توقع کے عین مطابق قبائلی علاقوں کو خیبر پختون خوا میں ضم کرنے کا عمل انتظامی اداروں کے درمیان تقسیم اختیارات کی کھینچا تانی میں الجھ گیا ہے۔ خدشہ ہے کہ سول بیوروکریسی اور پولیس کے مابین جاری رسہ کشی نئے اضلاع میں طاقت کا خلا پیدا کر کے اس حساس عمل کی تکمیل دشوار بنا دے گی۔ اس سے قبل، ستّر کی دہائی میں، دیر اور سوات کی ریاستوں کے این ڈبلیو ایف پی (خیبر پختون خوا) میں انضمام کے دوران بھی ارباب اختیار کی ایسی ہی ذہنی تقسیم کی وجہ سے انضمام کی ٹرین ٹریک سے اتر گئی تھی‘ جو آج تک پٹڑی پہ واپس نہیں چڑھ سکی۔ لیکن ماضی کے تلخ تجربات سے سبق سیکھنے کی بجائے ہماری تقدیر کے مالک پھر ایسی راہِ عمل کا انتخاب کر بیٹھے ہیں جو ہمیں دوبارہ بند گلی تک پہنچا سکتی ہے۔ اِس وقت ستّر کی دہائی والے پُر امن حالات ہیں نہ قبائلی معاشرہ دیر، سوات کے صلح جُو عوام کی طرح تابع فرمان، اگر کسی بھی وجہ سے فاٹا میں طاقت کا خلا پیدا ہوا تو شدت پسند مذہبی گروہ یا نسلی عصبیتوں کی حامل سیاسی تحریکیں تیزی سے اس خلا کو پُر کرنے کے لئے آگے بڑھیں گی۔ انتظامی خلا کی وجہ سے ہی تقدیر ہمیں دیر، سوات اور مالا کنڈ میں صوفی محمد کی نفاذ شریعت کی تحریک اور فضل اللہ جیسے انتہا پسند کردار دکھا چکی ہے۔ قبائلی سماج اپنی ساخت کے اعتبار سے نہایت لچک دار مگر ایسا نا قابل تسخیر ڈھانچہ رکھتا ہے‘ جو صرف طاقت کے سامنے سر نگوں رکھنے کا روادار ہے، اس کی مثال اس طاقت ور سپرنگ کی مانند ہے‘ جس پہ اگر وزن رکھ دیا جائے تو سمٹ جاتا ہے لیکن جونہی وزن ہٹتا ہے تو یہ پوری قوت کے ساتھ ابھر کے سامنے آ جاتا ہے۔ پچھلے پندرہ سالوں کے دوران ٹرائیبل معاشرہ جنگی شورش کے جن مہیب مراحل سے گزرا، اس نے بھی قبائلی سماج کی بود و باش، انتظامی ڈھانچے اور اقتصادی وسائل پہ دور رس اثرات مرتب کئے، لاکھوں افراد کی نقل مکانی نے جمے جمائے قبائلی تمدن کی چولیں ہلا ڈالیں، مغربی سرحدوں پہ کشیدگی نے اس خطے کی آزاد معیشت کو پا بہ جولاں رکھا اور اب فاٹا کے خیبر پختون خوا میں ادغام کے معاملے نے اچانک اس انتظامی ڈھانچے کو تحلیل کر دیا‘ جس کی تاریخی قوت کے سامنے جھکنے میں انہیں عار محسوس نہیں ہوتی تھی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نئے حالات میں نئی طاقتیں، نئے خطرات، نئی کمزوریاں اور نئے مواقع کے تال میل سے یہاں نیا تمدن جنم لے گا لیکن ان ٹرانزٹ مراحل میں قبائلی سماج پر خوف اور بے یقینی کے سائے منڈلاتے رہیں گے؛ تاہم ان متضاد عوامل کو منظم کر کے ریاستی قوت میں بدلنے کا انحصار ہمارے ارباب حل و عقد کی انتظامی صلاحیتوں پہ محمول رہے گا۔
حکمران اشرافیہ جس وقت سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات کو پس پشت ڈال کے جلد بازی میں قبائلی علاقوں کو خیبر پختون خوا میں ضم کرنے جا رہی تھی تو انہی سطور میں ہنگامی اقدامات کے مضمرات کی نشاندہی کی گئی تھی‘ لیکن طاقت کے نشے میں سرشار حکومت نے تغیر پذیر عوامل کی فطرت اور قبائلی سماج کی عصبیتوں کی قوت کا درست اندازہ لگانے میں غلطی کی۔ سرتاج عزیز کمیٹی نے فاٹا میں ملازمت کا کیریئر رکھنے والے بیوروکریٹس، منتخب عوامی نمائندوں، عمائدین اور قبائلیوں کی نوجوان نسل سے با معنی مشاورت کے بعد انضمام کا جو روڈ میپ دیا، اس کے تحت 2017ء میں بلدیاتی الیکشن کے ذریعے مقامی حکومتوں کا قیام اور ڈویلپمنٹ کے لئے ایک سو دس ارب روپے سالانہ کا مالیاتی پیکج، 2023ء میں سپریم اور ہائی کورٹس کے دائرہ اختیارکی نئے قبائلی اضلاع تک توسیع اور پھر آخر میں آئینی ترامیم کے ذریعے قومی و صوبائی اسمبلی کے انتخابات کرا کے کم و بیش دس سالوں میں فاٹا کی قومی دھارے میں بتدریج شمولیت کی تجویز پیش کی گئی تھی، یعنی پہلے مرحلے میں بلدیاتی اداروں کی صورت میں متبادل انتظامی ڈھانچے کی تکمیل، دوسرے مرحلے میں ترقیاتی عمل کی ابتدا، تیسرے مرحلے میں عدالتی دائرہ اختیار کی وسعت کے ذریعے قانونی اصلاحات اور آخر میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن کے ذریعے آئینی اصلاحات کی تکمیل مقصود تھی‘ لیکن طاقت وروں نے جلد بازی میں الٹی گنگا بہا کے پہلے آئینی ترامیم کے ذریعے قانونی اصلاحات، پھر عدالتوں کا قیام، اب بلدیاتی انتخابات کی تیاری اور آخر میں ترقیاتی سکمیں رو بعمل لانے کے منصوبے بنائے۔ بد قسمتی سے تہذیبی، سیاسی، معاشی اور انتظامی تغیرات کے اس حساس مرحلے میں پہلے عدلیہ و انتظامیہ کی علیحدگی کی سپرٹ کے پیش نظر سیشن اور سول کورٹس کے قیام کا حکم دے کر قبائلی اضلاع کے ڈپٹی کمشنر کی جوڈیشل پاور کو ختم کر کے انتظامیہ کو بے دست و پا کر دیا گیا۔ قبائلی اضلاع کے لئے ملحقہ بندوبستی اضلاع میں عارضی عدالتیں بنا کے اٹھائیس جوڈیشل آفیسرز کی تعیناتی کی گئی جن میں آٹھ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز، چودہ ایڈیشنل سیشن ججز اور چھ سینئر سول ججز شامل ہیں۔ دوسری جانب پولیس اور سول انتظامیہ کی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی روش سنجیدہ و حساس ذمہ داریوں سے انحراف کی غماضی کرتی ہے۔ دراصل نئے قبائلی اضلاع، جہاں ڈیڑھ سو سال تک سول بیوروکریسی کو مالیاتی، عدالتی اور انتظامی بالا دستی حاصل رہی، وہاں اب عدلیہ اور پولیس کی جانب پاور شفٹنگ کے دوران اضطراب کا پیدا ہونا فطری امر تھا۔ شاید بیوروکریسی یہاں روایتی اختیارات کو سرنڈر کرنے کے لئے ذہنی طور پہ تیار نہ تھی۔ سول بیوروکریسی‘ جو پہلے ہی بندوبستی اضلاع میں جوڈیشل مجسٹریسی کے خاتمہ اور پولیس فورس پہ انتظامی کنٹرول کھونے کی وجہ سے مضمحل تھی، اب قبائلی علاقوں کی روایتی فورسز سے دست برداری برداشت نہیں کر سکی؛ چنانچہ انتظامیہ اپنی طاقت کو بحال رکھنے کی خاطر دیر، سوات اور مالا کنڈ کی طرح یہاں لیویز اور خاصہ دار فورس کو بدستور ڈپٹی کمشنر کے کنٹرول میں رکھنے پہ مصر ہے؛ تاہم بادی النظر میں انسپکٹر جنرل آف پولیس کا قبائلی اضلاع کی لیویز اور خاصہ دار فورس کو پولیس کمانڈ میں لینے کا موقف درست ہے۔ اگر خاصہ دار فورس اور لیویز کو ڈپٹی کمشنر کی کمانڈ میں رکھا گیا تو یہ عمل نہ صرف متوازی انتظامی اتھارٹی کے قیام کا موجب بنے گا‘ بلکہ انضمام کی سپرٹ کو بھی غتر بود کر دے گا۔ ایسی ہی دو عملی کے باعث پچھلے چالیس سالوں میں مالا کنڈ ڈویژن میں انضمام کا عمل پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔
انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ اپنی قوت کی بحالی کیلئے فرسودہ طریقوں کو آزمانے کی بجائے پولیس فورس پہ اپنا کھویا ہوا انتظامی کنٹرول حاصل کرے‘ جو روایتی طور پہ ان کا جائز آئینی و قانونی حق تھا۔ ایک اور مخمصہ یہ ہے کہ صوبائی حکومت نے پہلے قبائلی عمائدین کو یقین دہانی کرائی کہ انضمام کے بعد لیویز اور خاصہ دار فورس کو پولیس میں ضم کر کے انہیں پولیس جتنی تنخواہیں اور مراعات دی جائیں گی‘ لیکن اب لیویز اور خاصہ دار فورس کو پولیس کمانڈ میں لینے کے باوجود حکومت انہیں پولیس جیسی مراعات دینے پہ تیار نہیں، جس کے رد عمل میں لیویز اور خاصہ دار فورس نے پولیس کمانڈ میں کام کرنے سے انکار کر کے انتظامی بحران پیدا کر دیا ہے۔ سوموار کے دن گورنر خیبر پختون خوا شاہ فرمان نے لیویز اور خاصہ دار فورس کو پولیس کمانڈ سے منسلک کرنے کی خاطر دو آرڈیننس جاری کئے، جن میں قبائلی اضلاع کی روایتی فورسز کو کمانڈ کرنے کیلئے ڈائریکٹوریٹ کے قیام کا فیصلہ کیا گیا۔ آرڈیننس کے مطابق قبائلی اضلاع کی لیویز اور خاصہ دار فورس کو کمانڈ کرنے کیلئے صوبائی حکومت آئی جی پی کی مشاورت سے ایڈیشنل آئی جی کی سطح کے آفیسر کو ڈائریکٹر جنرل، ڈی آئی جی رینک کے آفیسرز کو ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل اور ڈی پی او لیول کے آفیسرز کو کمانڈنٹ خاصہ دار فورس تعینات کرے گی۔ آرڈیننس کے تحت لیویز اور خاصہ دار فورس کو مقدمات کے اندراج اور گرفتاریوں سمیت پولیس کے تمام اختیارات حاصل ہوں گے اور انہیں بتدریج پولیس فورس میں ضم کرنے کا وعدہ بھی دیا گیا‘ لیکن دریں اثناء لیویز اور خاصہ دار فورس پرانی مراعات و تنخواہوں پہ کام کرتی رہیں گی‘ مگر لیویز اور خاصہ دار فورس پولیس جیسی تنخواہیں اور مراعات کے بغیر پولیس کمانڈ میں کام کرنے کو تیار نہیں‘ اور انہوں نے مطالبات کی منظوری تک احتجاج جاری رکھنے کا تہیہ کر لیا ہے۔