اس دنیا میں صرف دو حقیقتیں ہیں‘ جن کی بنیاد پر ہمارا حساب کتاب ہونا ہے ۔ ایک خد ا اور اس کا رسولؐ اور خدا کی طرف سے ہدایت یافتہ عقل‘ جس کی بنیاد پر ہماری بخشش ہونی ہے ۔ دوسری خوفناک ترین حقیقت ہے نفس ۔ یہ نفس انتہائی خوفناک اور مکروہ عادتوں اور خواہشات کا مجموعہ ہے ۔ اگر عام فہم الفاظ میں اس کی تعریف بیان کرنا ہو تو آپ اسے انسانی دماغ میں حیوانی خواہشات و رجحانات کا مجموعہ کہہ سکتے ہیں ۔ جن لوگوں کو اللہ کی طرف سے اس کا علم دیا گیا ہے‘ وہ تو اسے اچھی طرح پہچانتے ہیں ۔ اس نفس کی مخصوص خواہشات ہوتی ہیں‘ جن کے بل پر یہ حرکت میں رہتا ہے ۔ یہ اسی طرح ہے‘ جیسا کہ اگر آپ ایک چھوٹے سے بچّے کے سامنے ٹافی یا روشنیوں والا ایک کھلونا نکال کر لہرائیں تو وہ لازماً اس کی طرف لپکے گا ۔ آپ جب ان عادات کا مشاہدہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتاہے کہ جانوروں اور انسانوں میں یہ عادات مشترک ہیں ۔
انسان چاہے تو نفس کی عادات کا مطالعہ کر سکتاہے ۔ سڑک پہ جاتے ہوئے دو دوستوں کو روکیے ۔ ان سے کہیں کہ آپ سے کچھ سوالات ہوں گے ۔ اس کے بعد آپ کو انعام دیا جائے گا۔ آپ ان سے سوالات کریں۔ پھر ایک کو سستا سا موبائل فون تحفے میں دیں ۔ دوسرے کو قیمتی فون دیجیے اور پھر سستے فون والے کا چہرہ دیکھ لیں ۔ آپ کو ساری کہانی کی سمجھ آجائے گی ۔یا آپ دو خواتین کو روکیے ۔ ان سے آسان سوالات کیجیے‘ جن کے جوابات وہ آسانی سے دے دیں۔ پھر ان کے جوابات کو درست تسلیم کیجیے۔ اس کے بعد ایک خاتون کو سونے کی انگوٹھی انعام میں دیں‘ دوسری کو چاندی کی دے دیں۔ اس کے بعد آپ خاموشی سے ان کے چہرے کے تاثرات دیکھیں۔ چاندی والی کی آنکھیں نم ہو جائیں گی ۔ جب کہ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ یہ چاندی کی انگوٹھی آپ کے منہ پر دے مارے ۔ اس کے برعکس اگر آپ اس کی سہیلی کو سونے کی انگوٹھی نہ دیں تو پھر وہ چاندی کی انگوٹھی بخوشی قبول کر ے گی ۔
بندروں میں یہ تجربات ہوئے ہیں کہ ان سے آسان سے Tasksکروائے جاتے اور پھر انعام (reward)دیا جاتاہے ۔ آپ ایک بندر کے پنجرے میں چھوٹا سا پتھر رکھ دیں۔ یہ تربیت یافتہ بند ر ہے‘ جسے معلوم ہے کہ پتھر اٹھا کر باہر رکھنے پر انعام دیا جائے گا ۔آپ کئی بار پتھر اس کے پنجرے میں رکھیں اور ہر دفعہ باہر رکھنے پر اسے کھیرے کا ایک ٹکڑا دیتے رہیں‘ وہ بخوشی قبول کر ے گا۔ اب آپ ساتھ والے پنجرے کے بندر کو پتھر اٹھا کر باہر رکھنے پر کھیرے کی جگہ کیلا دینا شروع کریں ۔ جب کہ پہلے بندر کو کھیرا ہی دیں، وہ یہ کھیرا اٹھا کے آپ کے منہ پر دے مارے گا ۔
انسان کو یہ بات معلوم نہیں کہ جیسے بندر پہ تجربہ کیا جا رہا ہے‘ اسی طرح خود انسان بھی ایک تجربے بلکہ آزمائش سے گزارا جا رہا ہے ۔ جس طرح نا انصافی پر بندر کھیرا اٹھا کر باہر پھینک دیتاہے‘ اسی طرح انسان کے ساتھ جان بوجھ کر بڑی calculationsکے ساتھ نا انصافی کی جاتی ہے اور اس پر اس کا ردّعمل نوٹ کیا جاتاہے ۔ انسان اور بندر میں فرق اتنا ہے کہ انسان کو کان میں بتا دیا گیاہے کہ تمہاری آزمائش کی جا رہی ہے ۔ بندر اس بات کو نہیں سمجھ سکتا کہ یہ آزمائش ہو رہی ہے ۔ گو کہ انسان کے لاشعور میں یہ بات موجودہوتی ہے کہ وہ آزمائش سے گزارا جا رہا ہے ۔ اس کے باوجود 100میں سے شاید تین چار ہی ایسے ہوتے ہیں کہ جو یہ جاننے کی وجہ سے صبر کرتے ہیں ۔ ورنہ ہوتا تو یہی ہے کہ نا انصافی کا شکار فوراً شکایت کرتاہے‘ غیبت کرتاہے اور نا انصافی کرنے والے کی طبیعت صاف کرنے کی جہدوجہد میں مصروف ہو جاتاہے ۔ جب کہ نا انصافی پہ ہنگامہ کرنا نفس کی وہ عادت ہے‘ جو کہ آپ کو جانور سے لے کر انتہائی عقلمند انسان تک ایک جیسی ہی نظر آئے گی۔
حقیقت یہ ہے کہ نفس اسی کرّہ ء ارض پہ پیدا ہوااور کروڑوں سال میں بخل اور لالچ سمیت اس کی سب عادات پختہ ہو گئیں۔ اس نفس کی عادت ہے‘ ہر چیز سمیٹنے کی ۔ یہ نفس آپ کو مگر مچھ جیسے reptileسے لے کر ہاتھی جیسے میملز اور چمینزی جیسے پرائمیٹس تک‘ سب میں ایک ہی جیسی خصوصایات کا حامل ملے گا ۔ یہی وجہ ہے کہ بھوکا کتا جیسے گوشت کی طرف لپکتا ہے‘ اسی طرح انسان بھی پرکشش چیزوں پہ جھپٹتا ہے۔یہی وجہ ہے ماہرین جب سائنسی بنیادوں پر جانداروں کا جائزہ لیتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ شروع میں جانداروں کے مختلف گروپس یعنی پرندوں‘ میملز، ریپٹائلزاورپرائمیٹس وغیرہ کے آبائو اجداد ایک ہی تھے ۔ آج سے بیس کروڑ سال پہلے کی بات ہے کہ میملز‘ریپٹائلز اور پرندوں سے الگ ہوئے ۔جب کہ سورۃ دہر کی پہلی آیت میں خدا یہ فرماتا ہے کہ انسان پر ایک طویل وقت ایسا بھی گزرا کہ جب وہ کوئی قابلِ ذکر شے نہ تھا ۔ انسان کا نفس وہی ہے‘ جو کہ ایک بکرے کا نفس ہے ۔ انسان کا سارے کا سارا جسم‘ اس کے گردے، پھیپھڑے‘ امیون سسٹم، آنکھ‘ جلد‘ خون کی نالیاں‘ nervesہر چیز بکرے اور لومڑ جیسی ہی ہے ۔
پہلا قدم یہ ہوتاہے کہ انسان ان چیزوں کو سمجھے۔ اس کے بعد وہ ان چیزوں کے خلاف جدوجہد کا ارادہ کرے۔ پھر وہ خدا سے مدد مانگے ۔ اس کے بعد وہ پہلا قدم اٹھائے ۔اس جدوجہد میں دو تین عشرے گزرنا کوئی بڑی بات نہیں اور یہ سفر انسان کی موت سے پہلے کبھی ختم نہیں ہوتا۔ اس طرح سے بالکل بھی نہیں ہوتا کہ جس شخص کو ہماری طرح نفس کی تھوڑی بہت شدبد ہو جائے، وہ اس کا ماہر بھی ہوگیا لیکن آگہی پہلا قدم ہے ۔ جب کہ اکثر انسان زندگی بھر کبھی اس کہانی کو سمجھ ہی نہیں سکتے بلکہ اپنے اپنے شعبوں میں بہت نامی گرامی لوگ بھی اس نفس کی عادات کی بنیاد پر اپنا ہر reactionدیتے ہیں اور زندگی بھر دیتے ہی رہتے ہیں ۔
فیس بک پر ایک دفعہ عظیم الرحمٰن عثمانی نامی بندے کا یہ قول پڑھا تھا''نفس سے ڈرو، اسی نے شیطان کو بہکایا تھا‘‘۔اس نفس کی ایک چالبازی دیکھیے کہ یہ جب بھی کسی کا جنازہ دیکھتاہے تو اسے بیچارہ کہہ کر انسان کو اپنی راہ لینے کا مشورہ دیتاہے ۔بہت کم یہ سوچتاہے کہ میں نے بھی مرنا ہے ۔ اس سے زیادہ اور انسان کی آنکھوں میں کیا دھول جھونکی جا سکتی ہے ۔آپ ایک لمحے کے لیے سوچیں کہ آپ اس دنیا میں اپنے بچوں سمیت جس جس سے بھی محبت کرتے ہیں‘ آپ کو یقینی طور پر معلوم ہے کہ ان سب نے بشمول آپ کے مر جانا ہے ۔لیکن آپ کو آج اس یقینی موت کا ذرا برابر خوف اور غم بھی نہیں ہے ؟ وجہ شاید یہ ہے کہ نفس انسان کو انتہائی short termمیں سوچتے رہنے پر مجبور کرتا ہے ۔ اگر یہ long termمیں سوچنے کا رجحان رکھتا تو کبھی کوئی بھی انسان خسارے کا سودا نہ کرتا۔ نہ ہی کوئی کسی کو قتل کر کے اپنی پھانسی یقینی بناتا ۔ نہ ہی کوئی الطاف حسین کی طرح مافیا تشکیل دیتا ۔ لیکن عقل لانگ ٹرم میں سوچ سکتی ہے ۔ خدا کی طرف سے ہدایت یافتہ عقل انسان کو راستہ دکھاتی ہے اور بند دروازے کھولتی ہے ؛لہٰذاہر انسان یا تو خدا کا عبادت گزار ہوتاہے یا پھر اپنے نفس کا!