تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     16-03-2019

گورے اور کالے

مساوات آدمیت کے پیغمبر جناب عیسیٰ علیہ السلام کیبات بھی وہ نہیں سنتے ہیں۔ ان کی آنکھیں وہ نیلی اور جلدگوری چٹی دکھاتے ہیں۔
یہ دہشت گردی کا کوئی عام سا واقعہ نہیں۔ واقعہ ایک شہر میں ہوا مگر تاریخ کل عالم کی ایک نیا موڑ مڑ گئی۔ نائن الیون سے بڑا نہیں مگر اتنا ہی اہم ضرور ہے۔ عالم اسلام سے مغرب کے تعلقات اب ویسے رہیں گے نہ باقی اقوام سے۔ قاتل کا ہدف صرف سجدہ ریز مسلمان نہ تھے بلکہ اسلام بھی۔ ساری قومیں‘ کروڑوںکالے، چینی اور ظاہر ہے کہ مسلمان‘ اسلام بھی۔
اگر اسلام اور نا مطلوب اقوام، مجسّم ہوتیں‘ فرض کیجئے انسان کے پیکر میں تو انہیں اسی طرح وہ قتل کرتا، جس طرح عبادت گزاروں کو۔ لندن کے میئر صادق خان موجود ہوتے تو انہیں وہ قتل کرتا۔ ان کا نام لے کر اس نے دہائی دی۔ اس کے نقطۂ نظر سے یہ بالکل جائز ہی نہیں لازم بھی تھا۔ لندن کا میئر برطانوی حکومت میں وزیر اعظم کے بعد دوسرا اہم ترین عہدہ ہے۔
ابھی کچھ دن میں بحث کھلے گی، اپنی ساری جہات میں برپا ہو گی۔ جرمنی کے ڈوئچے ویلے چینل، بی بی سی، سی این این، نیویارک ٹائمز یا محمد بن سلمان کے ذاتی اخبار لندن کے انڈی پینڈنٹ میں، کوئی کہے گا: محمد صادق لندن کے میئر بن سکتے ہیں۔ کوئی گورا کراچی، جکارتہ یا استنبول کی شہری حکومت کا سربراہ نہیں ہو سکتا۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے پہلے سفیر محمد اسد، یہودی نژاد گورے تھے۔ انگریزی بولتے اور مغربی لباس پہنتے۔ پاکستان کا پہلا پاسپورٹ قائد اعظم کی بجائے انہیں جاری کیا گیا۔ پاک فوج کا پہلا سربراہ بھی ایک گورا تھا۔ پنجاب اور سر حد کے گورنر بھی۔
ماضی کی بات ہے، آج کے مسلمان تو متعصب ہیں۔ وہ کہیں گے۔ واشنگٹن پوسٹ یا لندن ٹائمز میں لازماً کوئی لکھے گا۔ قوموں کا مزاج صدیوں میں استوار ہوتا ہے۔ ہیجان میں بے ساختہ ظاہر ہوا کرتا ہے۔
پاکستان کے بہترین تعلیم اداروں میں سے ایک اخوت کالج کا سربراہ ایک گورا ہے۔ اُس کا تعلق اُسی نیوزی لینڈ سے ہے جہاں تاریخ میں انسانیت کو امن عطا کرنے والے رحمۃ للعالمینؐ کے پیروکار بے دردی سے قتل کئے گئے۔
آج کے مسلمان کا مزاج کیا ہے۔ کوئی جائے اور اُخوت کالج کے پرنسپل مسٹر فل سٹرا سے پوچھ لے۔ یہ کہ کالج کے مسلمان منتظمین اور ماتحتوں کا روّیہ کیسا ہے۔ کالج کے طلبہ باپ کی طرح ان کا احترام کرتے ہیں یا نہیں؟ ڈاکٹر امجد ثاقب اس پیار سے انہیں لائے جس طرح کسی محبوب کو مدعو کیا جاتا ہے۔
دیدۂِ سعدی و دل ہمراہِ تست
تا نہ پنداری کہ تنہا می روی
وہ اسامہ بن لادن نہیں۔ اٹھائیس سالہ برینٹن ٹیرینٹ نے اپنے عزائم چھپا نہ رکھے، رائفل سجانے کی طرح کیمرے کی فکر بھی پوری طرح کی تاکہ اپنے ایسے کروڑوں کا دل ٹھنڈا کرے۔ اس کے خیال میں ان میں سے ایک صدر ٹرمپ اور ان کے لاکھوں ووٹر بھی شامل ہیں۔ جو کالوں، مسلمانوں اور چینیوں کو نفرت سے دیکھتے ہیں۔ جن کے لیڈر نے میکسیکو امریکہ سرحد پر دیوار تعمیر کی ہے۔ ٹیرینٹ کی رائفل پہ ایک حوالہ ویانا 1863 کا ہے۔ یہ وہ سال ہے سلمان ذی شان کی ترک افواج نے جب ویانا کا محاصرہ کر رکھا تھا۔ ارے بھائی، یہی وہ برس تھا، جب برطانوی حکومت نے ہندوستان میں ہزاروں علماء اور آزادی کا مطالبہ کرنے والے دوسروں کو پھانسیاں دیں۔
اس نے اعلان کیا کہ ٹرمپ سے وہ متاثر ہے۔ اسے یقین تھا کہ ٹرمپ کی فکر اس کی پشت پہ ہے اور پشت پہ رہے گی۔ جی ہاں وہ پاگل ہے۔ سب تخریب کار اور سارے دہشت گرد پاگل ہوتے ہیں۔ پھر نیویارک ٹائمز، ڈیلی انڈی پینڈنٹ، بی بی سی اور سی این این اسامہ اور اسی طرح کے دوسرے لوگوں کو پاگل کی بجائے اسلامی دہشت گرد کیوں کہتے ہیں؟ برینٹن ٹیرینٹ کو جکارتہ سے بوسنیا تک کسی نے عیسائی دہشت گرد نہ کہا۔ 1990 کے عشرے میں کوسوو والے جب بوسنیا کے اہل ایمان کا قتل عام کر رہے تھے‘ تب بھی ان کی قومیت کا حوالہ دیا گیا، مذہب کا نہیں۔ دیا بھی کیوں جاتا۔ حضرت عیسیٰؑ امن اور قرار بانٹتے تھے۔ عمر بھر امن اور قرار بانٹتے رہے۔
مغرب ایسا کیوں کرتا ہے؟ ان کے اخبارات اور چینل "Islamic terrorism" کی اصطلاح کیوں استعمال کرتے ہیں؟ کرتے ہیں تو ان کے دانشور اور ان کے لیڈر، شاعر اور ادیب، تھنک ٹینک ایسا کرنے سے انہیں روکتے کیوں نہیں؟ کیوں نہیں؟ مشورہ کیوں نہیں دیتے؟ نصیحت کیوں نہیں کرتے؟ ان کا تعاقب کیوں نہیں کرتے؟ ان سے بیزاری کا اظہار کیوں نہیں کرتے؟ مسلمان حکمران تو ایسے دہشت گردوں سے بیزار ہوئے۔ ان کا تعاقب کیا۔ ان کی حمایت کرنے والوں کا بھی۔ 
عالم اسلام کا یہ روّیہ مستقل ہے۔ زوال اور ادبار کے اس زمانے میں نہیں‘ اس وقت بھی جب مغرب میں کوئی عظیم سلطنت قائم نہیں تھی۔ اسلحہ اور افواج مشرق میں تھیں۔ جب باہم جڑے تین ملک دنیا کی تین عظیم سلطنتیں تشکیل دے چکے تھے۔ ظہیرالدین بابر، شیر شاہ سوری، ہمایوں، اکبر، جہانگیر اور شاہجہاں کا ہندوستان۔ اسماعیل صفوی اور اس کے جانشینوں کا ایران اور سلیمان ذی شان کا ترکی۔ 
افریقی ممالک سے کالے مسلمانوں کے جہاز بھر بھر کر امریکہ لائے جاتے ۔گیارہ کروڑمیں سے کم از کم چار کروڑ راستے میں مارے گئے۔ باقیوں کو غلام بنا لیا گیا ۔ان سے مفت کام لیا جاتا،کوئی معاوضہ نہ دیا جاتا۔ ہرگز کوئی معاوضہ نہیں۔ ان کا مذہب بدل ڈالا گیا۔ جبراً وہ عیسائی بنائے گئے۔ صدیوں تک ان کے دانشوروں اور اخبار نویسوں نے یہ حقیقت چھپائے رکھی۔ ان کی ستر اسی فیصد خواتین کی آبروریزی کی گئی ۔ان کے جلد کا رنگ کالا سیاہ نہ رہا۔ بہت سوں کی آنکھیں بھوری نیلی یا سبز ہو گئیں۔ ان کے اصل نام باقی نہ رہے۔ اپنے مسلمان اجداد کے مقدس اسما وہ اپنے بچوں کو نہیں دے سکتے تھے بلکہ وہ آقاؤں کے نام سے پکارے جاتے۔ صرف ان کے بال گھنگریالے رہ گئے۔
پھر ان سے تقاضا کیا گیا کہ جس طرح بھی ممکن ہو بالوں کو ''کانگ‘‘ یعنی سیدھا کریں۔ اس مقصد کے لئے جو کیمیکل مہیا کیا گیا ‘ اس سے گوروں نے اربوں ڈالر کمائے۔ سر کی جلد میں وہ تیزاب کی طرح اترتا۔ اسے صاف کرنے کے لئے ایک اور کیمیکل درکار ہوتا۔ کروڑوں اربوں ڈالر کا اتنا ہی بڑا کاروبار۔ انسانوں کی بجائے، ان سے حیوانوں کا سا برتائو کیا جاتا۔
انہیں بتایا جاتا کہ ذہنی طور پر وہ کمتر ہیں۔ وہ چپراسی، کلرک، باورچی، حجام، چوکیدار یا منشیات کا دھندا کر سکتے ہیں۔ ڈاکٹر، انجینئر اور سائنس دان نہیں بن سکتے۔ امریکی تاریخ کے عظیم ترین خطیب میلکم ایکس نے زمانہ طالب علمی میں اپنے مشفق و مہربان استاد کو بتایا کہ وہ وکیل بننا چاہتا ہے۔ اس نے کہا کیا تم پاگل ہو۔ یہ گوروں کے کام ہیں، تمہیں ایک استاد ،سائنس دان یا انجینئر نہیں بلکہ ایک اچھا اہلکار بننے کی تیاری کرنی چاہئے۔
گوروں کے مقابلے میں امریکی کالے اب بھی غریب ہیں، بہت غریب۔ گوروں میں سے بہت سے اب بھی افریقی اور ایشیائی اقوام سے نفرت کرتے ہیں۔ ٹیرینٹ کی رائفل پر لکھا ہوا پیغام دوسری اقوام سے امریکہ اور یورپ میں آ بسنے والوں کے نام ہے۔ یہی نہیں، سیاحوں کے نام بھی۔ اے گھٹیا لوگو! ہماری مقدس سر زمین کو تم اپنے وجود سے کیوں آلودہ کرتے ہو؟
کس کی یہ سر زمین تھی؟ امریکہ ریڈ انڈین کا تھا۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ بھی ایسی ہی قدیم نسلوں کے۔ ہزاروں برس پہلے یورپ کے سرد ویرانوں کو بلادِ شام کے مہم جوؤں نے آباد کیا تھا۔
رحمۃ للعالمینؐ نے ارشاد کیا تھا۔ تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے بنے تھے۔ گورے کو کالے اور کالے کو گورے پر، عربی کو عجمی اور عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں، مگر حسنِ کردار سے۔
سرکارؐ کی بات تو وہ کیوں سنتے؟ مساوات آدمیت کے پیغمبر جناب عیسیٰ علیہ السلام کی بات بھی وہ نہیں سنتے ہیں۔ ان کی آنکھیں وہ نیلی اور جلد گوری چٹی دکھاتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved