اپنے مفادات کو بخوشی قربان کرنا کِسے اچھا لگتا ہے؟ اور مفادات سے کیا مراد ہے؟ زر‘ اور کیا؟ کون ہے جو کسی بھی معاملے میں قانون کی طے کردہ حد سے بڑھ کر اپنی جیب ڈھیلی کرنے کو تیار ہو؟ کسی بھی معاشرے میں کتنے لوگ ہیں جو ٹیکس دیتے وقت خوشی محسوس کرتے ہوں؟ ہم اپنے معاشرے ہی کی مثال لیں تو یہ شرمناک حقیقت سامنے آتی ہے کہ لوگ زکٰوۃ جیسے انتہائی بنیادی شرعی فریضے کی بجا آوری میں بھی ڈنڈی مارنے سے باز نہیں آتے اور اللہ کو حاضر و ناظر ماننے کے باوجود اس کے سامنے ذرا سی بھی شرم محسوس نہیں کرتے۔ سوچا جاسکتا ہے کہ جب لوگ اللہ کے معاملے میں اپنا حق ادا کرنے سے کتراتے ہیں تو ریاست سے متعلق مالی ذمہ داریاں نبھانے کے معاملے میں اُن کی طرزِ فکر و عمل کیا ہوتی ہوگی!
گزشتہ ماہ نیو یارک میں ایک عجیب معاملہ ہوا۔ ریاستی قانون ساز اداروں کے سامنے بیان قلم بند کراتے ہوئے مشہورِ زمانہ ''بلیک راک‘‘ گروپ کے سابق ایگزیکٹیو مورس پرل نے کہا کہ جن کے پاس غیر معمولی تناسب سے دولت ہے اُن سے غیر معمولی شرح کے تحت ٹیکس وصول کیا جانا چاہیے! اُن کا کہنا تھا کہ جو مالی حیثیت کے اعتبار سے کروڑوں سے بہتر ہیں اُنہیں معاشرے کے لیے اپنا کردار بھی بہت بڑھ چڑھ کر ادا کرنا چاہیے یعنی ٹیکس کی مد میں اُن سے خطیر رقوم وصول کرکے بنیادی ڈھانچے کی تقویت‘ اسکولز کی تعمیر اور کم آمدنی والے افراد کے لیے رہائشی سہولت کا خواب پوری دیانت سے شرمندۂ تعبیر کیا جانا چاہیے۔ ہے نا حیرت انگیز بات‘ جن کی مالی حیثیت غیر معمولی ہے اُنہیں یہ احساس ہوچلا ہے کہ وہ اپنے وسائل کو معاشرے سے دور رکھ کر یعنی کسی کے کام نہ آکر معاشرے سے نا انصافی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ مورس پرل 200 سے زائد ملینیئرز (کروڑ پتی) کے گروپ ''پیٹریاک ملینیئرز‘‘ کا چیئرمین ہے۔ مورس پرل نے انتہائی مالدار افراد سے غیر معمولی تناسب سے ٹیکس وصول کرنے کی تحریک شروع کی ہے۔ ریاستی قانون ساز اداروں کے سامنے اپنے بیان میں مورس پرل نے کہا کہ 6 یا زائد قانون سازوں پر مشتمل ایک غیر جانبدار گروپ قائم کیا جائے‘ جو متعلقہ معاملات کا جائزہ لے کر ''ملٹی ملینیئر ٹیکس‘‘ نافذ کرنے کی تجویز پیش کرے۔ یہ خصوصی اور بلند شرح کا ٹیکس سالانہ 50 لاکھ ڈالر یا اِس سے زائد کمانے والوں سے وصول کیا جائے گا۔
یہ نکتہ بھی قابلِ غور ہے کہ ''پیٹریاٹک ملینیئرز‘‘ کے 200 میں سے 41 ارکان کا تعلق نیو یارک اسٹیٹ سے ہے۔ اگر وہ چاہتے تھے تو امریکا میں کہیں اور‘ کسی ایسی ریاست میں سکونت اختیار کرسکتے تھے جہاں ٹیکس کی شرح خاصی کم ہے اور انتہائی مالدار افراد کو سکونت اختیار کرنے پر مائل کرنے کے لیے دوسرے طریقوں سے بھی غیر معمولی حد تک ترغیب دی جاتی ہے!
اکنامک پالیسی انسٹی ٹیوٹ نے بتایا ہے کہ نیو یارک اسٹیٹ میں انتہائی مالدار ایک فیصد افراد کے پاس ریاست کی 31 فیصد دولت ہے اور یہی طبقہ ٹیکس کی آمدن میں کم و بیش 54 فیصد تک کردار بھی ادا کرتا ہے۔
ایوان نمائندہ کی رکن الیگزینڈریا اوکازیو کارٹیز نے قومی سطح پر تحریک شروع کی ہے کہ جن کے پاس ایک کروڑ ڈالر سے زائد نقدی یا اثاثے ہیں اُن سے 70 فیصد ٹیکس وصول کیا جائے۔ اس تحریک کو اب تک خاطر خواہ مقبولیت حاصل نہیں ہوسکی تاہم انتہائی مالدار امریکیوں میں یہ سوچ ضرور جاگی ہے کہ اُنہیں مجموعی معاشرتی بہبود میں زیادہ وسیع اور فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔
اسلام دولت کے ارتکاز (یعنی چند افراد یا اداروں میں دولت کے سمٹ جانے) کا نمایاں حد تک مخالف ہے۔ معاشرے میں دولت کی منصفانہ تقسیم ہی تمام افراد کی حقیقی فلاح یقینی بناتی ہے۔ یہ مقصد محض باتوں سے حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام اس کے لیے عملی اقدامات تجویز کرتا ہے۔ ہر مسلم کو اللہ کے حکم کے تحت اپنی آمدن میں سے جو کچھ معاشرے کو دینا پڑتا ہے اُس کا دیا جانا ہر اعتبار سے درست اور عدل کے تقاضوں کے مطابق ہے۔ ترکے کی تقسیم میں بھی اِسی اصول کو دیگر تمام امور پر فوقیت دی گئی ہے۔ معاشی امور سے متعلق دینی تعلیمات کا نچوڑ یہ ہے کہ دولت چند ہاتھوں میں سمٹ کر نہ رہے بلکہ ہر طبقے کے افراد کو معقول انداز سے زندگی بسر کرنے کے لیے درکار تمام وسائل میسر ہوں۔ قرآن میں تو ہر مسلم کی آمدن میں اللہ کی طرف سے حصہ دار بنائے جانے والوں کا بھی ذکر ہے۔ ہر مسلم کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ والدین‘ اہلیہ‘ اولاد اور کمتر مالی حیثیت کے حامل رشتہ داروں کے علاوہ پڑوسیوں‘ احباب‘ عام غرباء و مساکین اور مسافروں تک کی (مالی) معاونت کرے۔ کوئی اور دین جائز آمدن کو خرچ کرنے کے لیے مَدوں کا اتنی صراحت کے ساتھ تعین کرتا ہے نہ ذکر۔
جن معاشروں نے ترقی کی ہے اُن کا ایک بنیادی المیہ یہ ہے کہ آمدن کے حوالے سے عدم مساوات نے تمام منطقی حدود کو پار کرلیا ہے۔ معاشی ڈھانچا اس نوعیت کا ہے کہ دولت چند ہاتھوں یا اداروں میں مرتکز ہوتی چلی جاتی ہے۔ دوسری بڑی تلخ حقیقت یہ ہے کہ بیشتر ترقی یافتہ معاشروں کا استحکام دراصل بہت سے کمزور ممالک کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے اور ان کے وسائل کی بندر بانٹ کا مرہون منت ہے۔
یورپ میں یہ احساس تیزی سے تقویت پارہا ہے کہ آمدن کا بڑھتا ہوا فرق معاشروں کو تقسیم اور کمزور کر رہا ہے۔ یہی سبب ہے کہ فلاحی ریاست کا تصور تیزی سے مقبولیت پارہا ہے۔ دوسری طرف امریکا ہے جہاں دولت ہی کو سب کچھ مان کر اِس دنیا کی چند روزہ زندگی کو مطلوب و مقصود ٹھہرالیا گیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ یورپی معاشروں کے مقابلے میں امریکی معاشرے میں خرابیاں بھی زیادہ ہیں۔
آمدن کے حوالے سے عدم مساوات یا ناہمواری اس قدر ہے کہ اب امریکی معاشرے کے انتہائی مالدار افراد میں بھی یہ احساس جاگا ہے کہ انہیں معاشرے کے لیے دوسروں سے کہیں بڑھ کر کچھ کرنا چاہیے۔ کاروباری ادارے اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے چند ایک مدوں میں کچھ خرچ کرتے ہیں‘ تاکہ عوام کے آنسو پونچھے جاسکیں۔ حقیقت یہ ہے کہ محض اتنا کردینا کافی نہیں۔ ترقی یافتہ معاشروں میں بھی پچھڑے ہوئے انسان اِتنے زیادہ ہیں کہ غیر معمولی تناسب سے دولت کے حامل تمام افراد بھی اپنا کردار ادا کریں تو سب کا بھلا نہ ہوسکے گا۔
پاکستان جیسے معاشرے میں آج بھی لوگ آنکھوں دیکھی مکھیاں نگل رہے ہیں۔ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ جہاں ٹیکس دینے کا رجحان کمزور ہو وہاں معیشتی ہی نہیں‘ معاشرتی ڈھانچا بھی کمزور ہو جاتا ہے۔ پھر بھی معاملہ یہ ہے کہ لوگ معاشی سطح پر ملک کے لیے کچھ کرنے کا عزم اپنے اندر پیدا نہیں کر پارہے۔ تنخواہ دار طبقے سے انکم ٹیکس وصول کرلیا جاتا ہے کیونکہ وہ بینکنگ سسٹم کے ذریعے تنخواہ وصول کرتا ہے۔ عام بزنس مین غیر معمولی آمدن کے حوالے سے کسی بھی سطح پر ٹیکس ادا کرنے کا پابند نہیں۔ جس طور امریکا کے انتہائی مالدار افراد معاشرے کی خاطر کچھ کرنے کے حوالے سے ضمیر کی آواز پر لبیک کہہ رہے ہیں بالکل اُسی طور ہمارے ہاں بھی غیر معمولی مالی حیثیت رکھنے والوں کو معاشرے کے لیے سوچنا چاہیے۔ پورے معاشرے کی بہبود کے لیے اپنی ذمہ داری محسوس کرنا دل گُردے کا کام ہے۔ یہ ایسا ہی معاملہ ہے جیسے کوئی چُھری کے لیے اپنی گردن بخوشی پیش کرے۔ غیر معمولی وسائل رکھنے والے (ultra rich) طبقے کو معیشت و معاشرت کی بقاء کے لیے اپنے مفادات مزید قربان کرنا ہوں گے۔ اب سوال یہ ہے کہ جو کچھ مورس پرل اور اُس کے ساتھیوں نے کیا ہے کیا اُس کی ہم اپنے ہاں امید رکھیں؟ خیر‘ شجر سے پیوستہ رہتے ہوئے امیدِ بہار تو رکھنی ہی چاہیے۔