عوامی مشکلات میں آئے روز اضافہ تشویشناک ہے: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''عوامی مشکلات میں آئے روز اضافہ تشویشناک ہے‘‘جبکہ میں عوامی مشکلات کا ٹھیک ٹھیک اندازہ اپنی مشکلات ہی سے لگاتا ہوں کہ آج مجھ سے بڑا عوام اور کوئی نہیں ہے‘ کیونکہ نا صرف جمع پونجی میں اضافہ نہیں ہو رہا‘ بلکہ جو تھی‘ اُس میں بھی کمی واقع ہو رہی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ مجھے مفلوک الحال کرنے کیلئے ہی مجھے ہروایا گیا تھا اور الیکشن میں کامیاب ہوتے ہی میں اپنے پائوں پر کھڑا ہو جایا کرتا تھا اور کافی کافی دیر تک کھڑا رہتا تھا‘ بیشک میری ٹانگوں پر جتنا بوجھ ہے‘ کسی اور کی ٹانگوں پر کیا ہوتا ہوگا؛ حتیٰ کہ میں حاتم طائی کی قبر پر بھی لات مار سکتا تھا‘ جس کیلئے میں نے حاتم طائی کی قبر کی تلاش بھی شروع کر دی تھی‘ نیز جو لوگ لاتوں کے بھوت ہوں انہیں لانے کیلئے بھی مضبوط لاتوں کا ہونا بیحد ضروری ہے۔ آپ اگلے روز وہاڑی میں ایک وفد سے ملاقات کر رہے تھے۔
حکومت اپوزیشن کو جیل میں ڈالنا چاہتی ہے‘ ہم بھی تیار ہیں: خورشید شاہ
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما سید خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ ''حکومت اپوزیشن رہنمائوں کو جیل میں ڈالنا چاہتی ہے‘ ہم بھی تیار ہیں‘‘ کیونکہ اگر ہم تیار نہ ہوں‘ تو حکومت ہروقت ضرور تیار رہتی ہے‘ تاہم امید کی ایک کرن یہ ہے کہ میثاق جمہوریت کا ڈول دوبارہ ڈالا جا رہا ہے‘ اس لیے امید ہے کہ اسی سے سارے مسائل حل ہو جائیں گے؛ اگرچہ حالات اُس وقت سے کافی مختلف ہیں‘ جب پہلے یہ میثاق ظہور میں آیا تھا۔ اس لیے یار لوگوں کو زیادہ بغلیں بجانے کی ضرورت نہیں‘ جبکہ ویسے بھی بغلیں بجانے کیلئے نہیں ہوتیں ‘بلکہ بغلی گھونسہ مارنے کیلئے ہوتی ہیں یا یہ اس وقت کام آتی ہے ‘جب بچہ بغل میں ہو اور ڈھنڈورا شہر میں۔ آپ اگلے روز بنو عاقل میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
یہ کہنا چھوڑ دیں کہ ہمیں ورثے میں کیا ملا: حمزہ شہباز
نواز لیگ کے مرکزی رہنما اور پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ ''یہ کہنا چھوڑ دیں کہ ہمیں ورثے میں کیا ملا‘‘ کیونکہ یہ بھی ہماری مہربانی تھی‘ ورنہ خزانے میں ایک پائی بھی چھوڑ کر نہ جاتے‘ اس لیے حکومت کو ہمارا شکر گزار ہونا چاہئے‘ لیکن اُلٹا یہ ہمیں طعنے دے رہی ہے اور یہ بھی غنیمت ہے کہ کچھ دے ہی رہی ہے‘ لے تو نہیں رہی ورنہ 'لینا ایک نہ دینا دو‘ کا مسئلہ کھڑا ہو سکتا تھا ؛ بشرطیکہ وہ جوڑوں میں نہ بیٹھے ہوئے ہوں‘ جبکہ پیشیاں بھگت بھگت کر ہمارا تو جوڑ جوڑ پہلے ہی دکھ رہا ہے‘ جیسے کسی نے ہماری دکھتی رگ کو چھو لیا ہو‘ بلکہ اب تو ایک ایک کر کے ہماری ساری رگیں دُکھنے لگی ہیں اور ان میں جو خون رواں ہے‘ اس کی تو اور بھی بُری حالت ہے ‘جبکہ ساری بات حالت ہی کی ہے‘ جو اتنی ابتر نہیں ہونی چاہئے ‘جو ہماری ہو چکی ہے ‘جو صرف اور صرف انتقامی کارروائی کا نتیجہ ہے۔ آپ اگلے روز اسمبلی میں تقریر کر رہے تھے۔
جیل میں گزارے ہوئے میرے دس سال کون واپس کرے گا: گیلانی
سابق وزیراعظم اور پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ''جیل میں گزارے ہوئے میرے دس سال کون واپس کرے گا‘‘ کیونکہ خوش اخلاقی کا تقاضا ہے کہ لی ہوئی چیز کو واپس بھی کر دیا جائے اور میں نے بعد میں ایم بی بی ایس کے طور پر جو خدمت کی تھی‘ وہ صرف اور صرف فی سبیل اللہ تھی اور جو اپنی عاقبت سنوارنے کیلئے تھی اور اگر ایک موقعہ اور مل جائے‘ تو اس خدمت کو مزید چار چاند بھی لگا سکتا ہوں؛ اگرچہ فی الحال ایک ہی چاند دستیاب ہے‘ تاہم باقی تین چاندوں کا انتظام بھی کر لیا جائے گا‘ کیونکہ صاحبِ کردار آدمی‘ جس بات کا ارادہ کر لے‘ اُسے حاصل بھی کر لیتا ہے اور اگر اس دوران میری کردار کشی نہ کی گئی ہوتی ‘تو یہ کردار مثالی تھا‘ جسے ہمیشہ مثال کے طور پر پیش کیا جائے گا‘ جسے مزید نقصان پہنچانے کیلئے نئی انکوائریاں اور تفتیش شروع کر دی گئی ہیں‘ جو یقینا ایک سازش کا نتیجہ ہیں اور اگر یہی حالات رہے ‘تو بتائیے ‘اس ملک کا کیا بنے گا؟ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور ‘ اب کچھ شعر و شاعری ہو جائے:
کہاں کہاں ترے حق میں گواہی دیتا پھروں
کہاں کہاں مرا دنیا سے اختلاف چلے
غلام گردشوں میں کھو چکے خدا‘ راجاؔ
کہیں رُکے مرا کعبہ تو پھر طواف چلے (محمد اویس راجاؔ)
یہ لوگ جا تو رہے ہیں نئے زمانے میں
خدا کرے انہیں رستا سمجھ میں آ جائے
غلط نہ جان کہ آنکھیں رہی نہیں میری
سو چھو رہا ہوں کہ چہرہ سمجھ میں آ جائے
ندیمؔ دوسرا ان کو دکھائی دیتا نہیں
ندیمؔ جن کو بھی پہلا سمجھ میں آ جائے (ندیمؔ بھابھہ)
مرے دکھوں کو سمجھتے ہیں درد جانتے ہیں
چراغ اب مجھے گھر ہی کا فرد جانتے ہیں
بنایا جاتا ہے کس طرح ریت سے پانی
یہ راز چند ہی صحرا نورد جانتے ہیں (علی ارمانؔ)
نظر جگنو کو تتلی مان کر پتھر ہوئی ہے
سیاہی سر پہ سورج تان کر پتھر ہوئی ہے
محبت زندگی کو بازوئوں میں بھرتی بھرتی
اچانک خود کشی کو ٹھان کر پتھر ہوئی ہے (یاسمین سحرؔ)
خیرات میں دے آیا ہوں جیتی ہوئی بازی
دُنیا یہ سمجھتی ہے کہ میں ہار گیا ہوں
دروازے کو اوقات میں لانے کے لیے میں
دیوار کے اندر سے کئی بار گیا ہوں (اسحاق وردگ‘ پشاور)
آج کا مطلع
پانے کے برابر نہ ہی کھونے کے برابر
تھی ایک ملاقات نہ ہونے کے برابر