ضلع لیہ کے شہر کوٹ سلطان سے کچھ فاصلے پر گائوں میں ہر طرف گندم کی سرسبز فصل اور مالٹوں کے باغات میں گھرے خوبصورت گھر کے باہر جام اقبال، جام حسنین اور جام خالد کے ساتھ اپنے سکول کے زمانے کے استاد جام کرم الٰہی کی فاتحہ کے لیے ہاتھ اوپر اٹھائے تو دل اداسی سے بھر گیا۔ برسوں پہلے کے وہ دن یاد آئے جب میں نے کوٹ سلطان ہائی سکول میں داخلہ لیا تھا‘ اور جام کرم الٰہی نے ہماری کلاس پڑھانا شروع کی تھی۔ ایک دراز قد اور خوبصورت انسان۔ کبھی کبھار مجھے لگتا وہ کسی اور زندگی میں جنگجو ہوں گے۔ جتنا وہ مسکراتے اور قہقہے لگاتے‘ اتنا ہی غصہ بھی کرتے‘ لیکن جب بچوں کو پیار کرنے پر آتے تو بھی کھل کر کرتے۔ ان سے ساتویں اور آٹھویں جماعت پڑھی۔ میں ان کا لاڈلا شاگرد تھا۔
بعض باتیں اتفاقاً ہی پتہ چلتی ہیں اور دل پر ایک گہری اداسی چھوڑ جاتی ہیں۔ میں پچھلے ماہ گائوں گیا ہوا تھا۔ کوٹ سلطان سے گزر رہا تھا۔ ایک جگہ رک گیا تاکہ گھر کے لیے مٹھائی لیتا جائوں۔ گاڑی کا شیشہ تھپتھپانے کی آواز سنی۔ شناسا سا چہرہ نظر آیا۔ گاڑی سے اترا تو ماضی آنکھوں کے سامنے پھر گیا۔ ہم نے ایک دوسرے کو کچھ دیر دیکھا‘ مسکرائے اور گلے لگ گئے۔
وہ میرا برسوں پہلے کا کوٹ سلطان سکول میں کلاس فیلو سلیم تھا۔ وہیں کھڑے کھڑے پتہ ہی نہیں چلا کہ کب ہماری باتیں کہاں سے شروع ہوئیں‘ اور کہاں پہنچ گئیں۔ ایک زمانہ لمحوں میں گزر گیا۔ ہم سڑک پر گاڑی کے ساتھ کھڑے پتہ نہیں کتنی دیر باتیں کرتے رہے۔ سلیم اور میں سکول کی کلاس میں تین سال تک اکٹھے بیٹھتے تھے۔ میں کلاس فیلوز کا پوچھتا رہا، مختار، ارشد، نذر منجھوٹہ، یٰسین، عباس، عبیداللہ کہاں ہیں۔
سلیم کوٹ سلطان میں رہتا ہے‘ لہٰذا اس کے پاس دوستوں کا سارا ڈیٹا ہوتا ہے‘ کون آج کل کہاں ہے اور کیا کر رہا ہے۔ اچانک میں نے پوچھ لیا: یار وہ فاروق جام اور خالد جام کدھر ہیں؟ وہ پہلے چپ ہو گیا‘ پھر بولا: تمہیں پتہ نہیں استاد جام کرم الٰہی فوت ہو گئے ہیں۔ جام کرم الٰہی ہمارے کلاس فیلوز فاروق اور خالد کے ماموں اور ہمارے استاد تھے۔
یہ سن کر جھٹکا لگا۔ چھ سال قبل ان سے ملاقات ہوئی تھی‘ جب وہ نعیم بھائی کی وفات پر تعزیت کے لیے گائوں آئے تھے۔ اس وقت وہ مضبوط لگ رہے تھے۔ دو ہزار پندرہ میں ریٹائرمنٹ کے برسوں بعد بلدیاتی الیکشن بھی لڑا تھا‘ جس پر میں نے کالم میں یہ پیشکش کی تھی کہ اگر استاد صاحب حکم کریں تو ان کے لیے ووٹ مانگوں۔
ان کے بیٹے حسنین جام سے تعزیت کرتے کرتے ان کی ایک بات نے دل مزید دکھی کر دیا۔ وہ خود ہمیں کبھی کبھار ایک آدھ چانٹا جڑ دیتے تھے‘ لیکن کسی اور استاد کو جرأت نہ ہونے دیتے کہ ان کی کلاس کے بچوں کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنائیں۔ ایک دفعہ ہمیں ایک استاد نے بہت مارا‘ بلکہ یوں کہیں بہت تشدد کیا۔ اتنا مارا کہ ہم سے کلاس میں بیٹھا بھی نہیں جا رہا تھا۔ سردیوں کے دن تھے۔ پہلے ہاتھوں پر چھڑی سے بہت مارا اور پھر کان پکڑوا کر پُشت پر مارا۔
جب جام کرم الٰہی کلاس میں آئے تو آدھی کلاس بیٹھی رو رہی تھی۔ ہم سب کو روتے دیکھ کر ان سے برداشت نہ ہوا۔ خالد اور فاروق نے ماموں کو دیکھا تو وہ مزید اونچا اونچا رونے لگ گئے۔ جام کرم الٰہی کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کریں۔ ان کی آنکھوں میں کرب واضح تھا۔ وہ ہم سب کو لے کر ہیڈ ماسٹر جام ظفراللہ صاحب کے پاس لے گئے‘ اور غصے میں بولتے رہے کہ اس استاد کو سزا دیں ورنہ وہ خود اس استاد کو ماریں گے جنہوں نے ان بچوں پر تشدد کیا ہے۔ بڑی مشکل سے انہیں ٹھنڈا کیا گیا اور استاد کو غلطی کو احساس دلوایا گیا۔ وہ کہتے تھے: ہم بھی ایک آدھ تھپڑ جڑ دیتے ہیں‘ لیکن یہ کیا تُک ہے کہ بچوں پر اتنا تشدد کیا جائے کہ وہ گھنٹوں روتے رہیں۔
جام کرم الٰہی کے بیٹے جام حسنین سے تعزیت کرتے ہوئے کافی دیر دل اداس رہا۔ بے شک آپ کچھ لوگوں سے برسوں نہ ملیں لیکن ایک احساس رہتا ہے کہ آپ جب چاہیں گے‘ ان سے مل لیں گے۔ آپ ان کی موجودگی کو ہزاروں میل دور بھی محسوس کرتے رہتے ہیں۔ آپ کو ان کی کمی محسوس نہیں ہو رہی ہوتی کیونکہ ان کی جگہ کچھ اور لوگوں نے لے لی ہوتی ہے۔ اچانک ایک دن جب وہ چلے جاتے ہیں تو آپ کو لگتا ہے ان کے ساتھ آپ کا بھی کچھ چلا گیا ہے‘ جو شاید واپس نہ آئے۔
سردیوں کی اس دھوپ میں مالٹوں کے باغات کے درمیان جام اقبال، جام حسنین، جام خالد کے ساتھ چارپائی پر بیٹھے‘ آنکھوں کے سامنے کتنے پیارے استادوں کے چہرے ابھرے جنہوں نے پرائمری سے لے کر کالج‘ یونیورسٹی تک ہمیں انسان بننے میں مدد دی۔ بستی کے پرائمری سکول میں گل محمد ونجھیرہ، استاد طالب حسین شاہ، استاد نذیر قریشی‘ سب سے جڑی یادیں کبھی کبھار تنگ کرنے آجاتی ہیں۔ وہ دن یاد آ گئے جب سکول جانا ایک عذاب لگتا تھا۔ جب کوئی بچہ سکول نہ آتا تو جمن شاہ کے استاد طالب حسین شاہ‘ جو ہیڈ ماسٹر تھے‘ لڑکوں کا ایک ٹولہ بستی بھیجتے‘ جو بچوں کو ڈنڈا ڈولی بنا کر لے آتا۔ پورا گائوں وہ سین دیکھتا۔ بچہ رو کر کبھی ماں‘ تو کبھی دادی کے پیچھے چھپ رہا ہوتا۔ دادی بے چاری بچانے میں ناکام رہتی تو وہ بچہ گھر سے بھاگتا، کھیتوں سے نکلتا اور پھر پورا گائوں اس کے پیچھے لگ جاتا۔ ایک ایسا تماشا ہوتا‘ جس کے شروع میں ہم سب کو مزہ آتا‘ لیکن جب اس لڑکے کو زور زور سے روتے، اس کی آنکھوں میں آنسو اور خوف دیکھتے تو ہم خود بھی ڈر جاتے۔ اگر سکول میں کسی بچے کو مار پڑ رہی ہوتی اور گائوں کا کوئی بڑا گزر رہا ہوتا تو وہ استاد جی کے منت ترلے کرنے آ جاتا۔ اکثر ہمارے گائوں کے بڑے رب نواز مرحوم ہی سب بچوں کو بچانے آتے تھے۔ مجھے امید ہے خدا نے رب نواز مرحوم کو اس لیے جنت میں جگہ دی ہو گی کہ انہوں نے ہم جیسے کئی بچوں کو پرائمری سکول میں استادوں کی مار سے بچایا تھا۔ ان دنوں سکول کی چاردیواری نہیں ہوتی تھی لہٰذا ہم پوری دنیا کو آتے جاتے دیکھ رہے ہوتے اور وہ ہمیں۔ میں خود پرائمری سکول داخل ہوا تو اماں روزانہ گھر کے ملازم کے ہاتھ سکول میں بھینس کے دودھ کا گلاس بھیجتی تھی۔ ایک دن سکول کے استادوں کو چائے کے لیے دودھ نہ ہوا تو ایک استاد صاحب نے آدھا گلاس میرا دودھ لے لیا۔ میں گھر گیا تو اماں کو کہا: آئندہ میرے لیے دودھ سکول نہ بھیجنا۔ اماں نے وجہ پوچھی تو کہا: استاد جی نے آدھا گلاس لے لیا تھا۔ وہ ہنس کر بولیں: کوئی بات نہیں‘ کل سے میں استادوں کے لیے بھینس کا دودھ الگ سے بھیجوں گی تاکہ وہ چائے پئیں۔ اور پھر برسوں تک استادوں کی چائے کے لیے بھینس کا دودھ علیحدہ جاتا رہا۔ اماں ہمارے استادوں کو گندم، گھی اور دیگر گھریلو اشیا بھی بھیجتیں تاکہ وہ ان کے بچوں کو اچھی طرح پڑھائیں۔
میں خود بھی گائوں کے دیگر بچوں کی طرح سکول جانے سے ڈرتا تھا کیونکہ مار پڑتی تھی۔ اماں نے اس کا حل نکالا۔ اماں کو پتہ تھا‘ مجھے دس پیسے کا بھاری سکہ بہت پسند ہے۔ اماں نے بہت سارے دس پیسے کے سکے استاد نذیر قریشی صاحب کو دیے۔ اگلے دن سکول گیا تو استاد صاحب نے چھٹی کے بعد دس پیسے والا سکہ انعام دیا۔ میں دوڑا دوڑا گھر گیا‘ اور اماں کو بتایا: استاد اور سکول تو بہت اچھا ہیں‘ یہ دیکھیں‘ مجھے دس پیسے دیے ہیں۔ اماں نے کہا: تم روز جائو گے تو روز ملیں گے۔
اماں ان مائوں میں سے نہیں تھیں‘ جو استادوں کو کہیں کہ بچے کو جتنا چاہے مارو۔ ایک دفعہ مجھے استاد نے مارا تو سکول لڑنے پہنچ گئیں اور کہا: ہم نے اپنے بچے کو کبھی نہیں مارا‘ آپ انہیں پڑھائیں نہ کہ ماریں۔ آپ کے مارنے کی وجہ سے یہ سکول آنے سے گھبراتے ہیں۔
یادوں کا ایک ریلا تھا جس میں، میں نے خود کو بے بسی سے بہتے پایا۔ گندم کے دور دور تک پھیلے کھیت اور مالٹوں کے باغوں میں بیٹھے دور دور تک پھیلی سرما کی دھوپ نے دل مزید اداس کر دیا تھا۔ ماضی سے رشتہ مزید کمزور ہوا۔ برسوں پہلے جام کرم الٰہی کی وہ کلاس یاد آئی، وہ سب دوست یاد آئے جو پتہ نہیں زندگی کی دوڑ میں کہاں غائب ہو گئے تھے۔ پرانے زمانوں کے اس جنگجو کا زندگی سے بھرپور قہقہہ اور اتنا ہی بھرپور غصہ یاد آیا۔ دور دور تک کھیتوں میں پھیلی سرما کی اس سنہری دھوپ میں آنکھیں موند لیں تو یوں لگا‘ اپنے استاد جام کرم الٰہی صاحب کے ساتھ اپنے ماضی کا ایک حصہ بھی دفن ہوگیا ہے۔