تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     16-03-2019

اخلاص …(1)

امام راغب اصفہانی لکھتے ہیں:اخلاص کے معنی ہیں:'' کسی چیز کو (ہرقسم کی میل اورکھوٹ سے)پاک کردینا،''خالص‘‘ صافی کے ہم معنی ہے‘لیکن خالص اُسے کہتے ہیں کہ اگر اس میں کوئی کھوٹ تھی‘تواُسے دور کردیا گیا ہو اور صافی اُسے کہتے ہیں:جو اصلاً پاک ہو،(المفردات فی غریب القرآن،ص:292)‘‘۔علامہ ابن منظور افریقی لکھتے ہیں:''خلوص اور خلاص کے معنی ہیں :اگر اُس میں کوئی چیز مل گئی ہو تو اُس سے پاک کردینااور لِلّٰہیت یا دین میںاخلاص کے معنی ہیں: دین کو اللہ تعالیٰ کے لیے خاص کردینااور''اَخْلَصَ الشَّیْئَ‘‘ کے معنی ہیں:کسی چیز کوچُن لینا اور پسندیدہ قرار دینا، اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کرنے کے سبب ابلیس کو جنت سے نکال دیا‘اُسے دھتکار دیااور روزِ قیامت تک اپنی لعنت کا سزاوار قرار دیا‘تو شیطان نے کہا: ''اے پروردگار!مجھے روزِ قیامت تک مہلت دیجیے‘اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''بے شک تو اُس دن تک جس کا وقت (ہمیں )معلوم ہے‘مہلت پانے والوں میں سے ہے‘اُس نے کہا: پس تیری عزت کی قسم! میں ضرور اِن سب (بنی آدم) کو گمراہ کروں گا، سوائے اُن کے جو اُن میں سے تیرے چنیدہ بندے ہیں‘(ص:79-83)‘‘۔ثعلب نے کہا: مُخلِصین وہ ہیں جو عبادت کو اللہ تعالیٰ کے لیے خالص کردیں اور مُخلَصین وہ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ خود خالص فرمادے اور وہ اس کے پسندیدہ وچنیدہ بندے ہوتے ہیں ۔عبادت میں اخلاص کے معنی ہیں: ریا سے پاک ہونا‘(لسان العرب، ج:7، ص:26)‘‘ ۔ سو اخلاص توحید ہے اور رِیااس کی ضد‘جسے رسول اللہﷺ نے شرکِ اصغر سے تعبیر فرمایا ہے‘حدیث پاک میں ہے: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''مجھے تمہارے بارے میں جس چیز کا سب سے زیادہ اندیشہ ہے‘وہ ''شرکِ اصغر‘‘ہے، صحابۂ کرامؓ نے عرض کیا: یارسول اللہؐ! ''شرکِ اصغر ‘‘کیا ہے،آپ ﷺ نے فرمایا: ''ریا‘‘، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ریاکاروں کی بابت فرماتا ہے:جب لوگوں کو اُن کے اعمال کا بدلہ دے دیا جائے گا(توریاکاروں سے کہاجائے گا:) تم اپنی جزا لینے کے لیے اُن لوگوں کے پاس جائو جن کے لیے تم (عبادات میں) ریاکاری کرتے تھے‘ذرا دیکھو تو کیا تم اُن کے پاس کوئی جزا پاتے ہو،(مسند احمد:23630)‘‘۔
علامہ کفوی نے کہا:'' اخلاص‘‘ قلب‘قول اور عمل (تینوں )کی پاکیزگی کا نام ہے‘‘۔چنانچہ جب حضرت ابوبکر صدیقؓ کی مرضِ وفات میں شدت آگئی اور انہیں اپنے جانشین کی فکر لاحق ہوئی‘تو انہوں نے حضرت عبدالرحمن بن عوف کو بلایااور پوچھا: عمر بن خطابؓ کے بارے میں مجھے رائے دو،انہوں نے کہا: آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں، حضرت ابوبکر صدیقؓ نے کہا: پھر بھی اپنی رائے تو دو، انہوں نے کہا: بخدا! آپ کی میرے بارے میں جو رائے ہے‘عمر ؓاُس سے افضل ہیں(یعنی مجھ سے افضل ہیں)،پھر انہوں نے حضرت عثمانؓ کو بلایا اور کہا: عمرؓ کے بارے میں مجھے رائے دو، تو انہوں نے کہا: آپ اُن کے بارے میں ہم سے بہتر جانتے ہیں، پھر انہوں نے حضرت علی کَرَّمَ اللّٰہ وَجْہَہٗ کو بلایااور اُن سے بھی وہی بات کہی‘پھر حضرت علی کَرَّمَ اللّٰہ وَجْہَہٗ نے فرمایا: بخدا! میرے علم کے مطابق اُن کا باطن اُن کے ظاہر سے اچھا ہے اور جماعتِ صحابہ کے درمیان اُن جیسا کوئی اور نہیں ہے‘(سیرت حلبیہ، ج: 3،ص:514)‘‘۔پس اللہ کے چنیدہ بندے (یعنی عبادِ مُخلَصین)وہ ہیں کہ جن کی فکر‘گفتار اور کردار یکساں ہواوران میں کوئی دورنگی یا سہ رنگی یا تضاد بالکل نہ ہو۔علامہ مناوی نے کہا: اخلاص یہ ہے کہ رب کی رضا مقصود ہو، بندوں کی خوشی یا ناخوشی پرمدار نہ ہو اور ایک قول کے مطابق اخلاص اس حقیقت کا نام ہے کہ (خرابی تو دور کی بات ہے) عمل خرابی کی تہمت اور الزام سے بھی پاک ہو۔پس اخلاص کی حقیقت یہ ہے کہ ماسِوی اللہ سے بے نیاز ہوجائے اور دین میں اخلاص یہ ہے کہ یہود میں جوذاتِ باری تعالیٰ سے تشبیہ اور نصاریٰ میں عقیدۂ تثلیث تھا، اُس سے بری ہوجائے‘ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''کہہ دیجیے:میرے رب نے مجھے انصاف کا حکم دیا ہے اور یہ کہ ہر نماز کے وقت اپنا رُخِ (بندگی) درست سمت میں رکھو اور دین کو اللہ کے لیے خالص رکھتے ہوئے اُس کی عبادت کرو، (الاعراف:29)‘‘۔پس اِخلاص کو آلودہ کرنے والی چیز ریا ہے۔ حضرت فُضیل بن عِیاض نے کہا: ''اگر کوئی گناہ کو لوگوں کے خوف سے ترک کرتا ہے‘تو یہ بھی ریا ہے اور اگر لوگوں کے دکھاوے کے لیے نیک عمل کرتا ہے تو یہ شرکِ اصغر ہے‘سو ریا اور شرک سے دین کو پاک کردینا اِخلاص ہے ‘‘۔
علامہ سید شریف جرجانی نے کہا:'' صِدق اور اِخلاص میں فرق یہ ہے کہ صدق اصل ہے اور اخلاص اُس کی فرع اور تابع‘ دوسرا فرق یہ ہے کہ صدق کا تعلق عمل میں داخل ہونے سے پہلے نیت کے ساتھ ہے اور اخلاص کا تعلق عمل میں داخل ہونے کے ساتھ ہے‘(التعریفات، ص:8)‘‘۔اس کی تائید اس حدیث مبارک سے ہوتی ہے:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''مومن کی نیت اُس کے عمل سے بہتر ہے (کیونکہ نیت قلبی کیفیت کا نام ہے اور نیت اچھی ہو یا بری‘اُس میں ریا کا دخل نہیں ہوتا، جبکہ عمل میں ریاکا شائبہ رہتا ہے) اور منافق کا عمل اُس کی نیت سے بہتر ہے اور ہر کوئی اپنی نیت کے مطابق عمل کرتا ہے‘ پس جب مومن عملِ(صالح) کرتا ہے تو اُس کے قلب میں ایک نور ہوتا ہے،(حلیۃ الاولیائ، ج: 3، ص:255)‘‘ ،کیونکہ منافق کی نیت کا فاسد ہونا تو یقینی بات ہے‘جبکہ بعض اوقات دنیاوی منافع یافریب دہی کے لیے وہ پرکشش انداز میں عملِ خیر کرسکتا ہے ۔
منافقینِ مدینہ کا حال اللہ تعالیٰ نے یوں بیان فرمایا:''اور لوگوں میں سے کچھ ایسے ہیں جو کہتے ہیں:ہم اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان لائے‘حالانکہ درحقیقت وہ مومن نہیں ہیں‘(وہ اپنی دانست میں)اللہ اور اہلِ ایمان کو دھوکا دیتے ہیں‘حالانکہ وہ (کسی اور)کو دھوکا نہیں دیتے، بلکہ (درحقیقت) اپنے آپ کو دھوکا دیتے ہیں‘لیکن (اس شِعارکے برے انجام کا)وہ شعور نہیں رکھتے، (البقرہ:8-9)‘‘۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:(1)''بے شک ہم نے (اس )کتاب کو آپ کی طرف حق کے ساتھ نازل کیا ہے، سو دین کواللہ کے لیے خالص رکھتے ہوئے اُس کی عبادت کیجیے‘سنو!دین تو خالص اللہ کے لیے ہے اور جن لوگوں نے اللہ کے سوا کارساز بنارکھے ہیں (وہ کہتے ہیں:)ہم تو اِن بتوں کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ کے قریب کردیں‘بے شک وہ جن امور میں اختلاف کرتے ہیں، اُن کے بارے میں اللہ فیصلہ فرمادے گا،(الزمر:2-3)‘‘۔ 
(2):''کہہ دیجیے! مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں دین کو اللہ کے لیے خالص کرتے ہوئے اس کی عبادت کروں اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں سب سے پہلا مسلمان بنوں، (الزمر:11-12)‘‘۔ اس میں رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا: آپ ﷺ اپنی امت کو یہ بتادیں کہ میں عالَمِ انسانیت کے ان رہنمائوں میں سے نہیں ہوں جو کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں، یعنی ان کے قول وفعل میں تضاد ہوتا ہے، بلکہ امت سے تو روزانہ پانچ اوقات کی نماز کا مطالبہ ہوا، مگر آپ ﷺ پر ایک روایت کے مطابق تہجد کی نماز بھی فرض تھی اور سورۂ مزمل میں بتایا کہ آپ ﷺ کی راتیں قیام میں گزرتیں۔ جہاں تک آپ ﷺ کے ''اول المسلمین‘‘ بننے کا حکم کا تعلق ہے‘تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اعلانِ نبوت کے بعد عالَم ظاہر میں آپ ''اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْن‘‘ہیں، کیونکہ آپ ''مُؤْمِنْ‘‘ بھی ہیں اور ''مُؤْمَنْ بِہٖ‘‘بھی (یعنی جس پر ایمان لایا جائے)،جبکہ صحابۂ کرام بعد میں مرحلہ بہ مرحلہ اسلام میں داخل ہوئے، ورنہ ابتدائے آفرینش یعنی عالَم ارواح میں بھی آپ ﷺ نہ صرف''اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْن وَالْمُسْلِمِیْن‘‘تھے،بلکہ ''اَوُّلُ الْاَنْبِیَائِ وَالْمُرْسَلِیْن‘‘ اور ''اِمَامُ الْاَنْبِیَائ‘‘علیہم السلام بھی تھے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''اور انہیں صرف اسی بات کا حکم دیا گیا ہے کہ وہ ہر طرف سے یکسو ہوکردین کو اللہ کے لیے خالص کرتے ہوئے اس کی عبادت کریں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں، یہی مُحکَم دین ہے، (البینہ:5)‘‘۔سو ایمان واعمال اور ظاہر وباطن کا اصل جوہر‘حُسن اور مرتبۂ کمال اخلاص ہے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ''بے شک اللہ تعالیٰ تمہاری (ظاہری) صورتوں اور اموال کو نہیں دیکھتا، بلکہ وہ تمہارے دلوں (کی کیفیات) اور تمہارے اعمال کو دیکھتا ہے، (صحیح مسلم: 2564)‘‘۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''اعمال (پر جزا) کا مدار نیّت پر ہے اور ہر شخص کے لیے وہی ہے‘جس کی اس نے نیت کی، سو جس نے اللہ اور اس کے رسول (کی رضا) کے لیے ہجرت کی تو اس کی ہجرت اسی مقصد کے لیے شمار ہوگی اور جس کی ہجرت دنیا (کی منفعت) پانے کے لیے یا کسی عورت سے نکاح کے لیے ہے‘تو اس کی ہجرت (عنداللہ) اسی کے لیے شمار ہوگی، (صحیح البخاری:1)‘‘۔
اب آئیے!قرآن کریم اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں دیکھتے ہیں : اخلاص پر مبنی اعمال اور ریاکاری پر مبنی اعمال کا اللہ تعالیٰ کے نزدیک صلہ وجزا کیا ہے :''حضرت ابوموسیٰ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ سے سوال کیاگیا:(یارسول اللہ!) ایک شخص دادِ شَجاعت پانے کے لیے لڑتا ہے اور ایک شخص (اپنے قبیلے، برادری یا قومی) حمیت کے لیے لڑتا ہے اور ایک شخص ریا (یعنی نمود) کے لیے لڑتا ہے،ان میں سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں کس کا لڑنا شمار ہوگا،تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو اس نیت سے لڑے کہ اللہ تعالیٰ کا کلمہ (یعنی دین) سربلند ہو، پس اسی کا لڑنا اللہ تعالیٰ کی راہ میں شمار ہوگا،(صحیح مسلم:1904)‘‘۔دوسری روایات میں بعض اور اشخاص کا بھی ذکر ہوا اور آخر میں یہی سوال ہوا کہ ان میں سے اللہ کی راہ میں کس کالڑنا ہے : ''ایک شخص مالِ غنیمت کے لیے لڑتا ہے‘ایک شخص اس لیے لڑتا ہے کہ اس کی شجاعت کے چرچے ہوں اور ایک شخص اس لیے لڑتا ہے تاکہ اس کی شان نظر آئے اور ایک شخص مغلوب الغضب ہوکر لڑتا ہے ‘‘۔اب عمل ایک ہی ہے‘ظاہری صورت میں کوئی فرق نہیں ہے، لیکن اس عمل کے پیچھے جو نیت یا ارادہ کارفرما ہے، آخرت کی جزا کا مدار فقط اس پر ہوگا۔ (جاری ہے)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved