تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     12-03-2019

رہائی

قارئین دو تین برس پہلے میرے بازوئوں اور بالخصوص ہاتھوں میں لرز ش پیدا ہوئی ‘ پھر یہ کچھ بڑھ گئی اور لوگ اس کے بارے میں سوال کرنے لگے ۔میں اسے نظر انداز کرتا رہا‘ لیکن آخر ڈاکٹر سے رجوع کرنا پڑا۔ آج ایک بڑے نیورو فزیشن نے تصدیق کر دی ہے کہ مجھے Idiopethic Tremors نامی بیماری لاحق ہے ۔ جس میں جسم میں لرزش پیدا ہو جاتی ہے‘ لیکن یہ Parkinsonجیسی خوفناک بیماری نہیں ‘ جس میں انسان slowہوتا چلا جاتاہے ؛ البتہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ لرزش بڑھ سکتی ہے ۔ 
اس کے علاوہ مجھے acid refluxبھی ہوتاہے ‘ معدے سے خوراک واپس منہ تک آسانی سے آجاتی ہے ۔ ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق‘ میں نے ایک برس میں گیارہ کلو گرام وزن کم کیا ہے ۔ میں نے میڈیکل سائنس پر خاصی ریسرچ کر رکھی ہے ۔ 
fundoplicationنامی ایک پروسیجر ہوتاہے ‘ جس میں خوراک کی نالی اور معدے کے سنگم پر ٹانکے لگا کر اس refluxکا راستہ روکا جاتاہے ۔میرے کیس میں یہ پروسیجر نہ کروانے کا نقصان ‘اسے کروانے کے نقصان سے کافی کم ہے ۔ دبئی میں اگر کوئی ڈاکٹر عامر نثار تک رسائی رکھتا ہو تو برائے مہربانی ان کی پاکستان آمد سے متعلق updateکرے ۔ مجھے انہی سے یہ پروسیجر کروانا ہے ۔ یہ دو چھوٹی چھوٹی بیماریاں ہیں ‘ جنہیں خدا نے میرے لیے ڈیزائن کیا ہے ۔ میں ان دونوں کی موجودگی میں بالکل نارمل زندگی گزار سکتا ہوں‘ بلکہ اللہ کے فضل سے میرے اندر غیر معمولی دم خم موجود ہے ۔ 
اب میں آپ کو ایک نوجوان کی کہانی سناتا ہوں ۔ وہ غلط رستوں پہ چل نکلا تھا۔ گائوں میں جب بھی کوئی واردات ہوتی‘ اس کا نام گونجتا ۔ گائوں والے اکھٹے ہو کر اس کے گھر آتے ‘ اس کے ماں باپ کو کوسنے دیتے ۔ اکثر پولیس بھی اسے ڈھونڈنے آ نکلتی اورشبے کی بنیاد پر دھر لیتی۔ 
ایک روز ایسے ہی ایک ہنگامے کے بعد جب شور ختم ہوا تو اس کے باپ نے کہا : جب سے تم پیدا ہوئے ہو‘ کبھی مجھے سکھ کا سانس نہیں آیا۔ تمہارے پیدا ہونے سے پہلے زندگی کیسی پرُسکون ہوا کرتی تھی ۔ غمزدہ ہو کر اس نے کہا : میںتو یہ کام کب کا چھوڑ چکا‘ لیکن بدنام ہونے کی وجہ سے سب مجھ پر ہی شک کرتے ہیں ۔ 
وہ رونے لگا۔ روتے روتے اس نے کہا کہ مجھے کسی کمرے میں بند کر دیجیے اور باہر سے قفل لگا دیجیے ۔ اس کا باپ سوچنے لگا ‘ پھر اس نے کہا : میں ایسا ہی کروں گا۔ 
وہ مالی طور پر آسودہ تھے ۔ عین سڑک کے اوپر ان کا ایک چھوٹا سا ڈیرہ تھا ۔ صبح جب وہ سو کر اٹھے تو اس کے باپ نے اعلان کیا کہ وہ سب جانور بہت سستے داموں فروخت کررہا ہے ‘ جسے منافع چاہیے ‘ وہ فوراً رابطہ کرے۔ کچھ ہی دیر میں سارے جانور فروخت ہو چکے تھے ۔ اب اس نے ایک کمرہ اپنے بیٹے کے لیے تیار کیا۔ اسے خصوصی قفل لگایا۔ اندر ٹی وی سمیت ساری سہولیات موجود تھیں ۔ کھانا اندر پہنچانے کا بندوبست کیا گیا ۔ اس کے باپ نے اسے وہاں بند کر دیا ۔ عمارت کی پیشانی پر جلی حروف میں لکھوایا کہ میرا بیٹا دین محمد یہاں مقفل ہے ۔ اس کے پاس موبائل فون ہے اور نہ باہر کی دنیا سے رابطے کی کوئی دوسری سہولت۔ آج کے بعد سے گائوں میں ہونے والی کسی واردات سے دین محمد کا کوئی تعلق نہ ہوگا۔ 
دین محمد کے دوست کہتے ہیں کہ وہ بہت پہلے ہی برے کام چھوڑ چکا تھا ؛ اگر وہ آزاد رہنے پہ اصرار کرتا تو کر سکتا تھا‘ لیکن اس نے صرف اپنے خاندان کی خاطر اس ''جیل‘‘ میں رہنا گوارا کر لیا۔ وقت گزرتا گیا ۔ جب کبھی کسی فساد میں دین محمد کا نام لیا گیا تو اس کے باپ نے چابی گائوں والوں کو پیش کی کہ اندر جا کر دیکھیے اور اپنی تسلی کر لیجیے ؛ حتیٰ کہ ایک وقت آیا کہ اس کا نام شکوک و شبہات کی زد سے نکل گیا ۔ 
افسوس اس بات کا ہے کہ مسلمانوں کے جتنے بھی مذہبی رہنما اسلا می غلبے کے علمبردار تھے‘ ان کی وجہ سے اسلامی ممالک کے لیے بار بار مشکلات پیدا ہوئیں ۔ ان میں سے کسی نے کبھی اپنی ذات کو دین محمد کی طرح secrificeکرنے کا سوچا تک نہیں۔ نائن الیون کے بعد امریکہ کا مطالبہ یہ تھا کہ اسامہ بن لادن کو ہمارے حوالے کر دیجیے یا پھر ہم افغانستان پر حملہ کر دیں گے ۔ ملّا عمر کی عظمت کو بھی سلام کہ انہوں نے افغانوں کا قتلِ عام اور افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجوا دی‘ لیکن اس ہیرے کو امریکا کے حوالے نہیں کیا‘ جو فساد کی جڑ تھا ۔ اسامہ بن لادن نے خودبھی نہیں کہا کہ مجھے امریکہ کے حوالے کر دیجیے ‘ کیوں مسلمانوں کا قتلِ عام کرواتے ہیں ۔یہ وہ لوگ تھے ‘ جن کی نظر میں ان کی اپنی ذات بہت قیمتی تھی ۔ اتنی قیمتی کہ اس کے لیے مسلمانوں کا قتلِ عام بھی گوارا کیا جا سکتا تھا ۔ 
یہی حال پاکستان میں پائی جانے والی کچھ نادرِ روزگار ہستیوں کا ہے ۔ ان کی وجہ سے پاکستان پر دبائو آتا ہے ۔ اقوامِ متحدہ میں قراردادیں پیش ہوتی ہیں ۔ پاکستان‘ چین سے رابطہ کرتاہے ۔ اقوامِ متحدہ کی قرار دادیں ویٹو کرائی جاتی ہیں‘ لیکن یہ عظیم ہستیاں کبھی نہیں کہتیں کہ ہماری وجہ سے ہمارے وطن پہ اتنی مشکلات آتی ہیں ‘ کچھ ہم ہی شرم کر لیتے ہیں ۔
اگر انہیں نظر بند کیا جاتا ہے‘ تو اپنی نظر بندی کے خلاف یہ عدالتوں میں جاتے ہیں ۔ اپنے خلاف کوئی ثبوت نہ ہونے کا شور مچاتے ہیں ۔ سکیورٹی ایجنسیاں بھی خوفِ فسادِ خلق میں اپنے ہونٹ سی لیتی ہیں ۔ ورنہ ثبوت بہت سے ہیں ۔ اقوامِ متحدہ انہیں دہشت گرد قرار دے چکی ہے ۔ فرض کیجیے کہ بھارتی اثر ورسوخ اور لابنگ کی وجہ سے ان پر عائد الزامات غلط ہیں تو بھی کیا یہ ملکی مفاد میں اپنی سرگرمیاں ختم نہیں کر سکتے ؛ اگر ان کی تنظیموں کو کالعدم قرار دیا جائے‘ تویہ نئے نام سے نئی تنظیم بنا لیتے ہیں ۔ یہ ملک کے طول و عرض کے دورے کرتے ہیں ۔ مینارِ پاکستان کے سائے میں امریکہ کے خلاف تقاریر کرتے ہیں ۔ یہ تقاریر ریکارڈ کی جاتی ہیں ۔ عالمی اداروں میں پاکستان کے خلاف بطورِ ثبوت پیش ہوتی ہیں ۔ 
بتانا صرف یہ مقصود ہے کہ یہ لوگ ماضی میں زندہ ہیں ۔ ان کی سوئی کئی عشرے پیچھے ہی اٹکی ہوئی ہے ‘ مثلاً :وہ یہ فرماتے ہیں کہ القاعدہ ‘امریکہ نے بنائی تھی ‘ بالکل ٹھیک۔ امریکہ نے اپنے مفاد میں بنائی تھی ۔ جب مفادختم ہو گیا‘ سویت یونین ٹوٹ گیا اور القاعدہ امریکہ مخالف ہو گئی تو مناسب وقت پر اس نے القاعدہ کو تباہ کر دیا ۔ آپ کب ماضی سے نکلیں گے ؟ مسلمانوں میں بھی کچھ حکمت ہونی چاہیے یا نہیں ؟ اگر اس بنیاد پر پیچھے جائیں کہ ماضی میں کس نے کیا کیا تو پھر یورپی اقوام نے ریڈ انڈینز کا قتلِ عام کیا۔ کیا پھر ہم براعظم امریکا کو واپس ریڈ انڈینز کے حوالے کرنے کی تحریک چلائیں ؟ اس سے بھی پیچھے جائیں تو شروع میں جا کر سب انسانوں کا شجرہ ٔ نسب تو آدم علیہ السلام سے جا کر ملتاہے ۔ ہابیل اور قابیل سے نہ آغاز کر لیں‘ اپنے تنازعات سلجھانے کا ؟
یہ لوگ فلاحی سرگرمیوں کو عوام میں مقبولیت کے لیے استعمال کرتے ہیں ؛ اگر آپ باخبر حلقوں سے رازداری میں پوچھیں تو وہ کہتے ہیں کہ جی ہاں ‘ فلاں گل‘ فلاں فلاں نے کھلایا تھا‘ لیکن ہم اقوامِ عالم کے سامنے یہ بات مان نہیں سکتے ۔ الغرض یہ لوگ ایسی اولاد کی طرح ہیں ‘ جو اپنے والدین کیلئے ہمیشہ مصیبت کا باعث ہی ہوتی ہے ۔ دعا کریں کہ پاکستان کو ایسی اولاد سے ''رہائی‘‘ نصیب ہو ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved