تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     14-03-2019

خدا رحمن و رحیم ہے

خدا رحمن و رحیم ہے ۔دنیا کی ہر مخلوق اس رحمانیت کے سائے میں زندگی گزارتی ہے ۔ انسان جب دنیا میں ظلم ‘ غربت ‘ نا انصافی اور دولت کا ارتکاز دیکھتا ہے ‘ تو وہ مایوس ہو جاتاہے ۔ وہ کہتاہے کہ کہاں ہے خدا کی رحمت ؟ آدمی اپنی کم علمی کی وجہ سے یہ سوال کرتاہے ورنہ یہ رحمت تو اس کے اپنے اندر ‘ اس کے دماغ میں موجود ہے ۔ دماغ میں جو سب سے زیادہ خوبصورت چیز اللہ نے پیدا کی ہے ‘ وہ اس کی adjust کرنے کی صلاحیت ہے ۔ اس میں ہر قسم کے حالات کے ساتھ adjustکرنے کی صلاحیت رکھی گئی ہے ‘ جسے ہم for grantedلیتے ہیں 
اگر دماغ میں adjustکرنے کی صلاحیت نہ ہوتی تو کوئی بھی انسان بلکہ کوئی بھی مخلوق زندگی گزارنے کے قابل نہ ہوتی ۔ اسی adjustکرنے کی صلاحیت کی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر ‘ فلسطین اور عراق میں بھی لوگ زندگیاں گزارتے ہیں ۔ صرف یہ نہیں کہ وہ کھانا کھاتے اور نیند سمیت دوسریlife sustainingضروریات پوری کرتے ہیں ‘بلکہ وہ جنگوں کے دوران ہی شادیاں اور بچّے بھی پیدا کرتے ہیں ۔ آپ شامی پناہ گزینوں کے کیمپوں میں جا کر دیکھ لیں ۔ آپ کو شیر خوار بچّے دکھائی دیں گے۔جیسے جیسے جنگ طوالت پکڑتی ہے ‘ دماغ خود کو اس کا عادی کرتاہے ۔
آپ ایک لمحے کے لیے سوچیں کہ آپ فلسطین میں پیدا ہوئے ہیں ۔ آپ کو اچھی طرح سے معلوم ہے کہ آپ جو بچّے پیدا کریں گے ‘ ان کے پاس کوئی محفوظ مستقبل نہیں ہے ۔ انہیں ناکافی ضروریاتِ زندگی‘ عدمِ تحفظ ‘ تشدد اورقتل و غارت دیکھنی پڑے گی اس کے باوجود آپ اپنا گھر بساتے ہیں تو کسی امید پر نہیں‘ بلکہ adjustکرنے کی اسی صلاحیت کی وجہ سے ۔ 
یہاں ایک سوال اور بھی پیدا ہوتا ہے کہ بہت سے لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم پہلے سیٹ ہو جائیںیعنی مال اکھٹا کر لیں‘ پھر شادی کریں گے ۔ اسی سیٹ ہونے کے چکر میں وہ بوڑھے ہو جاتے ہیں ۔ آپ کو کیا معلوم کہ خدا نے دوسرے بچّے کے پیدا ہونے کے بعد آپ کا سیٹ ہونا مقدر کیا ہے تو آپ اس سے پہلے کیسے سیٹ ہو سکتے ہیں ؟ 
دماغ کی اس adjustکرنے کی صلاحیت کی وجہ سے انسان اپنی زندگی کی ہر کمی کو برداشت کرنا سیکھتا ہے ۔ اپنی ذات میںبد صورتی اور اپنے رشتے داروں میں خوبصورتی کو گوارا کرتاہے ۔ اس کے ساتھ جینا ہی نہیں سیکھتا بلکہ بھرپور زندگی گزارتاہے ورنہ نفس کو جس طرح سے تخلیق کیا گیا ہے ‘ اسے یہ بات کب گوارا ہوتی ہے کہ اس کے پاس مہران گاڑی ہو اور دوست کے پاس لینڈ کروزر‘ لیکن پھر وہ یہ بات برداشت کرلیتاہے ۔ 
یہاں آپ تخلیق کا ڈیزائن چیک کریں کہ خدا نے دنیا کو کیسے بنایا ہے ۔ پہلے نفس میں یہ خواہش رکھی کہ اس کے پاس سب سے زیادہ ہو اور وہ سب سے خوبصورت نظر آئے۔ پھر اسے دوسروں سے کم دیا اور کمتر شکل و صورت دی ‘ پھر دماغ میں یہ صلاحیت پیدا کی وہ ایسی harsh realitiesکے ساتھ ایڈ جسٹ کرنا سیکھے‘ لیکن پھر یہ فیصلہ انسان پر ہی چھوڑ دیا کہ اس نے ایڈ جسٹ کرنا ہے یا دوسروں سے حسد کی آگ میں جلنا اور دوسروں کا نصیب چھیننے کی کوشش میں زندگی گزارنا ہے ۔ جب انسان انتقام سمیت کسی جبلت پہ چلنے کا ارادہ کر لیتاہے تو پھرا س کی باقی زندگی کسی کو تباہ کرنے کی خواہش اور کوشش میں بسر ہو سکتی ہے ‘ یعنی یہ جبلت اس کی زندگی پہ غالب آجاتی ہے ۔ اس کے برعکس؛ اگر وہ صبر کرنے ارادہ کرے‘ بلکہ نعمت پانے والے کو مبارک باد دے دے تو کچھ ہی دیر میں حسد اور انتقام کی یہ خواہش ختم ہو جاتی ہے ۔ 
اسی لیے انسان جب یہ دیکھتا ہے کہ ایک امیر کا بچّہ سائیکل چلا رہا ہے اور غریب کا بچّہ پاس کھڑا حسرت بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہا ہے تو کچھ دیر تو بندہ گنگ ہو جاتا ہے‘ لیکن بہت ہی پیچیدہ calculationsکے بعد یہ سب چیزیں ‘ یہ سب situations ڈیزائن کی گئی ہیں ۔ اسی طرح نفس اور دماغ میں یہ رجحان رکھا گیا ہے کہ وہ دستیاب خوبصورت سے خوبصورت چیز سے اکتا جا تاہے ۔ آپ بچّے کو سائیکل لے کر دیں ‘پہلے دن وہ اس کے لیے دنیا کی قیمتی ترین چیز ہوگی ‘ جبکہ چھ ماہ بعد وہ صحن میں ایک طرف پڑی ہوگی ۔ یہ ہے ترستے ہوئے غریب بچّے کی خواہش کی اصل حقیقت ۔ جب اسے وہ چیز مل جائے گی‘ تو پھر اس کی لذت بھی ختم ہو جائے گی ۔ وصل کے ساتھ ہی عشق کا کام تمام !
جب انسان بڑا ہوجاتاہے تو بظاہر خواہشات بھی بڑی ہو جاتی ہیں ۔بظاہر تو سائیکل کی جگہ لینڈ کروزر لے لیتی ہے‘ لیکن درحقیقت خواہش کی dimensionsوہی رہتی ہیں۔ جس کے پاس سائیکل نہیں ‘ اسے سائیکل کی خواہش ہے ‘ جس کے پاس لینڈکروزر نہیں ‘ اسے لینڈ کروزر کی خواہش ہے ۔ جس کے پاس سائیکل ہے ‘ اسے سائیکل کی قدر نہیں ۔ جس کے پاس لینڈ کروزر ہے ‘ اسے لینڈ کروزر کی کوئی قدر نہیں ۔ جب ایک بچّہ سائیکل کے لیے ضد کر رہا ہوتاہے تو آپ سوچتے ہیں کہ یہ کتنی چھوٹی چیز کیلئے مرا جا رہا ہے ‘ اسی طرح ہمارے بارے میں بھی خدا یہ سوچتا ہوگا کہ یہ کتنی چھوٹی چیزوں کی خواہش میں ہلکان ہو رہے ہیں ؟ 
اسی طرح صحت سمیت بہت سی چیزیں ایسی ہیں کہ جن پر امارت او رغربت بے معنی ہو جاتی ہے ۔ آپ کا سینٹرل نروس سسٹم اگر پیدائشی طور پر مجروح ہے تو آپ کیسے اسے ٹھیک کریں گے ۔ ٹانگیں ہی کام نہیں کر رہیں تو بندہ جو مرضی خرید لے‘ دوڑ لگانے سے پیدا ہونے والی خوشی اسے کیسے ملے گی ۔ امیرچونکہ جسمانی مشقت پہ مجبور نہیں ہوتے اور نفس؛ چونکہ خود کو مشقت سے بچائے رکھنے کا رجحان رکھتاہے ‘ اس لیے اکثر متمول لوگ موٹے ہو چکے ہیں ۔ دوسری طرف آپ کسی بھی زیر تعمیر مکان پہ جا کر دیکھ لیں ۔ سارے غریب مزدور کسرتی جسم کے مالک ہیں ۔ اس کی وجہ سے وہ بلڈ پریشر اور شوگر جیسی بیماریوں سے بچے رہتے ہیں ۔ وہ نسبتاً صحت مندزندگی گزارتے ہیں ۔ 
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نفس دستیاب وسائل سے زیادہ کی ہوس کا رجحان رکھتاہے ۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر لوگ پوری زندگی زیادہ دولت جمع کرنے کی کوشش کرتے اور اس کوشش میں ایک پرجوش زندگی گزارتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ وزیرِ اعظم بننا ہر سیاستدان کی سب سے بڑی خواہش ہے ‘ جبکہ آرمی چیف بننا ہر افسر کی خواہش ۔ اسی طرح عظیم لکھاریوں کی فہرست میں شامل ہونا ہر لکھنے والی کی خواہش ہے ؛ اگر نفس میں بہتر مرتبے اور دولت تک پہنچنے کی خواہش نہ رکھی جاتی تو سب کھانا کھا کے کونے کھدروں میں بیٹھے رہتے ۔ 
کئی دفعہ مجھے ایسی تقریبات میں شریک ہونے کا موقع ملا‘ جہاں سیاستدان اکٹھے تھے ۔ میں نے نوٹ کیا کہ ہر شخص کسی نہ کسی چکر میں اپنے سے بڑے منصب دار کے گرد چکر کاٹ رہا تھا۔ ہر بندہ یہ سوچ رہا تھا کہ وہ دوسرے سے کیا فائدہ اٹھا سکتاہے ۔ یہ صرف سیاستدانوں کی بات نہیں ‘ سب کا یہی حال ہے ۔ جب کہ خدا سے جن کا حقیقی تعلق ہوتاہے ‘ وہ ہم جیسے نہیں رہتے بلکہ مخلوق سے غنی ہو جاتے ہیں۔ صرف یہی وہ لوگ ہیں کہ جو مضطرب نہیں ہوتے ۔ 
بہرحال دماغ کی adjustکرنے کی خواہش خدا کی رحمانیت کا بہت بڑا مظہر ہے‘ ورنہ تو اکثر لوگو ں کے لیے اس دنیا میں زندگی گزارنا ناممکن ہی ہو جاتا ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved