اس وضاحت کی کیا ضرورت تھی کہ اس ملاقات کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں اور یہ کہ یہ ملاقات خالص انسانی ہمدردی کی بنیادپر ہو رہی ہے؟ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے جہاں سیاسی ایجنڈا رکھنا کوئی جرم نہیں۔ شاید کہنا یہ مقصودتھا کہ اس ملاقات کے پس پردہ پولیٹیکل پوائنٹ سکورنگ کا کوئی جذبہ ‘ سیاسی فوائد حاصل کرنے کی کوئی نیت نہیں۔ ورنہ قمر الزمان کائرہ کے بقول سیاستدان مل بیٹھیں گے ‘تو محض موسم کی بات تو نہیں کریں گے‘ سیاست پر بھی بات ہو گی اور ضرور ہو گی۔جہاں تک موسم کا تعلق ہے‘ زندہ دلوں کے شہر میں دو دن چمکدار دھوپ رہی۔ اتوار اور سوموار کی درمیانی شب بادل برسے اور اگلے روز بھی آسمان ابر آلود ہے‘ لیکن چبھنے والی سردی نہیں۔ایسے میں پروینؔ شاکر یاد آئیں:۔
اتنے اچھے موسم میں روٹھنا نہیں اچھا
ہار جیت کی باتیں کل پہ ہم اٹھا رکھیں
آج دوستی کر لیں
امجد اسلام امجدؔ نے بھی خوب کہا ہے ‘لیکن وہ ساون کی جھڑی کے حوالے سے ہے:اس سے پہلے کہ یہ ساون کی جھڑی تھم جائے/جتنے اقرار کے الفاظ ہیں کہہ دو مجھ سے/بھیگتے پیڑ ہیں‘ میں ہوں‘ تم ہو/اس برستے ہوئے بادل کی طرح /لفظ اگر مڑ کے نہ آئے بھی تو کیا/بھیگتے پیڑ کسے جا کے گواہی دیں گے؟
بلاول کو کوٹ لکھپت جیل میں قید‘ سابق وزیر اعظم (اور مسلم لیگ ن کے قائد) میاں نواز شریف سے ملاقات کی اجازت (وزارت داخلہ کی طرف سے) ہفتے کو مل گئی تھی لیکن تب ملاقات کے لیے وقت بہت تنگ تھا؛ چنانچہ ملاقات سوموار پر ملتوی ہو گئی اور آج جب یہ سطور قلم بند کی جارہی ہیں۔ بلاول اپنے ساتھیوں (سینیٹرمصطفیٰ نواز کھوکھر ‘ قمر الزماں کائرہ ‘حسن مرتضیٰ اور جمیل سومرو) کے ہمراہ کوٹ لکھپت جیل میں گھنٹہ بھر کی ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کررہے ہیں۔
نواز شریف علیل ہیں۔ سینئر ڈاکٹروں پر مشتمل‘ سرکار کے مقرر کردہ پانچوں میڈیکل بورڈ ان کے علاج کی طرف سنجیدہ توجہ پر زور دے چکے ہیں۔ اس حوالے سے نواز شریف کا ''احتجاجی رویہ ‘‘ اپنی جگہ اہم ہے(جو ایسا بلاجواز اور بے سبب بھی نہیں) ایسے میں پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زردای کا مزاج پرسی کے لیے جانا ‘ ہماری دینی اقدار اور معاشرتی روایات کے عین مطابق ہے‘ لیکن پاکستان میں جہاں برسوں بعد ایک بار پھر سیاسی محاذ آرائی کی فضا اور عدم برداشت کا ماحول ہے ‘یہ ملاقات سیاسی تبصروں اور تجزیوں کا موضوع بن گئی ۔
سیاسی اختلافات کے ساتھ خوشگوار سماجی تعلقات اور ذاتی روابط کی روایات ہمارے ہاں بہت مستحکم رہی ہیں۔اسلامی نظام کے علمبر دار سید مودودیؒ اور سیکولر ازم اور لبرل ازم کے دعویدار ان کے دوستوں میں خوشگوار تعلقات اس کی قابل رشک مثالیں ہیں۔ مثال کے طور پر جوشؔ ملیح آبادی کی ابو الاعلیٰ مودودی کے ساتھ دہلی میں شروع ہونے والی دوستی ‘ بعد کے برسوں میں بھی قائم رہی۔ وہ اچھرہ میں مولانا سے ملنے آئے۔ حال احوال پوچھا تو مولانا نے گردے میں پتھری کا بتایا ۔ بذلہ سنج جوشؔ نے ہنستے ہوئے کہا: گویا تم اندر سے سنگ سار ہو رہے ہو؟ مولانا نے بھر پور مسکراہٹ کے ساتھ اس فقرے کا لطف اٹھایا۔
ملک غلام جیلانی‘ سیاستدانوں میں ایک خاص ڈھب رکھتے تھے‘ اپنی آزاد خیالی اور آزاد روی کو کبھی نہ چھپاتے۔ مولانا کے ذاتی حلقہ احباب میں وہ بھی شامل تھے۔ عاصمہ جیلانی ( بعد میں عاصمہ جہانگیر) کا نکاح بھی مولانا مودودی ہی نے پڑھایا تھا۔میاں محمود علی قصوری نے ساری عمر لیفٹ کی سیاست کی (لیکن ''الٹرالیفٹ ‘‘نہیں تھے؛ چنانچہ نماز روزے کا باقاعدگی سے اہتمام کرتے) مولانا مودودی سے ان کی دوستی بھی تا عمر قائم رہی۔ کچھ عرصہ بھٹو صاحب کی پیپلز پارٹی میں بھی رہے ‘لیکن وہاں بھی اپنی اخلاقیات پر کبھی کمپرومائز نہ کیا۔ میانوالی کے ایک جلسے میں ایک مقرر نے مولانا مودودی کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کئے تو قصوری صاحب کرسیٔ صدارت سے اٹھے ‘اسے مائک سے ہٹایا اور اس کے نازیبا الفاظ پر خود معذرت کی۔ پیپلز پارٹی کا ماحول قصوری صاحب کے جمہوری مزاج اور شرافتِ طبع کے لیے ساز گار نہ تھا ؛چنانچہ بھٹو صاحب کے اقتدار کے ابتدائی دنوں میں ہی وزارت قانون سے استعفیٰ دے کر گھر چلے آئے۔ (ایئر مارشل اصغر خان کی تحریک استقلال ان کا نیا سیاسی انتخاب تھی۔ اپوزیشن کی دیگر جماعتیں بھی سر گرم تھیں‘ لیکن بھٹو کے طرز حکمرانی کے خلاف ایئر مارشل کی آواز سب سے نمایاں اور بلند تر تھی۔)نواب زادہ نصر اللہ خاں بھی اظہارِ اختلاف میں شائستگی اور شرافت کا دامن تھامے رکھتے۔ سیاسی مخالفین پر طنز کے لیے شعروں اور چٹکلوں سے کام لیتے۔
سیاسی مخالفین کو استہزا کا نشانہ بنانے اور انہیں بے توقیر کرنے کا آغاز ایوب خاں کے دور ِآمریت میںہوا۔ مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح بھی دریدہ دہنی سے محفوظ نہ رہیں۔ پھر بھٹو صا حب نے (پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے) اسے آگے بڑھایا ۔ وہ خان عبد القیوم خاں کو ''ڈبل بیرل‘‘ ایئر مارشل اصغر خاں کو ''آلو خاں‘‘ اور مولانا مودودی کو ''اچھرے کا پوپ‘‘ کہاکرتے۔ سقوط مشرقی پاکستان کے بعد ''نئے پاکستان ‘‘ میں بر سرِ اقتدار آئے تو سیاسی مخالفین کو ''فکس اپ ‘‘ کرنا ‘ ان کا تکیہ کلام تھا۔ ان کے لیے ''شکست خوردہ‘‘ ‘''مستردشدہ‘‘ ‘ ''مایوس‘‘ ‘''نکمے اور نااہل ‘‘کے الفاظ وردِ زبان ہوتے۔ نواب زادہ صاحب نے ایک دن تنگ آکر جواب دیا:''صرف ہم ہی شکست خوردہ نہیں‘ ڈیگال اور چرچل جیسے معزز اور محترم نام بھی اس کلب میں آتے ہیں۔ شکست خورد گان کے اس کلب کے ایک سینئر ممبر بھی تھے‘ جناب سرشاہنواز بھٹو...سینئر اس لئے کہ ان کی ضمانت ضبط ہوگئی تھی‘ الحمد للہ ہماری ضمانت کبھی ضبط نہیں ہوئی‘‘۔
1990ء کی دہائی میں (نوازشریف اور بے نظیر کے ادوار )سیاسی محاذ آرائی پھر انتہا کو پہنچ گئی ۔ مشرف کے عہد آمریت میں دونوں کی جلا وطنی‘ ان میں نئی سوچ کا باعث بنی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو(اور آصف زرداری) عمرے کے لیے گئے‘ تو بڑے میاں صاحب کی وفات پر اظہار تعزیت کے لیے جدہ کے سرور پیلس بھی آئے (یہیں ''میثاق جمہوریت‘‘ کے تصور نے جنم لیا)۔ مشرف کے ساتھ این آر او نے دونوں میں دوریاں پیدا کردیں۔ لیکن اظہار اختلاف میں شائستگی کا رویہ برقرار رہا۔ 27دسمبر(2007ئ)کے بدقسمت دن‘ میاں صاحب بھی انتخابی مہم کے سلسلے میں راولپنڈی میں تھے۔ لیاقت باغ میں محترمہ پر جان لیوا حملے سے قبل میاں صاحب کے استقبالی جلوس پر فائرنگ میں‘ چار مسلم لیگی متوالے جاں بحق ہوگئے تھے۔بے نظیر صاحبہ پر حملے کی خبر سنتے ہی نوازشریف ہسپتال کی طرف روانہ ہوئے (ان کی شہادت کی خبر انہیں راستے میں ملی۔ وہ ہسپتال پہنچے اور غمزدہ کارکنوں کو گلے لگا کر دلاسہ دیتے رہے)۔
عمران خان‘ الیکشن سے تین روز قبل سٹیج سے گر کر شدید زخمی ہوئے تونوازشریف نے اگلے روز ملک بھر میں اپنی انتخابی مہم معطل کردی۔ شہبازشریف اسی شب ہسپتال پہنچے۔ الیکشن کے فوراً بعد نوازشریف بھی ہسپتال آگئے اوردیر تک خان صاحب کے ساتھ رہے)۔ تیسری بار وزیر اعظم بننے کے بعد ‘ وہ مارچ 2014ء میں بنی گالہ بھی گئے( جس کی دعوت خود عمران خان نے دی تھی) یاد آیا‘ خان صاحب بھی ‘ میاں عباس شریف کی وفات پر تعزیت کے لیے جاتی امرا آئے تھے‘ لیکن اگست 2014ء کے دھرنوں سے شروع ہونے والی محاذ آرائی ہر نئے دن کے ساتھ سنگین تر ہوتی چلی گئی۔ اس ماحول میں بلاول کی کوٹ لکھپت جیل میں میاں صاحب کی مزاج پرسی ماضی کی شاندار روایات کا نیا جنم ہے۔