تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     12-03-2019

حلقہ پی پی 218سے لیکر پی پی 217تک

میں نے مسکرا کر شاہ جی سے پوچھا: شاہ جی! یہ آپ کی اس بات سے کیا مراد ہے کہ ''ایمان سے اب پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ پر نظر پڑتی ہے‘ تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ اس سے تو ہزار گنا بہتر تھا کہ تب شاہ محمود قریشی ہی جیت جاتا‘‘۔ شاہ جی بھی جواباً مسکرائے اور کہنے لگے: زیادہ ''کھچرا‘‘ بننے کی ضرورت نہیں۔ تمہیں سارا پتا ہے کہ میرا اس بات سے کیا مطلب ہے۔ جب بات سمجھ میں آ جائے تو لفظوں کی مین میخ نہیں نکالتے۔ تمہیں پورا پتا ہے کہ میں شاہ محمودکے بارے میں کیا خیالات رکھتا ہوں اور اب ؛اگر مجھے شاہ محمود کی صوبائی اسمبلی کی نشست پر شکست سے افسوس ہو رہا ہے تو اس میں وضاحت طلب کیا بات ہے؟ تم کیا سننا چاہتے ہو؟ میں نے کہا: شاہ جی! میری مجال ہے کہ میں آپ سے کوئی وضاحت طلب کروں؟ میں گناہ گار اُمتی ‘کسی سید زادے سے ایسی گستاخی کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ بس میں تو اپنی معلومات میں اضافے کی غرض سے عرض پرداز تھا۔
پھر میں نے کہا: شاہ جی! اگر طبیعت کا جلال تھوڑا کم ہو گیا ہو تو ایک سوال کی جرأت کر سکتا ہوں؟ شاہ جی نے مسکرا کر اجازت دے دی۔ میں نے کہا: شاہ جی! یہ اہل قریش آپ کے قریبی عزیز ہیں۔ ان سے آپ کی کیا ناراضی ہے؟ شاہ جی بڑے مشکوک انداز میں مسکرائے اور کہنے لگے: ہماری قرابت داری ''لے پالک‘‘ قریشیوں سے نہیں ‘بلکہ ''غوث پور قریشیاں‘‘ والے قریشیوں سے ہے اور تمہیں یہ بات بھی اچھی طرح معلوم ہے اور اس سوال سے بھی تم دراصل چسکے لینا چاہتے ہو۔ تمہارا مقصد معلومات میں اضافہ ہرگز نہیں۔ تمہارے پاس اس بارے میں مجھ سے زیادہ معلومات ہیں اور تم یہ ''معلومات‘‘ پہلے بھی مخلوقِ خدا تک پہنچانے کی شرارت کرتے رہے ہو‘ اب نئے سرے سے پھر ''لچ تلنا‘‘ چاہتے ہو؟ اس بارے میں مزید کسی سوال کی نہ تو گنجائش ہے‘ اور نہ ہی اجازت ہے۔ یہ کہہ کر شاہ جی نے اپنا ہاتھ ہوا میں اٹھایا اور پھر نیچے کر لیا۔ یہ ایسی وارننگ تھی کہ اس کے بعد سوال کرنے کی ہمت ہی نہ تھی۔ شاہ جی کی طبیعت میں اس وقت جلال زوروں پر تھا اور شاہ جی کی مرضی کے برخلاف سوال کرنا اپنی بے عزتی کروانے کے مترادف تھا۔ میں نے کہا: شاہ جی! حلقہ پی پی 218پر بات ہو سکتی ہے؟ شاہ جی نے کہا: اجازت ہے۔
حلقہ پی پی 218 ملتان VIII پر ضمنی انتخابات کا غلغلہ ہے۔ یہاں سے جنرل الیکشن میں ملک مظہر عباس راں پی ٹی آئی کی طرف سے الیکشن جیتا تھا۔ اور صرف جیتا ہی نہیں‘ بلکہ زور دار طریقے سے جیتا تھا۔ ملک مظہر راں نے 46 ہزار کے لگ بھگ ووٹ لیے تھے۔ دوسرے نمبر پر پیپلز پارٹی کا امیدوار ملک عباس راں تھا‘ اس نے37 ہزار سے زائد ووٹ لیے تھے اور مسلم لیگ ن کا امیدوار ظفر راں تھا‘ اس نے25 ہزار ووٹ لیے تھے۔ ملک مظہر عباس راں ایمرسن کالج میں میرا کلاس فیلو تھا۔ وہ ایمرسن کالج کی سٹوڈنٹس یونین کا صدر بھی رہا تھا۔ بعد ازاں وہ پیپلز پارٹی میں شامل ہو گیا۔ 
1988ء میں ملک مظہر راں‘ شاہ محمود قریشی سے 252 ووٹ سے ہارا۔ 1995ء میں وہ پیپلز پارٹی چھوڑ کر مسلم لیگ ن میں چلا گیا۔ کئی سال مسلم لیگ ن میں گزارنے کے بعد اس کا جاوید ہاشمی سے محفل سنیما کی پراپرٹی پر جھگڑا ہو گیا اور اس نے مسلم لیگ ن چھوڑ کرق لیگ جوائن کرلی۔ بعد ازاں وہ دوبارہ مسلم لیگ ن میں آ گیا‘ کیونکہ جاوید ہاشمی تب تحریکِ انصاف میں شامل ہو چکے تھے۔ پھر مظہر راں تحریک انصاف میں چلا گیا اور 2018ء کا الیکشن پی ٹی آئی کی طرف سے لڑا۔
2018ء کے جنرل الیکشن میں ملتان کے دو حلقوں سے میرے دو دوست صوبائی اسمبلی کا الیکشن جیتے۔ پی پی 218 سے ملک مظہر عباس راں اور پی پی 222سے ملک غلام عباس کھاکھی۔ ملک غلام عباس کھاکھی تو اپنی جیت کو بھی پوری طرح انجوائے نہ کر سکا اور حلف اٹھانے سے قبل ہی دل کے عارضے کے باعث خالق ِحقیقی سے جا ملا۔ مورخہ 16 جنوری 2019ء کو ملک مظہر راں بھی اس دار ِفانی سے رخصت ہو گیا۔ پی پی 222 سے پی ٹی آئی نے ملک غلام عباس کھاکھی کی بیوہ کی بجائے پی پی 221 شجاع آباد سے پی ٹی آئی کے شکست خوردہ امیدوار رانا سہیل نون کو ٹکٹ جاری کر دیا۔ کیا عجب اتفاق ہے کہ رانا سہیل نون ایمرسن کالج کی سٹوڈنٹس یونین کے انتخابات میں ملک مظہر عباس راں سے صدارت کا الیکشن ہارا تھا۔ رانا سہیل نون پی پی 221 کے بعد پی پی 222سے بھی الیکشن ہار گیا۔
اب ملتان کے دو صوبائی حلقوں میں الیکشن ہوگا۔ ایک حلقہ پی پی 218‘ جو ملک مظہر عباس راں کی وفات کے بعد خالی ہواہے اور دوسرا حلقہ پی پی 217ہوگا ‘جہاں سے شاہ محمود قریشی کو شکست دینے والا سلمان نعیم نااہل ہو گیا ہے۔ ابھی تو فی الحال اس حلقے میں الیکشن کی تاریخ طے نہیں ہو سکتی‘ کیونکہ ابھی نااہل ہونے والے سلمان نعیم کے پاس سپریم کورٹ میں اپیل کا حق باقی ہے‘ لیکن یہ طے بھی نہیں کہ وہ اپیل کرتا ہے یا الیکشن میں جاتا ہے‘ کیونکہ اپیل بہرحال الیکشن کے مقابلے میں زیادہ سستا طریقہ ہے‘ اس لیے یہ بھی ممکن ہے کہ وہ سپریم کورٹ چلا جائے‘ تاہم گمان یہی ہے کہ آخر کار اس حلقہ میں بھی الیکشن ہی ہوگا۔
حلقہ پی پی 218 کے بارے میں شاہ جی سے پوچھا کہ ان کا کیا خیال ہے؟ شاہ جی بڑے وثوق سے کہنے لگے کہ اس حلقے سے ملک مظہر عباس راں مرحوم کا بیٹا ملک واصف مظہر راں یہ الیکشن جیت جائے گا؛ حالانکہ اسے اس الیکشن میں کئی مسائل کا سامنا ہے۔ پہلا یہ کہ اس کی الیکشن کمپین چلانے کیلئے اس کا والد موجود نہیں ہے۔ دوسرا یہ کہ وہ اس حلقے سے پہلی بار الیکشن لڑ رہا ہے۔ تیسرا اہم معاملہ یہ ہے کہ اس حلقے میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے اتحاد کر لیا ہے اور مشترکہ امیدوار لے آئے ہیں۔ اس حلقہ سے اب پی ٹی آئی کے امیدوار واصف مظہر راں کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کا ملک ارشد راں امیدوار ہوگا اور مسلم لیگ ن‘ پیپلز پارٹی کے امیدوار کی حمایت کرے گی ا ور اپنا امیدوار میدان میں نہیں لائی۔ پیپلز پارٹی کا امیدوار ارشد راں گزشتہ الیکشن میں پیپلز پارٹی کے امیدوار عباس راں کا سگا بھائی ہے اور یہ دونوں بھائی باری باری الیکشن لڑتے ہیں۔ اس بار ارشد راں کی باری ہے۔ اس سارے منظر نامے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کے الیکشن سے دستبردار ہونے کے بعد 2018ء کے الیکشن میں ان کا امیدوار ملک ظفر راں‘ اب پی ٹی آئی میں شامل ہو گیا ہے۔
میں نے پوچھا :شاہ جی! آپ پی ٹی آئی کے امیدوار کی جیت بارے پرُ یقین ہیں؟ شاہ جی کہنے لگے: اس علاقے میں لوگوں کی وفاداریوں کے بارے میں زیادہ یقین سے کچھ کہنا خاصا مشکل ہے‘ لیکن فی الحال کی صورتحال یہی بتاتی ہے کہ پی ٹی آئی کا امیدوار مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے مشترکہ امیدوار کو پچھاڑ کر رکھ دے گا۔ یہ جیت شاہ محمود کی حلقے میں پوزیشن کو مزید بہتر کرے گی ۔یاد رہے کہ حلقہ پی پی 218 قومی حلقہ این اے 157 کے نیچے ہے اور حلقہ این اے 157 سے شاہ محمود قریشی کے برخوردار زین قریشی ممبر قومی اسمبلی ہے۔ وہ اپنے برخوردار کے نیچے والی صوبائی نشست پر اپنا امیدوار کامیاب کروا لیں گے‘ تاہم اپنے نیچے پی پی 217 پر معاملہ شاید ان کے ہاتھ سے باہر ہے۔
اب ملتان کے دو صوبائی حلقوں میں الیکشن ہوگا۔ ایک حلقہ پی پی 218‘ جو ملک مظہر عباس راں کی وفات کے بعد خالی ہواہے اور دوسرا حلقہ پی پی 217ہوگا ‘جہاں سے شاہ محمود قریشی کو شکست دینے والا سلمان نعیم نااہل ہو گیا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved