تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     13-03-2019

کچھ اچھا ہو رہا ہے!

حکومت کی سر توڑ کوشش اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدد سے پاکستان کو دوست ممالک سے ملنے والے ڈالروں نے ایک سال کا مسئلہ تو حل کر دیا ہے‘ لیکن اب سوال یہ ہے کہ اسی سال ستمبر کے بعد کیا پھر کشکول پکڑ کر ہمیں ملکوں ملکوں گھومنا پڑے گا یا ہمیں اپنے طور پر کچھ کر دکھانا ہے؟ وقت تیزی سے گزرتا جا رہا ہے اور آئندہ چھ ماہ کے دوران ہم نے کچھ نہ کیا تو ایک بار پھر اسی صورتحال کا سامنا ہو گا جو پچھلے سال اگست میں تھا‘ یعنی دیوالیہ ہونے کا خطرہ۔ بڑھک بازوں کے لیے ملک کے دیوالیہ ہونے کا مطلب عرض ہے کہ پھر عالمی ساہوکار بصورت آئی ایم ایف اسلام آباد آ کر بیٹھ جائیں گے‘ اور آپ کا بجٹ بنا کر دیا کریں گے۔ وہی طے کریں گے کہ ہمیں دفاع پر کتنا خرچ کرنا ہے، ترقیاتی کاموں کے لیے کتنے پیسے رکھنے ہیں اور سرکاری نوکروں کی تنخواہیں کتنی کتنی رکھنی ہیں۔ یعنی آزادی، اقتدار اعلیٰ اور خود مختاری وغیرہ جیسی اصطلاحات صرف کتابوں میں رہ جائیں گی یا بڑھکوں میں استعمال ہوا کریں گی۔ ان شا اللہ ایسا نہیں ہو گا لیکن اس وقت جس معاشی بحران کا سامنا ہے اس میں سے نکلنے کے لیے کوئی راستہ تو سوچنا ہو گا، سو اچھی خبر یہ ہے کہ کچھ ایسے کام حکومت کرتی نظر آتی ہے جو بہتری کی امید دلا رہے ہیں۔ اگرچہ سمت کے درست ہونے کے باوجود یہ خدشہ اپنی جگہ ہے کہ نا اہل بیوروکریسی اور وزیر اعظم کی کابینہ میں پائے جانے والے مہا نالائق وزرا سب کچھ برباد کر دیں گے۔ بہر حال پاکستان معاشی میدان میں بہت آہستہ رفتار سے ہی سہی، ٹھیک راستے پر پڑتا نظر آتا ہے۔ 
درست راستے پر پہلا قدم تھا ملک میں درآمدات کو روکنا۔ ظاہر ہے روکنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ بیرون ملک سے آنے والا سامان مکمل طور پر روک دیا جائے‘ لیکن ضروری تھا کہ اندھا دھند درآمدات پر کوئی روک لگائی جائے تاکہ ملک کے مسلسل بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے پر قابو پایا جا سکے۔ حکومت نے آتے ہی درآمدی مال پر ڈیوٹی اور ٹیکس بڑھا کر کم از کم اتنا کر لیا ہے کہ رواں مالی سال کا تجارتی خسارہ پچھلے مالی سال کے مقابلے میں پانچ ارب ڈالر کم ہو گا۔ یعنی پچھلے مالی سال میں ہمیں پینتیس ارب ڈالر کے تجارتی خسارے کا سامنا تھا جو اس سال شاید تیس ارب ڈالر کے قریب قریب ہو گا۔ اس کے اثرات ابھی سے سامنے آنے بھی لگے ہیں کہ مالی سال کے پہلے سات ماہ کے دوران ہمارا تجارتی خسارہ انیس ارب ڈالر ہے جو پچھلے مالی سال کے انہیں مہینوں میں اکیس ارب ڈالر تھا۔ ایک فرق یہ بھی ہے کہ پچھلے سال جنوری میں اس وقت کی وفاقی حکومت کو اس کی کوئی خاص پروا نہیں تھی لیکن موجودہ حکومت کو اس کی خاصی فکر ہے۔ اگر درآمدات کم کرنے کا یہ اندازِ فکر جون میں پیش کیے جانے والے بجٹ میں بھی نظر آتا ہے تو حالات مزید بہتر ہونے کی توقعات بھی قائم کی جا سکتی ہیں۔ 
دوسرا قدم ہے‘ مقامی صنعتوں کی اور بالخصوص چھوٹی صنعتوں کی حوصلہ افزائی۔ اس معاملے میں ابھی تک اتنا ہوا ہے کہ اگر بینک چھوٹی صنعتوں کو قرض دیں گے تو انہیں ٹیکس میں رعایت ملے گی۔ بظاہر یہ بڑا کام لگتا ہے لیکن در حقیقت مقصد کے حصول میں اس کی اہمیت بہت ہی کم ہے۔ چھوٹے صنعت کاروں کا اہم ترین مسئلہ چین سے بے تحاشا ہونے والی درآمدات ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں کیے گئے معاہدے میں چین کو اندھا دھند رعایتیں دی گئی تھیں‘ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ گزشتہ دس برسوں میں ہماری چھوٹی صنعتیں برباد ہو چکی ہیں۔ ان صنعتوں کو زندہ کرنا ہے تو سب سے پہلے چین سے درآمدات کو کنٹرول میں لانا ہو گا۔ اس حوالے سے کچھ زیادہ نہیں ہو رہا۔ چھوٹی صنعتوں کا دوسرا مسئلہ ہے‘ سرکاری محکموں کی بد معاشی۔ یہ مسئلہ صرف اسی صورت میں حل ہو سکتا ہے کہ وزیر اعظم خود بھیس بدل کر یا ان کا کوئی اعتماد والا ملک کے کسی بھی شہر میں ایک چھوٹا سا کارخانہ لگانے کی کوشش کرے۔ انہیں تبھی اندازہ ہو گا کہ مقامی بلدیاتی اداروں سے لے کر ایف بی آر تک درجنوں محکمے اس کا خون چوسنے کے لیے چڑھ دوڑیں گے۔ ستر فیصد چھوٹے کاروبار ان سرکاری جونکوں کو خون پلانے کے بعد اٹھنے کے قابل ہی نہیں رہتے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتے ہیں۔ اس مسئلے کو حل کرنے کی کچھ کوشش ہو تو رہی ہے مگر یہ بہت کم ہے اور بہت سست بھی۔
تیسرا قدم ہے‘ چھوٹے گھروں کے لیے رعایتی نرخوں پر قرضوں کی فراہمی۔ یہ ایسا قدم ہے جس کی وجہ سے جلد ہی پاکستان میں تعمیرات کی دنیا بدل سکتی ہے۔ اگر اس قرضے کے ساتھ یہ پابندی بھی لگا دی جائے کہ اس سے بننے والے مکان میں سو فیصد مقامی سامان استعمال ہو گا تو اس سے چھوٹی صنعتوں میں بھی تیزی آ سکتی ہے۔ ایک چھوٹا مکان بہت تیزی سے مکمل ہوتا ہے اور رواں سال میں اگر دو لاکھ گھر اس سکیم کے تحت بن جائیں تو آئندہ سال یہ تعداد آرام سے دس بارہ لاکھ ہو سکتی ہے۔ تعمیرات کے آغاز کا مطلب ہے چالیس صنعتوں کا چلنا‘ اس لیے یہ کام جس قدر جلد شروع کیا جا سکے اس کا اتنا ہی زیادہ فائدہ ہو گا۔ 
چوتھا اچھا قدم جو حکومت نے اٹھایا ہے‘ وہ برآمدات بڑھانے سے متعلق ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس کے نتائج فوری طور پر نہیں آ سکتے لیکن چند ایسے کام ہیں جو کر لیے جائیں تو شاید فوری طور پر نتائج سامنے آنا شروع ہو جائیں۔ مثلاً کپاس اور دھاگے کی برآمد پر ہر قسم کی رعایت ختم کر دی جائے تاکہ ملک سے کپڑا باہر جائے نہ کہ خام مال۔ اس کے علاوہ پاکستان کے اندر بہت سے کپڑوں کے ایسے برانڈز ہیں جو دنیا بھر میں دوسرے ممالک کے کپڑوں کے برانڈز کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ ان برانڈز کو پاکستانی روپے میں (ڈالر میں ہرگز ہرگز نہیں) کوئی ایسی رعایت دی جائے کہ خالص مقامی برانڈز کے کپڑے ملک سے باہر بھیجے جا سکیں۔ بالخصوص سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ملائیشیا اور چین ایسے ملک ہیں‘ جہاں تھوڑی سی کوشش کے ساتھ ہمیں منڈی میں رعایتی داخلہ مل سکتا ہے۔ مگر اس کام کے لیے وزارت خارجہ اور وزارت تجارت کو بے پناہ متحرک ہونا پڑے گا‘ جس کے کوئی امکانات اگلے سو برس میں تو نظر نہیں آتے؛ تاہم ہو سکتا ہے عمران خان یہ کام بھی کر گزریں۔ 
حکومت نے اب تک معاشی میدان میں جو چار اقدامات کیے ہیں ان سے ہماری معاشی مسائل حل تو نہیں ہوئے اور اگلے سال تک حل ہو بھی نہیں پائیں گے لیکن یہ طے ہے کہ اگر اہل لوگ ان پالیسیوں کو آگے بڑھانے پر مامور ہو جاتے ہیں‘ تو تین چار سال میں صورتحال میں مثبت تبدیلی آ سکتی ہے۔ اہلیت وہ شعبہ ہے جس میں پاکستان عمومی طور پر زیادہ خوش نصیب نہیں‘ لیکن تحریک انصاف تو الّا ما شااللہ اتنی بد قسمت ہے کہ اس کے پاس درجن بھر لوگ بھی ایسے نہیں جنہیں مسائل کا ادراک ہو اور ان میں ان مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت بھی ہو۔ جو دو چار لوگ ہیں وہ پالیسی سازی کی سطح پر اپنا کام کر رہے ہیں۔ ان پالیسیوں کو زمین پر نافذ کرنے کے لیے ایسے مردانِ کار کی ضرورت ہے‘ جو اپنے ساتھ اہل لوگوں پر مشتمل کوئی ٹیم بھی بنا سکیں اور پھر مسلسل مانیٹرنگ بھی کرتے رہیں۔ مجھے تحریک انصاف کی پہلی اور دوسری صف میں کوئی ایسا شخص نظر نہیں آتا جسے زمینی حقائق کا ذرا سا بھی اندازا ہو۔ اسی لیے ڈر یہ ہے کہ جب یہ پالیسیاں نکمّی بیورکریسی کے ہاتھ چڑھیں گی تو وہ ان کا حشر کیا کرے گی؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کی وجہ سے پاکستان اس حال کو پہنچا ہے، ان لوگوں پر ایک دھیلے کا بھی اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ 
حکومت نے اب تک معاشی میدان میں جو چار اقدامات کیے ہیں ان سے ہماری معاشی مسائل حل تو نہیں ہوئے اور اگلے سال تک حل ہو بھی نہیں پائیں گے لیکن یہ طے ہے کہ اگر اہل لوگ ان پالیسیوں کو آگے بڑھانے پر مامور ہو جاتے ہیں‘ تو تین چار سال میں صورتحال میں مثبت تبدیلی آ سکتی ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved