تحریر : عمار چودھری تاریخ اشاعت     13-03-2019

جھوٹ اور بے ایمانی کا سودا

کاندھلہ اتر پردیش کا ایک مشہور قصبہ ہے۔ تقریباً ڈیڑھ صدی قبل وہاں پر مظفر حسین نامی انتہائی خدا ترس عالم رہتے تھے۔ کئی حج کر چکے تھے۔ انہیں کلام الٰہی کو ترجمے کے ساتھ سنانے کا ملکہ حاصل تھا۔ مولوی صاحب اچھی باتوں پر عمل کرتے اور دوسروں کو بھی ان پر عمل کی تاکید کرتے۔ پورے علاقے میں ان کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ وعدے کے پابند اور زبان کے سچے ہیں۔ چاہے ان کی جان ہی کیوں نہ چلی جائے‘ نہ وعدہ خلافی کرتے ہیں‘ نہ جھوٹ بولتے ہیں۔ 1866ء کی بات ہے۔ وہ اپنے کنبے کے ساتھ کاندھلہ سے گنگوہ جا رہے تھے۔ اس زمانے میں لوگ پیدل یا بیل گاڑیوں پر سفر کرتے تھے۔ ان کے خاندان کے لوگ بھی اسی طرح سفر پر نکلے۔ ایک سنسان جگہ پر ان کے قافلے کو ڈاکوئوں نے گھیر لیا۔ حضرت نے جب محسوس کیا کہ ڈاکو حملہ کرنے والے ہیں تو اپنی بیل گاڑی سے اتر کر وہ ڈاکوئوں کے سردار کے پاس گئے اور اس سے کہا: حملہ کرنے سے پہلے میری ایک بات سن لو۔ سردار نے پوچھا: کیا کہنا چاہتے ہو؟ کہا: میں تمہارے ساتھ ایک معاملہ کرنا چاہتا ہوں۔ سردار نے پوچھا: کیا معاملہ کرنا چاہتے ہو؟ حضرت نے فرمایا: تمہیں روپیہ‘ پیسہ‘ زیور اور قیمتی سامان چاہیے تو تمہاری یہ غرض بغیر حملہ کئے بھی پوری ہو سکتی ہے‘ تم ہماری عورتوں کو مت چھیڑنا اور نہ ہی ہاتھ لگانا‘ ہم اپنا سارا قیمتی اثاثہ تمہارے حوالے کر دیں گے۔ سردار رضا مند ہو گیا۔ وہ اور اس کے ساتھی ایک طرف بیٹھ گئے۔ مولوی صاحب گھر والوں کے پاس آئے اور کہا: جس کے پاس جو زیور‘ روپیہ پیسہ یا قیمتی سامان ہے‘ مجھے دے دو اور کوئی بھی چیز اپنے پاس نہ رکھو۔ عورتوں نے سب کچھ جمع کرکے مولوی صاحب کے حوالے کر دیا۔ وہ سارا اثاثہ لے کر سردار کے پاس گئے اور کہا: بھائی! دیکھو‘ میں سب سامان لے آیا ہوں۔ سامان کی گٹھڑی ان کے حوالے کرنے کے ساتھ ہی ڈاکوئوں کا شکریہ بھی ادا کیا کہ انہوں نے ان پر اعتبار کیا اور عورتوں کو ہاتھ نہیں لگایا۔ ڈاکو سامان لے کر خوش ہو گئے اور مولوی صاحب کا قافلہ گنگوہ کی طرف چل پڑا۔ ابھی قافلہ تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ قافلے کی عورتوں میں کھسر پھسر ہونے لگی۔ مولوی صاحب نے پوچھا: کیا بات ہے؟ پہلے تو عورتیں ہچکچائیں لیکن جب سختی سے پوچھا گیا تو ایک بی بی نے بتا دیا کہ فلاں لڑکی کہہ رہی ہے میں نے اپنی ہنسلی (گلے کا ایک زیور) کپڑوں کے نیچے چھپا لی تھی‘ اس لئے وہ میرے پاس بچ گئی ہے۔ یہ سنتے ہی مولوی صاحب نے گاڑی رکوائی اور نیچے اُتر کر اس لڑکی سے کہا: بی بی! یہ تو وعدہ خلافی ہے۔ ہم نے ڈاکوئوں سے وعدہ کیا تھا کہ سارا زیور اور مال انہیں دے دیں گے‘ اس لئے یہ زیور تو ان کا ہو چکا۔ لائو یہ مجھے دے دو‘ میں اسے ڈاکوئوں کو دے آئوں۔ اس نیک بی بی نے ہنسلی اتار کر مولوی صاحب کے حوالے کر دی۔ مولوی صاحب تیز تیز قدموں سے واپس وہاں پہنچے جہاں ڈاکوئوں کو چھوڑا تھا۔ ڈاکوئوں نے مولوی صاحب کو تیزی سے اپنی طرف آتے دیکھا تو سمجھے کہ شاید انہیں کہیں سے مدد مل گئی ہے اور وہ اپنا سامان لینے آ رہے ہیں۔ اس خیال سے انہوں نے ہتھیار اٹھا لئے۔ یہ دیکھ کو مولوی صاحب نے بلند آواز سے کہا: نہ میں تمہارا پیچھا کر رہا ہوں نہ میرا لڑنے کا ارادہ ہے‘ بلکہ میں تمہاری ایک امانت لوٹانے آیا ہوں۔ ڈاکو ایک دوسرے کا منہ دیکھ کر کہنے لگے: کون سی امانت؟ اتنے میں حضرت ڈاکوئوں کے پاس پہنچے اور ان کے سردار سے مخاطب ہو کر فرمایا: بھائی میں تم سے معافی مانگنے اور تمہاری امانت واپس کرنے آیا ہوں۔ ہم نے تم سے وعدہ کیا تھا کہ ہم اپنا تمام روپیہ پیسہ اور زیور وغیرہ تمہارے حوالے کر دیں گے‘ لیکن افسوس کہ ایک بچی نے یہ ہنسلی اپنے کپڑوں میں چھپا لی تھی۔ اب تم یہ لے لو اور وعدہ پورا نہ کرنے پر جو کوتاہی ہم سے ہوئی‘ اسے معاف کر دو۔ بچی سے نادانی میں یہ غلطی ہو گئی تھی۔ مولوی صاحب کی بات سن کر ڈاکوئوں کا سردار حیران رہ گیا اور بولا: آپ مولوی مظفر حسین کاندھلوی تو نہیں ہیں؟ اس علاقے میں ان کے سوا کوئی اور تو ایسا سچا آدمی سننے میں نہیں آیا۔ مولوی صاحب نے فرمایا: ہاں بھائی! مظفر حسین میرا ہی نام ہے۔ یہ سنتے ہی ڈاکوئوں کا سردار رونے لگا اور مولوی صاحب سے لپٹ کر بولا: مولوی جی! آج سے میں اس کام سے توبہ کرتا ہوں۔ اللہ سے دعا کریں کہ وہ مجھے معاف کر دے۔ اپنے سردار کو دیکھ کر اس کے دیگر ساتھیوں نے بھی اپنے اس کام اور گناہوں سے توبہ کر لی‘ مولوی صاحب کے قافلے سے لوٹی ہوئی ایک ایک چیز واپس کر دی اور عہد کیا کہ ہم نے آج تک جن جن لوگوں کو لوٹا ہے یا انہیں تکلیف دی ہے‘ انہیں تلاش کرکے ان سے چھینا ہوا سامان اور روپے واپس کر دیں گے اور ان سے معافی مانگیں گے۔
ایمانداری اور ایفائے عہد کا یہ واحد واقعہ نہیں‘ ہماری تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے لیکن سوال یہ ہے کیا ہم نے ایسے واقعات سے کبھی کچھ سیکھا؟ آج ہم معاشرے کو دیکھیں تو بد دیانتی‘ وعدہ خلافی اور خیانت کا دور دورہ ہے اور یہ بیماریاں صرف حکمرانوں یا اشرافیہ میں ہی نہیں بلکہ ایک عام شخص بھی ان کا شکار نظر آتا ہے۔ مسلم ممالک اور مغربی کلچر میں بھی بنیادی فرق ایمانداری کا ہے۔ آپ کسی بھی مغربی ملک چلے جائیں‘ کسی سپر سٹور سے کوئی چیز خرید لیں اور اسے غیر معیاری پا کر اٹھائیس دن بعد بھی واپس کرنے چلے جائیں تو آپ کے پورے پیسے لوٹا دئیے جائیں گے۔ کوئی آپ سے یہ نہیں کہے گا کہ بھائی خریدی چیز واپس نہیں ہو گی۔ اس کے برعکس آپ اپنے ملک کو دیکھ لیں۔ یہاں وارنٹی والی چیز خراب ہونے پر مقررہ مدت میں کلیم کریں گے تو آپ کو مختلف حیلے بہانوں سے ٹرخایا جائے گا۔ آپ دکان سے سودا لے کر باہر نکلیں گے تو چند منٹ بعد دکاندار آپ کو پہچاننے سے انکار کر دے گا۔ آپ مجھے یہاں کوئی مائی کا لعل دکھا دیں جو کہتا ہو: میں اصلی اور خالص دودھ بیچتا ہوں‘ اور وہ دودھ واقعی اصلی اور خالص بھی ہو۔ آپ کوئی ایسی کمپنی دکھا دیں جو منرل واٹر کے نام سے سونے کے بھائو پانی بیچتی ہو مگر اس کے پانی میں منرلز موجود بھی ہوں۔ آپ کوئی ایک درزی‘ کوئی ایک رنگ ساز اور کوئی ایک بڑھئی دکھا دیں جو اپنا کام بروقت پورا کرتا ہو اور جو کام میں خیانت سے باز رہتا ہو۔ کوئی ایک سافٹ ویئر کمپنی دکھا دیں جو آپ کو مطلوبہ معیار کے مطابق کام بروقت مکمل کر دے۔ کوئی ایک ٹھیکیدار بتا دیں جو گھر مکمل کرتے وقت ایک سو دس جگہ ڈنڈی نہ مارتا ہو۔ کوئی ایک قصاب دکھا دیں جو پانی ملا گوشت نہ بیچتا ہو اور کوئی ایک ریسٹورنٹ دکھا دیں جہاں آپ کو سو فیصد یقین ہو کہ یہاں مری ہوئی مرغیوں‘ باسی یا گدھے کا گوشت نہیں کھلایا جاتا۔ میں آپ کو چیلنج کرتا ہوں آپ کو ایسا کوئی ریسٹورنٹ نہیں ملے گا جو اپنے گاہکوں کو تازہ اشیا کھلاتا ہو‘ پانی کی ایسی کمپنی نہیں ملے گی جو منرل واٹر بیچتی ہو‘ اور کوئی ایک دودھ فروش نہیں ملے گا جس کا دودھ پچاس فیصد بھی خالص ہو۔ سوال یہ ہے کہ اگر اس پورے معاشرے میں کوئی دکاندار‘ کوئی کمپنی اور کوئی سیلز مین ایمانداری اور بے ایمانی میں فرق کرنے کو ہی تیار نہیں اور کسی کو حلال اور حرام کا فرق ہی معلوم نہیں تو ایسے معاشرے اور ایسی قوم پر جب عذاب اور مصیبتیں آتی ہیں تو کیا انہیں خدا سے گلہ کرنے کا کوئی حق ہے؟ آج اگر یورپ‘ امریکہ اور چین کی معیشتیں پروان چڑھ رہی ہیں تو اس کی وجہ ایفائے عہد‘ دیانت داری اور ایمانداری ہی ہے۔ یہ خوبیاں ایک مومن کی میراث تھیں‘ جنہیں غیروں نے اپنا لیا؛ چنانچہ آج جب ہم یہ سنتے ہیں کہ سنگا پور کراچی شہر سے چھوٹا ہونے کے باوجود چار سو ارب ڈالرز کی برآمدات کر رہا ہے اور ہم صرف بیس ارب ڈالر تک ہی جا سکے ہیں تو اس کے پیچھے مولوی مظفر حسین کاندھلوی کا وہ ماڈل ہے کہ جس میں ایمانداری اور ایفائے عہد پر سمجھوتہ نہیں کیا جاتا‘ جس میں جھوٹ اور بے ایمانی کا سودا نہیں بیچا جاتا!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved