تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     12-03-2019

پہلا پاکستانی اور آخری انگریز

1964 ء اس کالم نگار کی زندگی میں یہ بڑی تبدیلی لایا کہ وہ پاکستان کے سب سے بڑے اخبار کے سب سے بڑے عہدے سے 
مستعفی ہو گیا(ٹائمز گروپ کے مالک چوہدری ظہور الٰہی مرحوم سے اصولی اختلاف کی وجہ سے) میو ہسپتال کے سامنے والی عمارت کی سیڑھیوں سے اترا تو سمجھ نہیں آئی کہ کیا کروں‘ کدھر جائوں؟ فروری کی چمکیلی دھوپ میں بے مقصدگھومتا مال روڈ پر جانکلا۔ ریگل چوک میں کلاسیک (کتابوں کی پرُانی اور اچھی دکان ) میں رکتا اور اس کے مالک اور دیرینہ دوست آغا امیر حسین صاحب سے علیک سلیک کرتا چیئرنگ کراس کے قریب فیروز سنز جا پہنچا۔ وہاں اپنے وقت کے سب سے روشن دماغ مفکر جناب سبط حسن کام کرتے تھے۔ جب میں نے انہیں حالات حاضرہ (یعنی بے روزگای) سے باخبر کیا تو وہ مجھے فیروز سنز کے سربراہ ڈاکٹر وحید صاحب ‘(جسٹس (ر) ناصرہ اقبال صاحبہ کے والد مرحوم) کے پاس لے گئے‘ جنہوں نے مجھے پہلی ملاقات (اور وہ بھی بڑی مختصر) میں ہی ایک اچھے عہدے پر فائض کر دیا۔ میں فیروز سنز میں انتظامی امور کی طرف کم اور کتابوں کی طرف (جن سے ایک بڑا ہال بھرا ہوا تھا) زیادہ توجہ دیتا تھا۔ ابھی دو ماہ ہی گزرے ہوں گے کہ مجھے وہاں ایک انگریز ملنے آیا۔ اپنے تعلیمی ادارہ کی لائبریری کے لئے کتابیں خریدنے کا بندوبست اور مشورہ کرنے کیلئے۔ پتا چلا کہ وہ ایچی سن کالج کے سینئر سکول کے ہیڈ ماسٹر ہیں اور نام ہے؛ Mr.Dykes ۔ جب مہمان نے چائے پی لی اور واپسی کا سفر شروع کیاتو وہ کار میں اکیلے نہ تھے‘ فیروز سنز میں ان کا میزبان بھی ان کے ساتھ تھا۔ وہ کتابیں بھی لے گئے اور برطانوی سیاست اور آئین پڑھانے والا استاد بھی۔ میں نے زندگی میں پہلی بار ایچی سن کالج دیکھا۔ حیرت زدہ تھا کہ اس عالیشان تعلیمی ادارے اور ان خستہ ہال سکولوں میں کتنا فرق ہے‘ جہاں یہ کالم نگار پھٹے پرانے ٹاٹ پر سالہا سال بیٹھا اور فارسی زبان میں زانوئے تلمذ تہہ کیا۔ حروفِ ابجد سے لے کر حساب کے پہاڑے سیکھے ۔ ہیڈ ماسٹر نے کالج میں سب سے پہلے میرا جس استاد سے تعارف کرایا ان کا نام Major Langlands تھا۔ ادھیڑ عمر مگر جسمانی اور ذہنی طور پر چاق و چوبند۔ ہنس سکھ اور خوش مزاج۔ میرے ساتھ گرم جوشی سے ہاتھ ملایا اور مجھے تاکید کی کہ میں آئندہ انہیںان کے نام Geoffrey سے مخاطب کیا کروں ۔ میں نے کہا کہ یہ تو ہماری زبان کے جعفری سے ملتا جلتا ہے‘ سن کر وہ مسکرائے اور پھر ہاتھ ملایا۔ میں نے کالج میں اعلیٰ ترین تعلیمی درجہ (HSC) کو بمشکل آٹھ ماہ پڑھایا ہوگاکہ ستارے پھر گردش میں آگئے۔ صدارتی انتخاب میں جنرل ایوب خان صاحب کے مقابلے میں مادرِ ملت مس فاطمہ جناح تھیں۔ وہ اپنی انتخابی مہم چلاتے ہوئے لاہور پہنچیں تو ایک بڑے جلسہ عام میں ایچی سن کالج کے دو اساتذہ بھی ان کا استقبال کرنے والوں میں شامل تھے۔ سکندر جمالی اور یہ کالم نگار۔ صرف جلسہ میں شرکت کی بات ہوتی تو شاید درگزر کر لیا جاتا‘ مگر بات یوں بگڑی کہ خفیہ پولیس کی رپورٹوں کے مطابق لاہور چھائونی کے صدر بازار کی ساگر روڈ (جس کے آخر میں ایک اصلی ساگر یعنی تالاب بھی تھا) پر ہر شام مادرِ ملت کی حمایت میں لالٹینیں (جو اُن کا انتخابی نشان تھا) اٹھا کر جلوس نکلانے والوں کی قیادت ایچیسن کالج کا ایک استاد کرتا تھا۔ جناب اسفند یار ولی خان کے چچا جناب عبدالعلی خان پرنسپل تھے‘انہوں نے اگلے دن جب میں اور سکندر جمالی پڑھا رہے تھے‘ ہمیں سبق پڑھانے کی اجازت نہ دیتے ہوئے آنا ً فاناً برطرف کر دیا۔ میںنے اگلے دو برس (بیوی اور تین بچوں کے ساتھ) کس عذاب میں گزارے وہ اس کالم میں نہیں ‘بلکہ اپنی خود نوشت میں لکھے جائیں گے۔ آپ اُس کی اشاعت کا انتظار فرمائیں۔ 
1967 ء کے شروع کے دن 1964 ء سے بھی زیادہ ڈرامائی تھے۔ سال کی پہلی اتوار کو دھوپ نکلی تو میری وفاشعار بیوی نے تجویز پیش کی کہ جب ہم کسی قسم کی تفریح کی مالی استطاعت نہیں رکھتے تو کیوں نہ لارنس گارڈن ( باغِ جناح) کی سیر ہی کر آئیں‘ تاکہ لوہاری دروازہ کے چوبارے کی گھٹن سے کچھ دیر کی رہائی تو ملے۔ ہم رکشے سے اُترے تو وہاں ہمارے پرانے رفیق کار Major G. Langlands کھڑے تھے۔ ہنستے ہوئے کہنے لگے: کمال کی بات ہے کہ ایچی سن کالج ہو یا لارنس گارڈن تمہارا استقبال میں ہی کرتا ہوں۔ ایک بچے کو میں نے گود میں اٹھایادوسرے کو میری بیوی نے اور تیسرے کو میر ے رفیق کار نے اور ہم اکٹھے سیر کرنے کے بعد ایک بنچ پر بیٹھ گئے۔ میجر نے بڑی ہمدردی سے میرے حالات اور نہ ختم ہونے والی بے روزگاری کی تفصیل سُنی۔ میجر کی ہدایت کے مطابق میں نے برطانوی سفارت خانے میں برطانیہ میں ملازمت کیلئے درخواست دے دی۔ (میجر اور ہیڈ ماسٹر کا نام بطور سفارشی لکھا گیا) چار ماہ گزر ے تو ڈاک سے برطانوی محکمہ تعلیم کی طرف سے ملازمت کا دعوت نامہ موصول ہوا اور ہدایت بھی کہ میں برطانوی سفارت خانہ (جو ان دنوں لاہور ریس کورس روڈ پر ہوتا تھا) سے رابطہ کروں۔ مجھے اور میرے بیوی بچوں کو برطانیہ کا ویزا چند دنوں کے اندر جاری کر دیا گیا۔ ہم نے والدین اور عزیزوں سے کرایہ کی رقم ادھار مانگی‘ ہوائی سفر کے پانچ ٹکٹ خریدے اور 21 مئی1967 ء کو لاہور سے کراچی اور وہاں سے بغداد‘ بیروت اور فرینکفرٹ ہوتے ہوئے مانچسٹر پہنچے ۔ برطانیہ میں گرمیوں کی تعطیلات ختم ہوئیں تومیں اور میری بیوی تعلیم و تدریس کے شعبہ سے اس طرح وابستہ ہوگئے کہ گیارہ برس گزر گئے۔ اتنے سال پڑھانے کے بعد ہم پڑھنے کی طرف متوجہ ہوئے۔ میری بیوی نے تاریخ میں ایم اے کی ڈگری لی اور میں نے قانون پڑھا اور بیرسٹر بنا۔ والدین کے قطرے سے گہر بننے کے صبر آزما عمل کے دوران اُن کے چھ بچے بھی برطانیہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر چکے تھے۔
میجر جیفری سے جو تعلق خاطر1964 ء میں شروع ہوا وہ دو جنوری 2019 ء کو یوں ختم ہوا کہ میجر نے 101 برس کی عمر میں اُس پاک سر زمین پر وفات پائی‘ جسے انہوں نے 1947 ء میں اپنا وطن عزیز بنالیا۔ کتنے شب و روز کتنے ماہ و سال کتنی بہاریں اور کتنی خزائیں۔ سرما کی کتنی سرد ہوائیں اور موسم گرما کی کتنی تند و تیز آندھیاں‘ برساتیں آئیں اور گزر گئیں مگر میجر اپنے نئے وطن جما رہا۔ میجر ایچی سن کالج سے ریٹائر ہو کر اور ایک طویل عرصہ شمالی پاکستان کے پہاڑی علاقوں میں تعلیمی ادارے بنا کر اور انہیں کامیابی سے چلا کر زندگی کے آخری ایام میں ایچیسن کالج کے گوشہ تنہائی میں آبسا۔ اگر غالب کے الفاظ میں وفاداری بشرط استواری اصل ایمان ہے تو میجر نے اصل ایمان کی شرط جس وفاداری سے پوری کی اس کی مثال نہیں ملتی۔ کوئی ایک مثال بھی نہیں۔ میجر کی وفات کی خبر ان کے آبائی وطن اور جنم بھومی پہنچی تو بڑے اخبارات اور جرائد میں اس پر تعزیتی مضامین شائع ہوئے۔ اہل برطانیہ کو میجر جیسے کمال کے لوگ پیدا کرنے پر بجا طور پر فخر ہے‘ جنہوں نے پاکستان کے کوہستانی علاقوں میں وہاں کے بچوں کو معیاری تعلیم دی۔1988 ء میں ہندو کش کے پہاڑوں سے پشاور تک کھلی لاری میں سفر کے دوران میجر کو مسلح افراد نے اغوا کر لیا۔ اغوا کاروں نے اپنے مہمان کا ہر لحاظ سے خیال رکھا اور کچھ عرصہ بعد اسے رہا کر دیا۔ رہائی پانے والے نے اپنے اغوا کاروں کو ہمیشہ بڑے اچھے الفاظ میں یاد کیا۔میجر ایچیسن کالج سے ریٹائر ہونے کے بعد 1979 ء میں شمالی وزیرستان میں Razmak کے مقام پرکیڈٹ کالج کے پرنسپل بن گئے۔ 1989 ء میں میجر نے چترال میں ایک نیا سکول بنایا اور بڑی اچھی طرح چلایا۔ میجر اتنا نیک دل شخص تھا کہ اس نے لاہور کے مسیحی قبرستان میں اپنی آخری آرام گاہ کے لئے جو جگہ چُنی وہ بیرونی گیٹ کے قریب ترین تھی تاکہ قبر پر پھول رکھنے والوں کو زیادہ چلنے کی زحمت نہ اٹھانی پڑے۔ آج کے کالم میں میجر کو پہلا پاکستانی اس لئے لکھا گیا کہ میرا کوئی بھی ہم وطن ان سے بڑھ کر وطن سے محبت نہ کرتا تھا اور نہ کر سکتا تھا۔ The Economist نے ان پر جہان میں آخری انگریز کے عنوان سے تعریفی اور تعزیتی مضمون لکھا۔ وادی سے آخری آبلہ پا بھی روانہ ہوا۔ اب سیانے لوگوں کا دور ہے‘ دیوانے جا چکے یا جانے والے ہیں۔ پاکستان سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے پاکستان کی مٹی میں مل گئے۔ خدا تعالیٰ ان کی روح کو پرُسکون رکھے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved