کسی ایک شعبے کی بات نہیں۔ کہتے ہیں اجتماعی زندگی کے ہر شعبے میں زوال ہے یا اضمحلال۔ بد ترین انتظامی انحطاط اور اسفل السافلین پیشہ ورانہ اخلاقی پستی کے ساتھ۔ کیا یہ سب ایک دن میں ہو گیا۔ نہیں جناب۔ ہرگز نہیں۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
اگر تجزیے کا پیمانہ مروجہ سیاسی اخلاق ہو تو بر سرِ عام کوڑے مارنے والوں سے لے کر کیمرے پہ قتلِ عام کرنے والوں تک کا بھی دفاع ہو سکتا ہے۔ اس لیے مقامی سیاست تھوڑی دیر کے لیے ''بــیک برنر‘‘ پر رکھ دیتے ہیں۔ آئیے قومی زندگی کے چند دوسرے بڑے شعبے دیکھ لیں۔ آپ قانون اور انصاف سے شروع کر لیں۔ تیمر گرا، بھکرّ یا مورو تعلقے کی عدالت نہیں‘ ملک کے ٹاپ 10 شہروں میں کسی مقدمے کا فیصلہ وقت پر نہیں ہو سکتا۔ عام آدمی کیلئے سارے بھاشن، تقریریں، مشورے، ریمارکس، دعوے اور وعدے حبیب جالب کی زبان میں ہَوا ہوئے۔
سرِ منبر، وہ خوابوں کے محل تعمیر کرتے ہیں
علاجِ غم نہیں کرتے، فقط تقریر کرتے ہیں
ماتحت عدالتیں مقدمات سے لبالب بھری ہوئی ہیں۔ ہر روز کالے کوٹ کا کالے کوٹ سے ٹکرائو ہوتا ہے۔ وہ بھی دو طرفہ۔ لوئر جوڈیشری، مقامی عدالتیں اور کچہریاں دیکھنے کے قابل ہیں۔ جہاں Court of First instance درِ انصاف کی پہلی اینٹ کے طور پر رکھی ہیں۔ کون نہیں جانتا وفاقی دارالحکومت کی کچہری F-8 کمرشل مرکز میں قائم ہے۔ عدالتیں دکانوں میں لگی ہیں اور ججز حضرات کے چیمبرز ان دکانوں کے پرانے غسل خانوں میں یا سٹور رومز میں قائم ہیں۔
سکیورٹی کا حال یہ ہے کہ اس کچہری پر 2 المناک حملے ہوئے‘ جن میں سیشن جج، سینئر وکلائ، وکیلوں کے منشی، عدالتی اہلکار اور انصاف کے متلاشی سائل بریدہ لاشیں لے کر واپس گھر پہنچے۔
ہمارے مزاج کا کمال یہ ہے کہ ہم آسان ترین کام‘ جن کو انگریزی میں Doables کہتے ہیں‘ بھی بر وقت نہیں کرتے۔ ابھی ابھی عدالتی و قانونی اصلاحات پر وزیر اعظم عمران خان سے تفصیلی بات ہوئی۔ وزیر اعظم اپنے ایجنڈے پر عمل درآمد کے لیے پُر جوش ہی نہیں ہمہ تن گوش بھی ہیں۔ کور مسائل سے پوری آگاہی ہے‘ جن کے حل کے لیے پورا وقت ٹنل ویژن فوکس کے ساتھ لگے رہتے ہیں۔ مزاج کی اس یکسوئی کے حوالے سے اسی ہفتے کا صرف ایک چھوٹا سا واقعہ سُن لیجئے۔ 2 دن پہلے PM کے خلاف دائر ہونے والے نئے سیاسی کیس کے لیے پشاور جانا تھا۔ نصف شب کے بعد میسج آیا: آپ پشاور جا رہے ہیں۔ پھر آپ خود پشاور جا رہے ہیں ناں۔ صبح حسبِ معمول پونے 5 بجے آنکھ کھلی تو میسج کا جواب دیا: ریڈی ہو رہا ہوں۔ 2 سیکنڈ میں سفر بخیر کی دعا پہنچ گئی۔ جہاں کہیں بحث یا ابہام دَر آئے وقت عمران خان کے راستے کی رکاوٹ نہیں بن سکتا۔ زندگی کا کوئی شعبہ یا دنیا کا میدان کوئی بھی ہو اپنے کام سے عشق کرنے والا ہدف تک ضرور پہنچتا ہے۔
بر سبیلِ تذکرہ عرض ہے‘ میں نے PM کو تجویز دی C.D.A سے کہہ کر اسلام آباد کی فیملی کورٹس کچہری سے کہیں باہر شفٹ کروا دیں۔ جس عدالت میں ٹھگ، جیب کُترے، بچوں کو مولیسٹ کرنے والے، قاتل اور دہشت گرد ہتھکڑیوں میں لائے جاتے ہیں‘ ظاہر ہے بندوقوں کے سائے میں‘ اسی کمرۂ عدالت میں مائیں، ان کے کم عمر بچے مجبوراً بٹھائے جاتے ہیں۔ بکھری ہوئی فیملی کے ان بچوں پر کیا نفسیاتی اثرات اور ٹراما مرتب ہوتا ہے‘ اسے سوچ کر ہی کلیجہ کانپ جاتا ہے۔ امید رکھنی چاہیے Applied Psychology کا کوئی کالج یا یونیورسٹی ان بچوں پر بھی ریسرچ کر کے اس ظلمِ مسلسل کو بے نقاب کرے گا۔ یہ وہی کچہریاں ہیں جہاں 18ویں صدی کا اقرار نامہ، 19ویں صدی کا بیانِ حلفی اور 20ویں صدی کا فرضی کنٹریکٹ لاکھوں میں نہیں ہزاروں روپے میں بن جاتا ہے۔
وکالت نامہ یہاں تک پہنچا تو رات کے 11:37 منٹ ہو چکے تھے۔ میرے لیے یہ ایک اور بھرپور دن رہا۔ علی الصبح اٹھا۔ 8 بجے پشاور ہائیکورٹ کے بار روم پہنچا تھا۔ رات دیر گئے گھر آیا۔ موڈ کی روٹین بدلنے کے لیے T.V آن کیا تو B.B.C اور D.W سے لے کر C.N.N تک سارا مغربی میڈیا برطانیہ کے ہائوس آف کامن پر لائیو سپاٹ دکھا رہا تھا۔ اس صدی کا سب سے بڑا ایونٹ آنکھوں کے سامنے آیا۔ ایسا ایونٹ جو یورپی یونین، ناردرن آئر لینڈ، سکاٹ لینڈ اور برطانیہ کو، ری شیپ کر کے رکھ دے گا۔ بریگزٹ پر برطانوی دارالعوام میں تھریسا مے کا دوسرا پلان زیرِ بحث تھا۔ برطانوی دارالعوام کے موجودہ سپیکر John Bercow کمال کے سپیکر ہیں۔ جس مزے سے وہ آرڈر اِن دی ہائوس کہتے ہیں‘ سپیکر شِپ کی کرسی سے اوپر اُٹھ کر ارکان کو بحث کے لیے بُلاتے ہیں۔ جس قدر کنٹرول اور ملکہ انہیں ہائوس بزنس چلانے پر حاصل ہے ایسا متاثر کن پارلیمانی سپیکر میر ے 11 سالہ پارلیمانی تجربے میں ابھی تک نہیں آیا۔
لیڈرز کون ہوتے ہیں؟ اب ذرا اس طرف آئیے۔ بریگزٹ کا وہ مسئلہ جس کی وجہ سے یورپی یونین کے 28 ممبر ممالک کی رات کی نیندیں حرام ہیں‘ اس پر جدید پارلیمنٹ اور جمہوریت‘ دونوں کی ماں کہلانے والے ملک میں بحث اوجِ کمال پر تھی۔ پہلے برطانیہ کے اٹارنی جنرل Rt Hon. Geoffrey Cox نے امیگریشن، ٹیکسیشن اور قانون سمیت حکومت کے بریگزٹ ایکشن پلان سے تکنیکی نکات کو واضح کیا۔ پھر ہائوس آف کامن کے سپیکر نے برطانوی وزیرِ اعظم تھریسا مے کا نام پُکارا۔ وہ اپنی بینچ نما پھٹہ شیپ نشست سے اُٹھیں اور تقریباً 8/7 منٹ میں بریگزٹ جیسے گرماگرم عالمی موضوع پر اپنا پالیسی بیان مکمل کر دیا۔ پالیسی بیان کے حق میں دلائل دیے۔ ساتھ اس عزم کا اظہار کیا کہ بریگزٹ کا عمل منطقی انجام تک لے کر جائوں گی۔ یہ یونائٹیڈ کنگڈم سے میری دِلی کمٹمنٹ ہے۔ تھریسا مے کے بعد سپیکر نے لیبر پارٹی کے لیڈر اور دارالعوام میں اپوزیشن لیڈر Jeremy Corbyn کو تقریر کے لیے بلایا۔
جرمی کوربن کی تقریر 90 سیکنڈ سے بھی کم تھی‘ جس میں انہوں نے یوکے میں نئے انتخابات منعقد کرانے کا مطالبہ کیا۔ برطانیہ جیسی جمہوریت میں ہم اسے روٹین کی کارروائی کہہ سکتے ہیں۔ آئیے ذرا‘ اپنی ''اصلی تے وڈی‘‘ جمہوری قدروں کا پارلیمانی طرزِ حکومت کے بانی سے تقابل کر لیں۔ اپنے ہاں کرپشن، کک بیکس، کمیشن چھپانے کے لیے پاکستانی دارالعوام کے فلور پر تین تین گھنٹے لمبی تقریریں ہوتی ہیں‘ جن کا خرچہ عام آدمی اٹھاتا ہے۔ بھتیجا چچا کے دفاع میں، چھوٹا بڑے کے حق میں ایسے کھڑکتے ہیں جیسے کنگ سائز دیگ میں 2/3 سو چمچے اکٹھے چل پڑیں۔ رسوائی تو ہے ہی، سچ بات یہ ہے کہ ملک کے چھ ایوانوں سے ادنیٰ درجے کے ڈبیٹنگ کلب کا سا شور اُٹھتا ہے۔ بھائی بہن کو، بچہ ابے کو اور سجا کھبے کو‘ بچانے کے لیے بول رہے ہیں۔ دوسرے درجے پہ تقابل ویژن کا ہے۔ ویژن آف دی لیڈرز۔ یہ سطریں مکمل ہو رہی ہیں ساتھ ساتھ تھریسا مے کی ناکامی کی ہیٹرک بھی۔ برطانوی دارالعوام نے اپنی وزیرِ اعظم کو تیسری دفعہ شکست دے دی۔ کہا: جلد بازی میں بریگزٹ سے نکلنے کا فیصلہ نامنظور ہے۔ ادھر ہمارے منتخب لیڈرز ہیں۔ اپنی مراعات، اپنی خدمات، اپنی تنخواہ اور اپنی پیٹ پوجا کے لیے ھل مِن مزید والے۔ بریگزٹ کے حوالے سے سب سے مزے کی بات یہ ہے کہ جرمی کوربن یا کسی اور نے یہ نہیں کہا کہ اگر چوتھی بار تھریسا مے کی تجویز آئی تو ایوان نہیں چلنے دیں گے۔
زندگی کرتی ہے جرموں کی تجارت آج کل
چیختی ہے رہ گزاروں پر شرافت آج کل
علم کے ماتھے پہ ہے داغِ جہالت آج کل
آج بے نام و نشاں اسلاف کی توقیر ہے
دیکھئے اک خود کشی کی داستاں تحریر ہے