کو ن کہتا ہے کہ ہمارے سیاسی نمائندے اتفاقِ رائے سے فیصلے نہیں کر سکتے۔ ذاتی مفاد ہو تو سیاسی کشیدگی فوراً بھائی چارے میں بدل جاتی ہے۔ بے شک ہمارا سیاسی ماحول تنگ نظری، نفرت اور تلخ کلامی سے بوجھل ہے، لیکن کیا کہنے پنجاب اسمبلی کے اراکین کے! کس طرح باہم شیروشکر پائے گئے۔ خیر موقع ہی کچھ ایسا تھا۔ اس سے بڑھ کر اتفاقِ رائے کیا ہوگا۔ کسی پارٹی کے کسی رکن کی طرف سے کوئی اعتراض نہ آیا کہ صاحب، آپ کیا کرنے جارہے ہیں؟ مالِ مفت، دلِ بے رحم۔
اچھا ہوا کہ وزیرِ اعظم عمران خان نے مایوسی کا اظہار کیا۔ خدا کی پناہ۔ قرضوں میں جکڑا ملک معاشی بحران کا شکار، وسائل محدود، ادائیگیوںکا توازن بگڑا ہوا، لیکن ذمہ داری کا ثبوت دینے کی بجائے ہمارے نمائندوں نے خود کو قومی وسائل سے نوازنے کا فیصلہ کر لیا۔ اسے خود غرضی، بلکہ بے حسی کے علاوہ اور کیا نام دیا جا سکتا ہے؟ ایک طرف عوام غربت کی چکی میں پس رہے ہیں، فلاح و بہبود کے کا م رکے ہوئے ہیں، ٹیکس کی وصولی شرمناک حد تک محدود ہے، پنجاب کے کئی علاقے صاف پانی جیسی بنیادی سہولت سے محروم ہیں، تو دوسری طرف اس کے اراکینِ اسمبلی اپنی تمام سیاسی مخالفت، بیان بازی اور دشنام طرازی کو بالائے طاق رکھ کر اپنی تنخواہیں‘ مراعات بڑھانے پر اتفاق کر لیتے ہیں۔ کیا پنجاب اور اس کے عوام کا سب سے بڑا مسئلہ یہی تھا؟
دیگر صوبوں کی طرح پنجاب بھی بے شمار مسائل کا سامنا کر رہا ہے۔ یکساں اور اعلیٰ معیار کی تعلیم، صحت اور علاج معالجے کی سہولیات ، اور سب سے بڑھ کر حکومتی اداروں میں رشوت ستانی ، غفلت اور کام چوری کا خاتمہ۔ آخر ان امور پر اتفاق کیوں نہیں ہوتا؟ اسمبلی میں ان مسائل پر بحث و تمحیص اور قانون سازی تو درکنار، کبھی ذکر تک سننے میں نہیں آیا۔ نہری پانی کی چوری، شہروں سے لے کر دیہاتوں تک گندگی کے ڈھیر، پلاسٹک بیگز۔ کیا ان پر قانون سازی میں کوئی امر مانع ہے؟ سادہ سے سوالات ہیں۔ جواب سب کو معلوم۔ حکمران طبقے کا جاگیردارانہ مزاج ، جاہ طلبی اور سیاست کے نام پر عیش۔ بادشاہت ہوتی تو بھی ایک بات تھی۔ ستم کہ سب کچھ جمہوریت میں ہورہا ہے۔
ہمارے زیادہ تر نمائندے دولت مند، اور متمول خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ زمیندار اور سرمایہ دار طبقے کی جمہوریت ہے۔ زرعی پیداوار پر یہ طبقہ ٹیکس نہیں لگنے دیتا۔ اسمبلی میں جاگیردار ہیں، تو وہ اپنی آمدنی پر کس طرح ٹیکس لگائیں گے؟ کہا جاتا ہے کہ زراعت پر پہلے ہی بہت سے ٹیکسز ہیں۔ زراعت، خاص طور پر زرعی مشینری، کھادوں اور ادویات پر ٹیکسز ضرور کم ہونے چاہئیں، لیکن ہم آمدنی کی بات کر رہے ہیں۔ بڑے بڑے زمینداروںکی بھاری بھرکم آمدن ضرور ٹیکس نیٹ میں آنی چاہیے۔ اسمبلی کے کرنے کے یہ کام ہیں۔ لیکن یہاں، عوام کی نظروں کے سامنے، ایک روشن دن وہ اسمبلی گئے اور اپنے لیے بے اندازہ تنخواہوں اور مراعات کا اہتمام کرلیا۔
دلیل یہ دی گئی کہ کافی عرصے سے اراکینِ اسمبلی کی تنخواہیں نہیں بڑھی تھیں۔ بڑھنی چاہئیں، لیکن کتنی؟ چند ہزار، یا چند گنا؟ اور ایسا اس وقت جب وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتیں خزانہ خالی ہونے کی دہائی دے رہی ہیں۔ لاکھوں ایسے لوگ ہیں جو مہنگی گاڑیاں چلاتے ہیں، عالیشان مکانات میں رہتے ہیں، غیرملکی سیاحت اُن کا معمول ہے، دولت کا برملا اظہار کرنے سے کبھی نہیں چوکتے، لیکن ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ اس سے زیادہ ریاست کی کمزوری اور کیا ہوگی؟
ان سطور کا مقصد جمہوریت کی خامی دکھانا نہیں، بلکہ جمہوری حق استعمال کرتے ہوئے اس ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرنا ہے۔ جمہوری فروغ سب کو عزیز ہے، لیکن اس کی آڑ میں اس قسم کی ناانصافی، اور نمائندگی کے نام پر لوٹ مار کی اجازت نہیں دی جا سکتی ۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اگر ہمارے نمائندوں کی ذمہ داری اور ترجیحات کا معیار یہی ہے تو ایسی جمہوریت کا خدا ہی حافظ۔
اس ملک میں جب کوئی بڑا گھپلا کرنا ہو، منظم طریقے سے کرپشن کرنی ہو، مراعات حاصل کرنی ہوں، تو سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ سیاست میں آ جائیں۔ یہاں ہر کام ہاتھ کی صفائی سے کیا جاتا ہے، کوئی ثبوت باقی نہیں چھوڑا جاتا۔ طمطراق یہ کہ انہوں نے قانون کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی۔ قانون تو وہی ہے جو ہم بناتے ہیں۔ کہنے کا مطلب ہے کہ ہم راستہ خود بناتے ہیں، کوئی جھول نہیں چھوڑتے۔
لیکن لوگ سو تو نہیں رہے۔ سوالات ضرور اُٹھیں گے۔ ان سے جواب نہیں بن پڑے گا تو جمہوریت خطرے میں ہے کی راگنی شروع ہوجائے گی۔ یہ جمہوریت نہیں، خود غرضی کی انتہا ہے۔ اب عوام سوچنے پر مجبور ہوچکے ہیںکہ خوشنما وعدوں کے چکر میں آکر اُنھوںنے کن کو اسمبلیوں میں بھیج دیا ہے۔
وقار تو پنجاب اسمبلی کے علاوہ تحریکِ انصاف کا گرا ہے۔ جب یہ فیصلہ کیا گیا تو کہاں تھی پنجاب کی تحریکِ انصاف کی قیادت؟ کیا یہ اقدام کپتان کی کفایت شعاری کی پالیسی کے خلاف نہیں تھا؟ ایک طرف ہم کشکول لے کر دوست ممالک کے سامنے دست بستہ ہیں‘ پہلے سکوت تھا، لیکن پھر عمران خان کے ٹویٹ کے بعد کچھ وفاقی وزرا نے حکومتِ پنجاب کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ لیکن اس سے سیاسی ساکھ کو جو نقصان پہنچا، اُس کا تدارک نہیں ہو گا۔ یقینا اس فیصلے پر یوٹرن کی ضرورت تھی، اور لے لیا گیا۔ اچھا کیا، لیکن کیا اس نے ایک سوچ نہیں اجاگر کردی؟ کیا کپتان کو اپنی صفوں میں دیکھنے کی ضرورت نہیں؟
دگرگوں معیشت کی بحالی کے لیے حکومت اصلاحات لانے کا راستہ ہموار کررہی ہے۔ دوسری طرف اپوزیشن اکٹھی ہو کر احتجاج کا راستہ اختیار کرنے کے لیے کمربستہ ہے تاکہ احتساب کا عمل آگے نہ بڑھنے پائے۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر نیا پاکستان واقعی بن گیا تو اس میں اُن کا سیاسی بھرم قائم نہیں رہ پائے گا۔ ایسے حالات میں پنجاب کی تحریکِ انصاف کو کیا سوجھی؟ یہ اخلاقی ہی نہیں، سیاسی لحاظ سے بھی ایک غلط فیصلہ تھا۔ قانون طور پر بھی، کیونکہ اسمبلی افراد کی مراعات کے لیے قانون سازی نہیں کر سکتی۔
بعض صورتوں میں تنخواہوں میں اضافہ ناگزیر ہوتا ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کرنا ہوتا ہے۔ اس کی وجہ مہنگائی ہوتی ہے۔ تو اسمبلی کے اراکین کی تنخواہوں میں اضافے کو بھی اسی شرح کے ساتھ منسلک کر دیا جائے۔ وہی شرح جو عوام کیلئے ہے۔ ہر مالی بجٹ پر تنخواہوں میں ہزار پانچ سو کا اضافہ۔
اس تمام صورتِ حال کا ذمہ دار کون ہے؟ ایسا لگتا ہے کہ پنجاب میں تحریکِ انصاف کی قیادت زمینی حقائق سے لا تعلق ہے۔ یہ نااہلی ہے، یا اقتدار کا نشہ؟ اُنہیں سمجھنا چاہیے کہ اُن کا پنجاب میں اقتدار کچھ چھوٹی جماعتوں کی حمایت کے مرہون منت ہے۔ یہ لوگ جہاندیدہ ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ کم تعداد رکھنے کے باوجود اقتدار اور اختیارات کے دسترخوان سے کس طرح زیادہ حصہ وصول کرنا ہے۔ اس فیصلے کے پیچھے انہیں کا ہاتھ ہو سکتا ہے تاکہ پنجاب میں یہ تاثر ارزاں کیا جائے کہ تحریک انصاف کی قیادت نااہل ہے۔
کپتان کا قوم کو دیا گیا سرپرائز، وزیرِ اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کہاں سو رہے تھے؟ اُن کے لیے تو سب سے زیادہ مراعات کا فیصلہ کیا گیا۔ بڑا گھر، بڑی گاڑی، تنخواہ وزیرِ اعظم پاکستان سے بھی زیادہ۔ یہاں وہ قائدِ ایوان ہیں۔ ہمیشہ کی طرح وہ خاموش رہے۔ اس کا مطلب ہے کہ جو کچھ ہوا، اُن کی مرضی سے ہوا؛ چنانچہ اب وہ، اور اُن کی پارٹی پنجاب کے عوام کے سامنے جوابدہ ہوں گے۔
وزیر اعظم صاحب کی طرف سے ناپسندیدگی کا اظہار کافی نہیں۔ عثمان بزدار کی وزراتِ اعلیٰ، کابینہ اور تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے منتخب ہوکر اسمبلی میں آنے والے نمائندے عمران خان صاحب کی مقبولیت کی وجہ سے ہیں۔ صوبائی خودمختاری ایک طرف، لیکن یہ پارٹی کی ساکھ اور اعتمادکا معاملہ ہے۔ پارٹی کو پہنچنے والے نقصان کا حریف فائدہ اٹھا سکتے ہیں، کہ وہ گھات میں بیٹھے ہیں۔ اگر ایسی غلطیاں ہوتی رہیں، گورننس بہتر نہ ہوئی، قانون سازی کے نام پر مفاد پرستی کا کھیل کھیلا جاتا رہا تو عوام میں مایوسی پھیلے گی۔ ضروری ہے کہ تحریکِ انصاف پنجاب میں بہتر، فعال اور ہوش مند قیادت سامنے لائے۔