کرتارپور کاعلاقہ پاکستان اور ہندوستان کے بارڈر کے ساتھ منسلک ہے۔ 1965ء اور 1971ء کی پاک بھارت جنگوںمیں یہ علاقہ شدیدمتاثرہواتھا۔ کرتار پور سرحد‘تقسیم ہند کے موقع پر ہونے والی خون ریزی کی وجہ سے شہرت رکھتی ہے۔ 1947ء میں بھی سکھ اور ہندو برادری ‘ اس علاقے میں آباد تھے۔ تقسیم کے بعد زیادہ تر ہندو اور سکھ ہندوستان کوچ کر گئے‘ جبکہ مسلمان ہندوستان سے پاکستان ہجرت کر کے کرتار پور میں آباد ہوئے۔تاریخ کے صفحات کو پلٹ کر دیکھیں‘ توکرتار پورکے حوالے سے مکمل تفصیل مل جائے گی۔
کرتارپور کو سکھوں کے روحانی پیشوابابا نانک دیو جی‘ نے 1522 ء میں آباد کیاتھا۔وہ زندگی کے آخری اٹھارہ سال وہیں قیام پذیر رہے۔ 22ستمبر 1539ء میں وفات پائی۔ ان کی وفات کی جگہ پر گردوارہ تعمیر کیا گیا۔ پٹیالہ کے مہاراجہ بھوپندر سنگھ نے اس وقت کے 135,600 روپوں میں گردوارے کی موجودہ عمارت تعمیر کروائی تھی۔ بعد میںحکومت پاکستان نے 1995ء میں دوبارہ تزئین وآرائش کروائی ۔ 2004ء میں اپنی اصلی حالت میں بحال ہوا۔ جنگل اور دریائے راوی کے قریب ہونے کے باعث اس کی دیکھ بھال مشکل کام ہے‘تاہم حکومت پاکستان اس پر خصوصی توجہ دے رہی ہے۔گردوارے سے بھارت کی سرحد محض ڈھائی کلو میٹر دُور ہے‘ لیکن سکھ یاتریوں کو اسے عبور کرنے اور یہاں تک آنے کی اجازت کبھی نہ تھی‘ تاہم اب زیر تعمیر راہداری کے ذریعے سرحد پار بسنے والے سکھ عقیدت مند‘ گردوارہ کرتارپور صاحب باآسانی آسکیں گے۔بھارت نے بھی یاتریوں کی آسانی کے لیے راستے کی تعمیر شروع کر رکھی ہے ‘ اس بارے میں تفصیلات پاکستان کو بھی مہیا کی گئیں۔ بین الاقوامی سرحد پر یاتریوں کی آمد و رفت کے لیے گرداس پور میں واقع ڈیرہ بابا نانک کا انتخاب کیا گیا۔ یہ گاؤں گرودوارے سے چندکلومیٹر دور ہے۔
کرتار پور راہداری پرمذاکرات کا پہلا مرحلہ مکمل ہوچکا ہے ‘ جو تعمیری اور مثبت اقدام ہے۔ پاک بھارت ماہرین کے درمیان پہلی میٹنگ خوشگوار ماحول میں ہوئی‘سکھوں کو فراہم کردہ سہولیات اور مسودے پر تفصیلی بات چیت ہوئی۔ منصوبے کو مکمل کرنے کے لیے یادداشتوں پر دستخط بھی ہوئے۔اگلا اجلاس 2اپریل 2019ء کو منعقدہوگا۔ہندوستانی وفدکی قیادت سیکرٹری وزارت ِداخلہ ‘ ایس سی ایل داس نے کی‘ جبکہ پاکستانی وفد کی قیادت کے فرائض خارجہ امور کے ماہر ڈاکٹر محمد فیصل نے انجام دئیے۔مذاکرات میںکئی امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ بین الاقوامی سرحد پرزیرو پوائنٹ کے انتخاب کا طریقہ کار بھی موضوع بحث رہا۔دوسرے اہم نکات میں؛ پاکستان کی جانب سے‘ ہندوستانی سکھوںکو گوردوارہ کادورہ کرنے کے لئے ویزہ کے بغیر سفر کرنے کی اجازت دینے جیسے امور شامل رہے ۔
بابا گرو نانک کی آخری آرام گاہ تاریخی گردوارہ کرتار پور صاحب‘ نارووال کی توسیع کا عمل جاری ہے‘جس کا40 فی صد کام مکمل کر لیا گیا ہے۔ توسیع کے بعد 3 لاکھ سکھ یاتری یہاں مذہبی رسومات ادا کر سکیں گے۔امیدکی جا رہی ہے کہ بابا گرو نانک دیو جی کے 550 ویں جنم دن تک پہلا مرحلہ مکمل ہوجائے گا۔ حکومت پاکستان کی جانب سے گر دوارہ کرتار پور صاحب کی چار دیواری‘ داخلی خارجی راستے تاریخی طرز کے عین مطابق تعمیر کیے جا رہے ہیں۔ گردوارہ کی پہلے سے موجود چار دیواری کے اطراف میں 3 سو فٹ توسیع کی جا رہی ہے۔ موجود ہ بلڈنگ میں 10 سے 15 ہزار سکھ یاتری مذہبی رسومات ادا کر سکتے ہیں ‘ جبکہ ترقیاتی کام مکمل ہونے کے بعد 3 لاکھ یاتریوں کی گنجائش ہوگی۔اس بات کو مدنظر رکھا گیاکہ توسیع کے دوران کسی بھی عمارت یا دیوار کو نہیں گرایا جائے گا‘ بلکہ اس کی اصل حالت کو برقرار رکھنے کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔ پاکستان سکھ گر دوارہ بندھک کمیٹی کے پر دھان سردار تارا سنگھ کا کہنا ہے کہ کرتار پور سمیت ہمارے دیگر مذہبی مقامات کی تزئین و آ رائش اور سکیورٹی کے انتظامات خوش آئند ہیں۔ بھارتی سکھوں کی خوشی بھی دیدنی ہے۔ سکھ کمیونٹی راہداری کھلنے کی امید سے بہت خوش نظر آتے ہیں۔سکھ برادری کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان یہ دوستی کا سبب بنے گا اور کشیدگی ختم ہوگی۔اٹاری کے ایک سکھ یاتری نے کہا کہ یہ ہمارے مذہب کے بانی کا گرودوارہ ہے۔ یہ ہماری حقیقت اور عقیدت میں شامل ہے‘یہ ہمارے جذبات کا حصہ ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ بھارت سے مذاکرات بہت مثبت رہے۔ پاکستان اور بھارت کا 3 سال بعد مشترکہ اعلامیہ جاری ہونا ایک بڑی کامیابی ہے۔بھارتی حکام کے ساتھ مذاکرات کے بعد واہگہ پر میڈیا سے بات چیت کی گئی‘ دفتر خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ کرتار پور راہداری کے معاملے پر دونوں ممالک کے درمیان بعض امور پر اختلاف ہیں‘ تاہم 2 اپریل کو بھارت کے ساتھ دوبارہ مذاکرات ہوں گے‘ جس کے بعد معاملے کا حل نکل آئے گا۔
کرتار پورراہداری کا مکمل ہونا‘ پوری دنیا کے سکھوں کے علاوہ پاکستان اور بھارت کے امن کے لیے بھی فائدہ مند ثابت ہو گا۔ کرتار پور پانچ سو سال پہلے بھی اہم تھا اور آج بھی اہم ہے ۔ جب تک سکھ کمیونٹی کا ایک فرد بھی موجود ہے‘ کرتارپور کا نام پوری دنیا میں گونجتا رہے گا۔