تحریر : اوریا مقبول جان تاریخ اشاعت     22-04-2013

’’مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے‘‘

تقریباً سو سال قبل دنیا میں بسنے والے انسانوں کو چڑیا گھر کے پنجروں کی طرح قومی ریاستوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ 1920ء میں لیگ آف نیشنز میں پاسپورٹ کا ڈیزائن منظور ہوا اور 1926ء میں ویزا کے قوانین آئے۔ سرحدیں بھی وجود میں آ گئیں تو دنیا کے وسائل پر قابض مافیا نے سود اور کاغذ کے نوٹوں سے چڑیا گھر کے ان پنجروں کے لیے‘ جنہیں وہ قومی ریاستیں کہتے تھے، تین چیزیں لازمی قرار دیں اور انہیں بزور نافذ کروایا۔ بزور اس لیے کہا جا رہا ہے کہ بینکاری نظام سے جنم لینے والے کاغذ کے نوٹوں سے انہوں نے پوری دنیا کے وسائل خریدے اور پھر اس سے اپنی فوجی قوت میں اضافہ کیا۔ اگر انہیں صرف تیل ہی سونے کے سکوں کے عوض خریدنا پڑ جاتا تو آج کے غریب امیر ہوتے اور امیر غریب۔ پورے افریقہ سے معدنیات، مشرق بعید سے ربڑ اور دیگر ممالک سے فصلیں ان کاغذ کے ٹکڑوں کے عوض خرید کر پوری ایک صدی تک صرف فوجی طاقت میں اضافہ کیا گیا۔ اس مافیا نے اسی فوجی طاقت اور مصنوعی دولت کے بل بوتے پر جو تین چیزیں دوسرے ممالک کے لیے لازمی کیں ان میں ایک آئین ہے کہ یہ عالمی ایجنڈے پر مبنی قانون کی حکمرانی کے لیے ضروری ہے۔ دوسری لازمی چیز سنٹرل بینک کہ اس کے قیام کے بعد اگر کوئی سود اور بینکنگ سسٹم سے نجات کی کوشش کرے تو سب سے بڑی رکاوٹ یہی بنے اور تیسری چیز قومی قرضہ۔ اس قومی قرضے کی کہانی بھی عجیب ہے کہ امریکہ جیسا ترقی یافتہ ملک بھی 16 ٹریلین ڈالر کا مقروض ہے۔ ہر ملک اپنی آمدن سے زیادہ کا بجٹ بناتا ہے اور عام آدمی سے پوچھے بغیر اسے راتوں رات مقروض کر دیا جاتا ہے۔ یہ اس لیے کیا جاتا ہے کہ اگر کوئی ملک سودی نظام سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہے تو پہلا سوال یہ اٹھے گا کہ بین الاقوامی قرضوں کا کیا ہو گا۔ تحریری آئین ایک ایسی دستاویز ہے جو اس سارے نظام کو تحفظ دیتا ہے اور ان تمام خرابیوں کا سرپرست بن جاتا ہے۔ اگر آپ کسی شخص سے‘ جو میڈیا، دانشوروں، وکیلوں، سیاستدانوں، جمہوریت کے علمبرداروں اور عمر بھر اینگلوسیکسن قانون کے وفادار رہنے والوں کی گفتگو سے سحرزدہ ہو، پوچھیں کہ کوئی ملک آئین کے بغیر چل سکتا ہے تو وہ یک دم بول اٹھے گا کہ نہیں۔ دراصل آئین کو قوموں کے لیے ایک مقدس دستاویز بنا دیا گیا ہے۔ کسی بھی ملک کے آئین کے بارے میں کوئی توہین آمیز حرکت کر کے دیکھے، دنیا کے ہر ملک میں اس کی سزا موت ہے۔ اسے مقدس اس لیے بنایا جاتا ہے کہ جمہوریت کا فلسفہ اسی سے وجود میں آتا ہے یعنی دنیا میں حق حکمرانی عوام کو حاصل ہے، وہ جیسا آئین چاہیں مرتب کریں، اس کی حیثیت کسی مقدس کتاب سے بڑھ کر ہو گی۔ دنیا میں بسنے والے چھ ارب انسانوں کو کارپوریٹ میڈیا نے باور کرا دیا ہے کہ آئین کسی بھی ملک کی روح ہوتا ہے، اس کے بغیر وہ ملک ایک زندہ لاش ہے لیکن اس ہنستی بستی دنیا میں چار ممالک ایسے ہیں جن کا کوئی تحریری آئین نہیں اور یہ کوئی غریب اور پسماندہ ملک نہیں بلکہ دنیا کے چند بڑے ترقی یافتہ ممالک میں سے ہیں۔ یہ چار ممالک برطانیہ، کینیڈا، نیوزی لینڈ اور اسرائیل ہیں۔ ان چار میں سے اسرائیل وہ ملک ہے جو یہودی قومیت کی بنیاد پر وجود میں آیا۔ دنیا کے ہر ملک میں یہودی آباد ہیں لیکن کسی نے کبھی سوال نہیں کیا کہ یہودیوں کے لیے علیحدہ ملک کیوں؟ اس ملک کی پہلی آئین ساز اسمبلی جب وجود میں آئی تو وہاں یہ بحث چھڑی کہ ایک یہودی ریاست کا آئین کیا ہونا چاہیے۔ 2 اکتوبر 1948ء کو وجود میں آنے والی اس ریاست کی بنیاد چونکہ مذہب پر تھی اس لیے اس کی آئین ساز اسمبلی‘ جسے کینسٹ کہتے ہیں، کی اکثریت نے کہا کہ اسرائیل کا آئین مقدس کتاب تورات ہے۔ عالمی مافیا نے تحریری آئین کے لیے دبائو ڈالا۔ اس دبائو کے نتیجے میں ایک کمیشن قائم ہوا جسے آئین تحریر کرنا تھا لیکن 65 سال تک کوئی تحریری آئین وجود میں نہ آیا اور آج تک اسرائیل کا عملی طور پر آئین تورات کی مقدس کتاب ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تورات کی عبرانی زبان جو دو ہزار سال سے مردہ ہو چکی تھی، آج اسے زندہ کر کے اسرائیل کی زبان بنا دیا گیا ہے۔ افریقہ، روس، جرمنی، فرانس اور امریکہ سے آئے ہوئے یہودی اپنی مادری زبانیں چھوڑ چھاڑ کر عبرانی اختیار کر چکے ہیں۔ دوسری جانب برطانیہ، کینیڈا اور نیوزی لینڈ نے قانون کے علم کی کتابوں کے اس ابتدائی کلیہ پر یقین پختہ کر لیا کہ ’’قانون لوگوں کے رسم و رواج سے جنم لیتا ہے‘‘ اس ایک فقرے کو انہوں نے اپنا آئین بنا لیا۔ رسم و رواج اور روایات وہ اصول ہیں جو دنیا کے بنائے ہوئے عالمی قوانین سے آپ کو آزاد کرتے ہیں۔ اس وقت دنیا میں جتنے بھی لکھے ہوئے آئین ہیں وہ نوے فیصد ایک دوسرے کی نقل ہیں۔ اس تحریری آئینی شعبدہ بازی پر پوری سائنس مرتب کی گئی ہے اور اس کے لیے بڑے بڑے جیورسٹ وجود میں آ گئے ہیں۔ دنیا بھر کے آئین اٹھا کر دیکھ لیں، جب کسی عالمی فورم پر چند بڑے سیکولر ملکوں نے عورتوں، بچوں اور اقلیتوں کے لیے عہدنامے بنائے، ان تمام آئینوں میں فوراً تبدیلیاں کر دی گئیں۔ کوئی ملک ایسا نہیں جہاں اہل اقتدار اور پس پردہ طاقت ور کارپوریٹ مافیا نے ترامیم سے آئین کا حلیہ نہ بگاڑا ہو۔ اس کے باوجود یہ مقدس ہے اور اس کی خلاف ورزی کرنے والا موت کی سزا کا حقدار۔ لیکن وہ ملک جو بے آئین ہیں‘ جہاں حکومت رسم و رواج اور روایات کی بنیاد پر چلتی ہے، ان کی حالت ان تمام ملکوں سے کہیں بہتر ہے جہاں ایک تحریری آئین ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ نے گزشتہ سال معاشی ترقی اور جرم پر اپنی جو سروے رپورٹ شائع کی اس کے مطابق امریکہ میں‘ جو تحریری آئین رکھتا ہے‘ 11.887 ملین جرائم ہوئے جو بے آئین ملک برطانیہ سے دوگنا اور دوسرے بے آئین ملک کینیڈا سے چار گنا زیادہ تھے۔ یہ ہے امن و امان کا عالم جو ریاست کی اولین ذمہ داری ہے۔ جہاں تک معاشی ترقی کا حال ہے، کینیڈا پندرہویں بڑی معیشت ہے جبکہ برطانیہ دنیا کی آٹھویں بڑی معاشی قوت۔ اسرائیل‘ جو عملی طور پر تورات کو آئین تصور کرتا ہے، دنیا بھر کی معیشتوں میں سترھویں نمبر پر ہے۔ یہ دنیا میں تحقیق کے شعبے میں سب سے پہلے نمبر پر ہے، امریکہ کے بعد نئی وجود میں آنے والی کمپنیوں کے حوالے سے دوسرے نمبر پر ہے، یہ ایک ریگستان پر قائم ملک ہے لیکن زراعت میں خود کفیل ہے اور دفاع پر اربوں ڈالر خرچ کرتا ہے۔ ان چاروں ملکوں میں کبھی نہ آئین توڑنے پر جھگڑا ہوا اور نہ آئین کی تشریح کرنے پر عدلیہ اور انتظامیہ میں دھینگا مشتی ہوئی۔ دنیا کا ہر آئین قوانین کا مجموعہ نہیں ہوتا بلکہ چند اصول بتاتا ہے جن کے مطابق قوانین مرتب کیے جاتے ہیں۔ یہی طریق کار قرآن حکیم کا ہے۔ یہ کسی بھی مسلمان ملک کا آئین ہے۔ اس کتاب کی روشنی میں قوانین مرتب ہونے چاہئیں۔ اس کی خلاف ورزی‘ اس پر عمل سے انحراف اور اس سے بغاوت قابل سزا جرم ہونا چاہیے۔ اس کی تشریح کے لیے ویسا ہی ایک فورم ہونا چاہیے جیسے سپریم کورٹ ہے لیکن ہم وہ عجیب قوم ہیں جو آئین کو مقدس درجہ دیتے ہیں اور عدالتوں سے اس کی تشریح کرواتے ہیں۔ قرآن آئین میں صرف دو سطریں لکھ دینے سے ملک کا آئین نہیں بنے گا۔ صرف اور صرف قرآن ہی کو ملک کا آئین ماننے سے یہ آئین بنے گا۔ یہ ایسا کون کہے گا اور کون کرے گا؟ توبہ توبہ! قرآن کو آئین کا درجہ دے دیا تو پھر اس کی خلاف ورزی کی سزا تو موت ہو گی۔ دنیا کیا کہے گی … متعصب، جاہل، فرسودہ، دقیانوس… ہم دنیا میں یہ کہلوانا نہیں چاہتے البتہ ہمیں آخرت میں اپنی رسوائی کا ڈر نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved