج کروانے سے گریز نہیں کیا جاتا تھا۔کوئی سوئمنگ پول ہو یا تالاب ‘کوئی نمائشی فوارہ ہویا آبشار‘پیٹرول پمپس کے سروس سٹیشنز ہوںیاٹائر شاپس۔کسی کو کوئی رعایت یا چھوٹ حاصل نہیں تھی۔حتیٰ کہ گھروں اور دکانوں کے آگے پانی کا چھڑکاؤ کرنا بھی قابل دست اندازیٔ پولیس قراردے دیا گیا تھا۔تھانوں اوردیگر سرکاری دفاتر کی انسپیکشنز کو بھی معمول بنایا گیااور اگر کسی تھانے کے کسی کونے کھدرے میں جمع پانی نظر آگیاتو ایس ایچ او فارغ کردیا جاتا تھا۔کسی سرکاری یا پرائیویٹ ہسپتال انتظامیہ کی مجال نہ تھی کہ وہ انسداد ڈینگی کاؤنٹر نہ بنائے۔ تب کہیں جاکر اس جان لیوا مچھر سے چھٹکارا اور عوام کو سکھ کا سانس نصیب ہوا تھا۔اور اس کا کریڈٹ بلاشبہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو جاتا ہے۔
زیادہ پرانی بات نہیں صرف آٹھ نو سال پہلے کی بات ہے ‘ڈینگی کے مچھر نے صوبہ بھر میں کیا تباہی مچائی تھی‘ ہسپتالوںمیںمریضوں کا تانتا بندھا تھااور ہلاکتوں نے کیا حشر برپا کیا تھا۔ چلتے پھرتے ...بھلے چنگے...اور ہنستے کھیلتے عوام کو اپنی جانوںکے لالے پڑ گئے۔ باقی صوبے کا حال تو خیر کیا ہوگاصوبائی دارالحکومت کے ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کرنا پڑی۔ڈینگی کے جان لیوا مچھر نے حکومتی مشینری کی جو دوڑیں لگوائیں وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ذرا غور کریں صفر تیاری کے ساتھ اگر اس حکومت کا جان لیوا ڈینگی مچھر سے سامنا ہوگیا اور اس کا مقابلہ کرنا پڑ گیا تو یہ جان لیوا مچھر اس حکومت کا کیا حال کرے گا‘ جس کی کارکردگی کی سپیڈ پہلے ہی 20سے40کے درمیان ہے۔یہ حکومت کی لاعلمی ہے یا غفلت‘دونوں صورتوں میں باعث تشویش ہے۔بنیادی معلومات اور چیلنجز سے نابلد حکمران بھی بیوروکریسی کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہوتے۔وہ بھی اس نازک صورتحال سے باخبر ہونے کے باوجود انجان بنے پھرتے ہیں۔
ہسپتالوں میں پناہ گاہیں ضرور بنائیں لیکن ہسپتالوں میں پہلے علاج یقینی بنائیں۔ہسپتال مریضوں کے لیے ہوتے ہیں‘ تیمارداروں کے لیے نہیں۔بیماروں کو چھوڑ کر تیمارداروں کو فوکس کرنا ناقابل فہم ہے۔ حکومتی توانائیوں اور وسائل پر پہلا حق بیماروں کا ہے تیمارداروں کا نہیں...بیماروں کا حق ادا کرنے کے بعد تیمارداروں کی خاطر داری میں کوئی حرج نہیں ہے۔قارئین!تمام تر الزامات اور تحفظات کے باوجود پاکستان کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ انسٹیٹیوٹ کے پودے پر پھل لگنا شروع ہوگیا ہے۔دو روز قبل پہلا لیور ٹرانسپلانٹ کرنے والے ڈاکٹر فیصل سعود ڈار یقیناً مبارکباد کے مستحق ہیں۔وہ پندرہ سال برطانیہ میں جگر کے ٹرانسپلانٹ کی ٹریننگ اور پریکٹس کرنے کے بعد پاکستان آکرالشفا انٹرنیشنل سے منسلک رہے جہاں انہوں نے سات سو کے قریب لیور ٹرانسپلانٹ کیے۔مسیحائی کے ساتھ ساتھ وہ مریضوں کی دلجوئی میں بھی ممتاز مقام رکھتے ہیں۔اس پراجیکٹ کے'' معمار‘‘ انفراسٹرکچر ڈیویلپمنٹ اتھارٹی پنجاب کے سربراہ مجاہد شیر دل کا ذکر نہ کرنا ناانصافی ہوگی۔وہ سول سروسز میں آنے سے پہلے امریکہ میں آرکیٹکچر کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرچکے ہیں۔ ان کی اس اضافی صلاحیت اور فن کی جھلک اس سٹیٹ آف دی آرٹ پراجیکٹ میں نمایاں نظر آتی ہے۔ سابق وزیراعلیٰ کے لگائے ہوئے اس پودے کا پھل اب جگر اور گردے کے امراض میں مبتلا مریض یکساں طور پر کھا سکیں گے۔موجودہ حکومت اگر سیاسی اختلاف اور عنادکی پالیسی ترک کرکے اس پراجیکٹ کے بنیادی ویژن کے مطابق اسے چلائے تو یہ مستحق اور بے وسیلہ مریضوں کے جگر اور گردے کی پیوند کاری کے لیے کسی نعمت سے کم نہ ہوگا۔